موسلا دھار بارشوں کے بعد ضلع اپر دیر کے پہاڑی علاقوں میں واقع جنگلات، جھاڑیوں اور کھیتوں کے اطراف جنگلی کھمبیاں اگ آتی ہیں۔ یہ کھمبیاں بہت قیمتی ہوتی ہیں جنہیں مقامی زبان میں گوچی کہا جاتا ہے۔
اس مشروم کی افزائش مقامی لوگوں کیلئے آمدنی کا اہم ذریعہ ہے جو دن بھر گھوم پھر کر انہیں اکٹھا کرکے اچھے داموں فروخت کرتے ہیں۔
اسی کام سے وابستہ خائستہ رحمٰن بتاتے ہیں کہ سردیوں کے اختتام اور موسم بہار کی بارشیں شروع ہونے کے بعد بہت سے مقامی لوگ پہاڑی جنگلوں میں کھمبیوں کی تلاش کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ کھمبیاں کوہستان، براول، دوبندو، ہاتن درہ ، ڈوگ درہ و دیگر جگہوں بشمول ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع میں بھی پائی جاتی ہیں۔
خائستہ رحمن کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کھمبیوں کی تلاش کا کام بہت پرانا ہے۔ لیکن پہلے اس کی فروخت کا تصور نہیں تھا۔ لوگ انہیں تلاش کرکے خود کھایا کرتے تھے۔
لیکن وقت کے ساتھ انہیں اس کی اہمیت کا اندازہ تب ہوا جب بڑے شہروں اور بیرون ملک سے کاروباری لوگوں نے اسے اچھے داموں خریدنا شروع کر دیا۔
"اچھی خاصی رقم ملتی دیکھ کر ہم نے بھی اسے بطور روزگار اپنا لیا اور اب ہر سیزن میں یہاں چھوٹے بڑے سب جنگل، جھاڑیوں اور کھیتوں میں کھمبیوں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں کیونکہ سازگار موسم میں ہمیں کھمبیوں سے اچھی کمائی ہو جاتی ہے اور ایک سیزن کی کمائی سے سال بھر کے اخراجات بڑی حد تک پورے ہو جاتے ہیں۔
دشوار گزار پہاڑی راستوں میں کھمبیوں کی تلاش انتہائی کٹھن کام ہے۔
کھمبیاں ملنے کا انحصار بڑی حد تک قسمت پر بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے انہیں خوش قسمتی کی علامت مانا جاتا ہے۔
خائستہ رحمان کہتے ہیں کہ مقامی بزرگوں کی یہ کہاوت کہ 'کھمبیاں قسمت والوں کو ہی نظر آتی ہیں' بڑی حد تک درست ہے۔ بزرگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بڑوں کے بجائے بچے کھمبیوں کو جلد دیکھ لیتے ہیں۔ اسی لیے جب لوگ کھمبیوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں۔
خائستہ رحمان کے بقول فروخت کے وقت مارکیٹ میں خشک یعنی سوکھی ہوئی کھمبی کے نرخ زیادہ ہوتے ہیں جبکہ تازہ اور گیلی مشروم اس سے چند ہزار روپے سستی بکتی ہیں۔
آج کل مارکیٹ میں کھمبی کا ریٹ 27 ہزار سے 30 ہزار روپے فی کلو کلو تک ہے۔ تاہم وہ نہیں جانتے کہ بیوپاری اسے کتنی قیمت میں بیچتے ہیں۔
اپر دیر کے رہائشی گل زمین گزشتہ تیس سال سے مشروم کے کاروبار سے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگلی مشروم عام طور پر کھانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک سیزن میں ان جیسے کاروباری آٹھ سو سے ہزار یا پندرہ سو کلو تک کھمبیاں خرید لیتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں پشاور اور پنجاب کی بڑی منڈیوں کے کاروباریوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جو سیزن میں ٹنوں کے حساب سے کھمبیاں اکٹھی کرکے اسے ایران، یورپ اور امریکہ میں برآمد کرتے ہیں۔
انہوں نےمزید بتایا کہ یورپی ممالک میں خوراک کے علاوہ انہیں مختلف ادویات کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب سیزن اچھا ہو اور منڈی کی قیمتوں میں استحکام ہو تو اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
مونگ پھلی سونے کی ڈلی نہ رہی: کسان خریف کی اہم ترین نقد آور فصل سے منہ کیوں موڑ رہے ہیں
"یہ یقیناً کافی منافع بخش کاروبار ہے، لیکن کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس میں لاکھوں کروڑوں کے نقصان کا بھی امکان ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں قیمتیں گر جائیں تو بہت نقصان ہوتا ہے۔"
اپر دیر سے تعلق رکھنے والے کھمبیوں کے ایک اور تاجر دل آرام خان نے بتایا کہ ویسے تو وہ اخروٹ اور شہد کا کاروبار کرتے ہیں لیکن جب سیزن ہو تو کھمبیاں خریدتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ چھوٹے کاروباری ہیں اور دو یا تین لوگوں کے ساتھ شراکت کر کے کام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھی کھمبیوں کو زیادہ تر ایران برآمد کرتے ہیں۔ جب عالمی منڈی میں استحکام ہو تو انہیں محنت کا اچھا صلہ مل جاتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کھمبیوں کے کام میں وہ ہر وقت نقصان کے لیے بھی خود کو ذہنی طور پر تیار رکھتے ہیں۔
دل آرام خان کی رائے میں پچھلے چند سال میں کھمبیاں اکٹھی کرنے اور ان کی فروخت کے کام سے ہزاروں افراد نے اچھا روزگار پایا ہے اور اس سے علاقے میں لوگوں کے معاشی حالات میں بہتری آئی ہے۔
تاریخ اشاعت 7 ستمبر 2023