کپاس کی پیداوار کیوں گر رہی ہے؟

postImg

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کپاس کی پیداوار کیوں گر رہی ہے؟

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

وہاڑی شہر کے مضافات میں واقع ایک گاؤں میں لیاقت علی چٹھہ ہر سال کی طرح اپنی اراضی پر کپاس کاشت کر رہے ہیں لیکن ان کے کھیتوں میں گزشتہ برسوں جیسی گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی۔ ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کپاس کے زیرِ کاشت رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ چار سال پہلے انہوں نے لگ بھگ 250 ایکڑ رقبے پر یہ فصل لگائی لیکن اب وہ اسے صرف 125 ایکڑ پر کاشت کر رہے ہیں۔

یہی رجحان در حقیقت پورے وہاڑی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ حکومتِ پنجاب کی کراپ رپورٹنگ سروس کے مطابق 2018 میں اس ضلعے میں تین لاکھ 81 ہزار ایکڑ پر کپاس کاشت ہوئی لیکن 2019-20 میں اس کا زیرِ کاشت رقبہ تین لاکھ 18 ہزار ایکڑ رہ گیا۔ 

اس تبدیلی کے اثرات پر بات کرتے ہوئے لیاقت علی چٹھہ کا کہنا ہے کہ "1980 کی دہائی کے اختتام تک اس اکیلے ضلعے میں اتنی کپاس پیدا ہوتی تھی جو پورے صوبہ سندھ میں پیدا ہونے والی کپاس کے 80 فیصد کے برابر ہوتی تھی۔ لیکن چند برسوں سے یہاں اس فصل کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے"۔  

ان کے مطابق ان جیسے بڑے زمین دار اب "صرف شوق کے طور پر" یہ فصل لگا رہے ہیں جبکہ ایسے زمین دار جن کے پاس 10 ایکڑ سے 12 ایکڑ زمین ہے انہوں نے "کپاس کاشت کرنا بالکل ترک کر دیا ہے"۔  

ان کے خیال میں اس تبدیلی کی سب سے اہم وجہ کپاس کے کاشت کاروں کی آمدن میں مسلسل کمی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک ایکڑ کپاس کی کاشت پر 50 ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والا منافع مکئی کے ایک ایکڑ پر اتنی ہی رقم خرچ کرکے حاصل ہونے والے منافع سے کہیں کم رہتا ہے۔ اسی لئے وہاڑی میں گزشتہ دو برسوں کے دوران مکئی کا زیرِ کاشت رقبہ دو لاکھ 40 ہزار ایکڑ سے بڑھ کر تین لاکھ نو ہزار ایکڑ ہو گیا ہے۔ 

وہاڑی ہی کے زمین دار عبدالحمید اعوان کپاس کے زیرِ کاشت رقبے میں کمی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "کسانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شاید کپاس کی فصل اچھی پیداوار نہ دے سکے کیونکہ اسے کیڑوں کے حملوں سے بچانے کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات زیادہ تر جعلی ہوتی ہیں جو فصل کو فائدہ دینے کے بجائے نقصان پہنچاتی ہیں"۔ 

پاکستان جرنل آف ایگریکلچرل سائنسز نامی جریدے میں کپاس کی فصل پر کیڑے مار ادویات کے اثرات کے عنوان سے 2011 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق ان کے نکتہ نظر کی تائید کرتی ہے۔ اس کے مطابق "کچھ کیڑے مار ادویات۔۔۔۔برسوں تک مٹی میں برقرار رہتی ہیں" لہٰذا ان کا کثرت سے استعمال زیرِ زمین پانی کو آلودہ کر دیتا ہے۔

اسی جریدے میں پنجاب کے ان علاقوں میں کیڑے مار ادویات کے نقصانات کا جائزہ لیا گیا ہے جہاں کپاس کاشت کی جاتی ہے۔ اس جائزے کے مطابق "ان ادویات کے اضافی استعمال سے کپاس کے کیڑوں میں ان کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے پیداوار میں بڑے پیمانے پر نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں"۔

عبدالحمید اعوان کی نظر میں اس کمی کی دوسری اہم وجہ غیر معیاری بیج ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "ہمارے پاس نہ تو کوئی اچھے بیج ہیں اور نہ ہی بیجوں کے حوالے سے حکومت کسانوں کو کسی قسم کی معاونت فراہم کرتی ہے"۔ 

وہ موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی کپاس کی پیدوار میں کمی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کیونکہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے ملکی زراعت کو پہنچنے والے نقصان کی نوعیت اور شدت کئی دوسرے ملکوں سے زیادہ سنگین ہے۔ ان کے باعث جہاں ایک طرف غیر متوقع بارشیں کپاس کی فصل کو تباہ کر رہی ہیں وہاں یہ کپاس دشمن کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں بھی اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ 

عبدالحمید اعوان کا کہنا ہے: "ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح یہ تبدیلیاں پاکستان سمیت پوری دنیا میں آ رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے حکومتی تحقیقی ادارے ایسے بیج یا کاشت کاری کے ایسے طریقے دریافت نہیں کر رہے جو نہ صرف بدلتے ہوئے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں بلکہ فصلوں کی پیداوار میں بھی اضافے کا باعث بنیں"۔ 

حکومتی عدم توجہ

کپاس کی ترویج کے لئے کام کرنے والی نِجی تنظیم پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق 15 سال قبل پاکستان میں کپاس کی ایک کروڑ 40 لاکھ گانٹھیں پیدا ہوئیں جو اُس وقت "انڈیا کی کپاس کی پیداوار سے بھی زیادہ تھیں"۔ (انڈیا اور پاکستان میں ایک گانٹھ میں 170 کلو گرام کپاس ہوتی ہے)۔ 

لیکن حالیہ برسوں میں اس پیداوار میں شدید کمی آ گئی ہے۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی گزشتہ ہفتے جاری کی گئی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے 2018-19 میں ہمارے ملک میں کپاس کی صرف 88 لاکھ گانٹھیں پیدا ہوئیں جبکہ 2019-20 میں یہ پیداوار مزید کم ہو کر 80 لاکھ گانٹھیں رہ گئی۔ (ویڈیو)

ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے زراعت کے شعبے میں جدید تحقیق پر توجہ نہ دینا اس کمی کا ایک اہم سبب ہے۔ اسی طرح اس کا کہنا ہے کہ کسانوں کو معیاری بیج کی نئی اقسام کی فراہمی اور جدید مشینری تک رسائی یقینی نہ بنانا بھی اس کمی کی اہم وجوہات میں شامل ہے۔  

پنجاب کے محکمہِ زراعت (توسیع) کے ڈائریکٹر جنرل محمد انجم علی  بٹر اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اس سال حکومت نے کپاس کے بیج کی 18 ایسی اقسام بنائی ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت رکھتی ہیں"۔ 

لیکن لیاقت علی چٹھہ جیسے زمین داروں کا دعویٰ ہے کہ "حکومت کے تیار کردہ بیج اس قدر ناقص ہیں کہ کسان انہیں بالکل استعمال نہیں کرتے بلکہ ان کے بجائے نجی کمپنیوں کے تیار کردہ بیجوں کو ترجیح دیتے ہیں"۔ 
 

زرعی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے میں سرکاری محکموں کی ناکامی بھی کپاس کی پیداوار میں کمی کا باعث بنی ہے۔ کسانوں کو شکایت ہے کہ یہ محکمے کبھی بھی جعلی کیڑے مار ادویات کی سپلائی اور فروخت پر قابو نہیں پا سکے جس کی وجہ سے کسانوں کو نہ صرف مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے بلکہ ان کی زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے۔   

اس ضمن میں ایک اہم سرکاری ناکامی پنجاب میں فصلوں کے لئے مختلف علاقوں کی تخصیص کے لئے بنایا گیا قانون ہے جس کا بنیادی مقصد کپاس کے لیے موزوں علاقوں میں گنے کی کاشت کی حوصلہ شکنی کرنا تھا لیکن اس پر کبھی عمل درآمد ہی نہیں ہوسکا۔ چنانچہ پنجاب اور سندھ کے وہ علاقے جو صرف کپاس کے لیے مختص تھے وہاں اب گنا اور مکئی کاشت کیے جا رہے ہیں۔  

عبدالحمید اعوان کی نظر میں یہ ناکامی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کپاس کی پیداوار بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں: "اگر اس قانون کے باوجود کپاس کی جگہ دوسری فصلیں کاشت کی جا رہی ہیں تو حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر ملک سے کپاس کی فصل بالکل ختم ہوتی جائے گی"۔   

محمد انجم علی  بٹر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ قانون کپاس کی پیداوار میں کوئی بہتری نہیں لا سکا۔ لیکن ان کے خیال میں اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کپاس کی فصل کسانوں کے لئے منافع بخش نہیں رہی۔ "لہٰذا قانونی پابندی کی موجودگی میں بھی کسان کپاس کے بجائے مکئی، دھان اور گنا کاشت کر رہے ہیں کیونکہ یہ فصلیں ان کے لئے زیادہ منافع بخش ہیں"۔ 

اس سوال کے جواب میں کہ حکومت کپاس کو ایک منافع بخش فصل کیوں نہیں بناتی ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے محکمے کا کام نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 27  مارچ 2021  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 25 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

زاہد علی ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور متعلقہ موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارسی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.