وادی تیراہ کے علاقے آدم خیل سے تعلق رکھنے والے کاشت کار واجد علی کو نایاب نسل کے تیندوے کے دو بچوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے پر مقدمے کا سامنا ہے۔
یہ واقعہ اس سال 14 فروری کو پیش آیا۔ اس روز وہ اپنے گھر میں موجود تھے کہ انہیں کتوں کا شور سنائی دیا۔ وہ بندوق لے کر باہر نکلے تو انہیں اخروٹ کے ایک درخت پر تیندوے کے دو بچے دکھائی دیے۔ کتے اسی درخت کے گرد جمع ہو کر بھونک رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں واجد علی کے ہمسائے بھی آ گئے اور ان تمام لوگوں نے تیندوے کے بچوں کو زندہ پکڑنے کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی ہوئی اور جان کے خوف سے واجد علی نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
کسی نے اس واقعے کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی جس سے دو دن بعد محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار علاقے میں پہنچ گئے جنہوں نے واجد علی کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا۔
قبائلی علاقے میں جنگلی حیات کو نقصان پہنچانے کے الزام میں کسی شخص کی گرفتاری کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع خیبر، اورکزئی اور کرم میں پھیلی وادی تیراہ اپنے قدرتی حسن اور خوشگوار موسم کی بدولت ایک خوبصورت سیاحتی مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں گھنے جنگلات جہاں اس کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں اور موسم کو خوشگوار رکھنے میں مددگار ہیں وہیں یہ کئی طرح کے جنگلی جانوروں اور پرندوں کا مسکن بھی ہیں۔
صوبائی محکمہ جنگلی حیات کے مطابق ان جنگلوں میں گرول، بھیگر اور مرغ زریں جیسے نایاب پرندے اور اڑیال ہرن، جنگلی بھیڑ، بھیڑیے، مارخور، خنزیر، تیندوے، لومڑی، سیہہ، گیدڑ اور بندر بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔
2018ء میں خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد قبائلی علاقوں میں جہاں ملک کے دیگر قوانین کا نفاذ عمل میں آیا وہیں جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین کو بھی ان نئے اضلاع تک وسعت دے دی گئی۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع کئی طرح کے جنگلی جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہیں
محکمہ جنگلی حیات کے سنٹر سرکل پشاور کے کنزرویٹر افتخار الزمان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انضمام سے پہلے یہاں جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون لاگو نہیں تھا اس لئے لوگوں میں جانوروں کی حفاظت کے حوالے سے زیادہ آگاہی نہیں پائی جاتی۔
تیراہ میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ہلاک کئے جانے والے تیندووں کی عمر تقریباً ڈیڑھ سال تھی اور وہ کسی جانور یا انسان کا شکار کرنے کے قابل نہیں تھے۔
گرفتار ہونے والے واجد علی نے پولیس کو بتایا ہے کہ اس واقعے سے چند روز قبل جنگلی جانوروں نے ان کے باڑے میں گھس کر چار بھیڑوں، تین بکریوں اور ایک گائے کو ہلاک کر دیا تھا جس سے ان کا بھاری مالی نقصان ہوا۔
''تیندوے کے بچوں کو ہلاک کرنا ہمارے علاقے میں ایک معمولی واقعہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ برسوں سے یہی روایت ہے کہ جب جنگلی جانور آبادی کے طرف آتے ہیں تو لوگ انہیں ہلاک کر دیتے ہیں۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا لیکن اب یہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے"۔
افتخار الزماں کا کہنا ہے کہ قوانین کے نفاذ کے بعد مقامی آبادیوں کو جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر ان کے علاقے میں کوئی خطرناک جانور بار بار انسانی آبادی کی طرف آتا ہو تو اس کی اطلاع محکمہ جنگلی حیات کے قریبی دفتر کو دیں۔
پچھلے کچھ عرصے میں محکمے کو ایسے مزید تین واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں ایک عمر رسیدہ چیتا گہری کھائی میں گر کر ہلاک ہو گیا تھا جبکہ دو واقعات میں لوگوں نے انہیں گولی مار دی تھی۔
تیراہ کے سماجی کارکن خورشید کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کی اکثریت کا انحصار کاشتکاری اور مال مویشی پالنے پر ہے۔ ان علاقوں میں پائے جانے والے جنگلی جانور خوراک کے حصول کے لیے لوگوں کے پالتو جانوروں اور فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اس لئے لوگ ایسے جانوروں کو ہلاک کرتے چلے آئے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں طویل عرصہ سے جاری بدامنی اور اس کے نتیجے میں فوجی کارروائیوں کے دوران بہت سے لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔ 15۔2014 میں جب یہ لوگ واپس لوٹے تو جنگلی جانوروں کے تعداد بڑھ چکی تھی جو انسانی آبادی بڑھنے کے ساتھ آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی لیکن مقامی کاشتکار اب بھی سویابین، لوبیا، آلو اور مکئی کی فصل کاشت کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کیونکہ سور اور سیہہ ان فصلوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔
افتخارالزماں کا کہنا ہے کہ دو سال پہلے جب ان کے محکمے نے صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں کام شروع کیا تو اس وقت امن و امان کی صورتحال بہتر تھی اور ان کے اہلکاروں کو دور افتادہ پہاڑی علاقوں تک بھی رسائی حاصل تھی۔ لیکن پچھلے چار ماہ میں حالات خراب ہو گئے ہیں جس کے باعث ان کے لئے کام کرنا آسان نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیں
'جنگلات ہماری ملکیت ہیں ان میں حکومتی مداخلت برداشت نہیں'
پشاور چڑیا گھر کے ایجوکیشن آفسر اعجازالحق کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافے اور منصوبہ بندی کے بغیر سیاحت کے باعث جانوروں کی محفوظ پناگاہوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ موسمی شدت کے واقعات اور زرعی مقاصد کے لئے جنگلات کی کٹائی سے بھی جنگلی جانوروں کو خطرات لاحق ہیں۔
خیبر پختونخو وائلڈ لائف اینڈ بائیوڈائیورسٹی ایکٹ 2015 میں ایسے اقدامات پر قید اور جرمانے کی سزائیں رکھی گئی ہیں جن سے جانوروں کی نسل کشی کا خطرہ ہو۔
اعجاز الحق کا کہنا ہے کہ یہ ایکٹ خیبر پختونخوا میں ہر طرح کی جنگلی حیات کو غیرقانونی شکار اور خرید وفروخت کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ معدومیت کے خطرے سے دوچار نایاب نسل کے جانوروں اور پرندوں کو گھروں میں پالنا بھی قانوناً جرم ہے۔ بعض پرندوں اور جانوروں کی خریدوفروخت اور انہیں گھروں میں پالنے کے لئے محکمہ جنگلی حیات سے اجازت نامہ لینا ضروری ہے جس کی ہر سال تجدید کروانا ہوتی ہے۔
تاریخ اشاعت 2 مئی 2023