" یہاں لوگ مردوں کو ووٹ نہیں دیتے، خواتین امیدواروں کو کیسے ووٹ دیں گے؟"

postImg

عمر باچا

postImg

" یہاں لوگ مردوں کو ووٹ نہیں دیتے، خواتین امیدواروں کو کیسے ووٹ دیں گے؟"

عمر باچا

خیبر پختونخوا کے شمال میں واقع دور دراز اور پسماندہ علاقے کوہستان سے ہمیشہ مذہبی جماعتوں کے اُمیدواروں نے قومی اور صوبائی نشستیں جیتی ہیں مگر اس دفعہ حیران کن طور پر دو صوبائی حلقوں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خواتین اُمیدواروں کو میدان میں اُتارا ہے اور یہ خواتین اپنی جیت کے لیے پرعزم ہیں، اگرچہ ان کے لیے علاقے میں کمپین کرنے میں دشواری پیش آنے کی امکانات موجود ہیں، لیکن وہ اس موقعے کو خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے جدودجہد کے لیے اہم سمجھتی ہیں۔

اگرچہ یہ خواتین پڑوسی اضلاع مانسہرہ اور ایبٹ آباد سے تعلق رکھتی ہیں مگر وہ پر اُمید ہیں کہ پارٹی ووٹ ان کو ہی ملیں گے۔

ضلع تورغر کی واحد صوبائی نشست پر بھی پی ٹی آئی نے خاتون اُمیدوار کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس طرح چترال سے بھی پہلی دفعہ خواتین اُمیدوار سامنے آئی ہیں مگر کیا یہ تمام خواتین ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گی؟

ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی مخصوص نشست پر منتخب سابق ایم پی اے اور پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی جوائنٹ سیکرٹری، مومنہ باسط کوہستان کے حلقہ پی کے 33، کولئی پالس سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر اُمیدوار ہیں۔انہیں فاختہ کا انتخابی نشان دیا گیا ہے۔

مومنہ باسط کوہستان کے اُس علاقے سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جہاں سے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات قومی اور بین القوامی میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہے ہیں اور خواتین کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

اس حوالے سے مومنہ باسط نے لوک سجاگ کو بتایا کہ یہ ان کی اور پارٹی کی خواہش تھی کہ وہ خواتین  سے براہ راست بات کریں، اُن کے مسائل جانیں اور انہیں ووٹ کی اہمیت اور حقوق کے حوالے سے شعور دیں۔ اس مہم سے  ایسے علاقوں میں خواتین ٹرن آؤٹ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ پہلی خاتون اُمیدوار ہیں جو  انتخابات میں جنرل سیٹ پر کوہستان کے حلقہ پی کے 33 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہیں مقامی پی ٹی آئی کے لیڈرز اور ورکرز کی  سپورٹ حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مذہبی جماعتیں ان پر پابندی نہیں لگا سکتیں کیونکہ ملک کے ہر شہری کو کسی بھی حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے کا حق ہے۔

مومنہ نے بتایا کہ ان کا مقابلہ جمعیت علماء اسلام (فضل) کے اُمیدوار کے ساتھ ہے جو کہ مقامی ہیں، مگر وہ مطئمن ہیں کہ لوگ حق سچ اور ظلم کے خلاف متحد ہیں اور ان کی جماعت کو ووٹ دیں گے۔

سردار ریاض اور مولانا عصمت اللہ کولئی پالس سے مضبوط اُمیدوار سمجھے جا رہے ہیں اور مولانا عصمت اللہ سابق ایم پی اے رہے ہیں۔

لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے مولانا عصمت اللہ نے بتایا کہ کوہستان میں قوموں (قبیلوں) یا امیدواروں کا ذاتی ووٹ ہے، انہیں نہیں لگتا کہ خاتون اُمیدوار کو اتنے ووٹ پڑیں گے۔

"ابھی تک پی ٹی آئی کے کسی عہدیدار یا خاتون اُمیدوار نے کمپین کا آغاز نہیں کیا ہے۔ یہاں لوگ مردوں کو ووٹ نہیں دیتے تو پھر خواتین اور پھر باہر سے آئی خواتین کو کیسے ووٹ دیں گے؟"

الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن 2017ء ایکٹ کے مطابق جنرل سیٹوں پر تمام پارٹیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ پانچ فیصد خواتین اُمیدوار سامنے لائیں۔ پانچ فیصد کوٹہ پورا کرنے کے لیے کوہستان جیسے حلقے جہاں پر نظریاتی ووٹ کم ہوتے ہیں، وہاں خواتین اُمیدواروں کو سامنے لایا گیا ہے۔

بونیر سے تعلق رکھنے والی سویرا پرکاش پہلی ہندو خاتون امیدوار ہیں جنہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے پی کے 25 سے میدان میں اُتارا ہے۔ انہیں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا پر کافی پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔

سویرا پرکاش نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پیپلز پارٹی سے ان کی وابستگی کافی پرانی ہے، اُن کے والد 35 سال سے پی پی پی میں ہیں اسی لیے پارٹی اور ذاتی خواہش سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

"بونیر کے عوام نے مجھے بونیر کی بیٹی کا لقب دیا ہے اور یہاں تک کہ مخالف جماعتوں کے لوگ بھی مجھے سپورٹ کر رہے ہیں۔ میں اپنی کمپین کے دوران پہلی عورت ہوں جو خواتین سے براہ راست بات کرتی ہے اور اُن کے مسائل سنتی ہے"۔

ڈاکٹر سویرا پرکاش نے بتایا کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنا اُن کی ترجیح ہے اور انہیں یقین ہے کہ وہ خواتین ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کا ریکارڈ بنائیں گی۔ انہیں امید ہے کہ بیشتر خواتین انہی کو ووٹ دیں گی۔

سویرا پرکاش کا مقابلہ ڈگر کے علاقے کے جے یو آئی اور اے این پی کے اُمیدواروں سے ہو گا۔

شکیلہ ربانی پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر تورغر کے حلقہ پی کے 41 سے اُمیدوار ہیں۔ ان کا تعلق بھی مانسہرہ سے ہے، انہوں بتایا کہ وہ تورغر سے پہلی خاتون اُمیدوار ہیں جو کسی جنرل الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور انہوں نے باقاعدہ کمپین کا آغاز کر دیا ہے۔

"پارٹی کی مقامی قیادت اور کارکن میرے لیے پہلے سے مہم چلا رہے ہیں اور عمران خان کا پیغام گھر گھر پہنچا رہے ہیں، میں خود بھی عمران خان کا خود پر اعتماد لے کر انتخاب لڑوں گی اور کامیابی حاصل کروں گی۔"

وہ کہتی ہیں کہ تورغر جیسے پسماندہ علاقے سے انتخاب لڑنا وہ اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہیں اور کامیاب ہو کر پسماندہ لوگوں کی زندگی بدل دیں گی، انہیں روزگار کے مواقع اور تعلیم، صحت کی سہولیات مہیاں کریں گے جس کی ان کو بہت ضرورت ہیں۔

چترال کے حلقہ پی کے 01 سے سورایا بی بی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اُمیدوار ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے ٹکٹ حاصل کرنے اور پسماندہ چترال سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ وہ پسے ہوئے طبقے کی حقوق کے لیے کام کر سکیں۔

"ماضی میں سیاست دانوں نے اس علاقے کو نظرانداز کیا اور ہمیشہ محروم رکھا ہے، بحیثیت مقامی فرد اور خاتون سیاستدان، میں یہاں کے مسائل کو اچھی طرح سے حل کر سکتی ہوں۔"

ان کا دعوٰی کیا کہ کہیں پر بھی انہوں نے مردوں کی جانب سے مخالفت یا رکاوٹ محسوس نہیں کی بلکہ وہ انہیں سپورٹ کر رہے ہیں۔

عظمیٰ ریاض، پی ٹی آئی ہزارہ ڈویژن کی خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ  ان کی جماعت  نے خیبرپختونخوا سے سات خواتین اُمیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے، جن میں ایک قومی (این اے) اور چھ صوبائی نشستوں کی امیدوار ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کی 45 قومی نشستوں میں سے 38 پر اُمیدوار سامنے لائی ہے جن میں تین خواتین این اے 24، این اے 38 اور این اے 39 کے لیے جبکہ پانچ خواتین اُمیدواروں کو صوبائی اسمبلی نشستون کے لیے میدان میں اُتارا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"سیاسی جماعتیں خواتین پر اعتماد نہیں کرتیں، انہیں مخصوص نشستوں تک محدود رکھا جاتا ہے"

پاکستان مسلم لیگ نواز نے این اے 24، این اے 29 اور این اے31 پر خواتین اُمیدوار نامزد کی ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے پانچ خواتین کو انتخابی ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام (فضل) اور اے این پی نے بھی خواتین اُمیدواروں کو میدان میں اُتارا ہے۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے کُل 266 حلقوں کے لیے ایک ہزار 780 مرد اور 93 خواتین مختلف پارٹیوں کی طرف سے میدان میں ہیں۔

تین ہزار 27 آزاد اُمیدوار ہیں جن میں 219 خواتین اور دو ٹرانسجینڈرز مقابلے میں شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے دو ٹرانسجینڈر سمیت ایک ہزار 834 اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے صوبائی صدر امیر مقام نے لوک سجاگ کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں خواتین سیاستدانوں کی کمی ہے، خاص طور پر عملی سیاست میں خواتین  کی نمائندگی کا بڑا مسئلہ ہے۔

"مگر الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق پانچ فیصد کوٹہ بھی پورا  کرنا ہے۔"

ن لیگ کی جانب سے خواتین امیدواروں کے بارے میں  ان کا کہنا تھا کہ تمام خواتین اپنے متعلقہ حلقوں میں مضبوط اُمیدوار ہیں اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے حلقے جیت جائیں گی۔

سابق سنیٹر اور پی پی پی خواتین ونگ کی صوبائی صدر روبینہ خالد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جنرل سیٹوں پر خواتین اُمیدواروں کی نامزدگی کے فیصلے کو سراہتی ہیں۔

"ملک کی تقریباً نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے جو  مناسب نمائندگی سے محروم ہے، خواتین کے حقوق کا تحفظ خواتین ممبرز ہی کریں گی"۔

تاریخ اشاعت 25 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.