رحیم یار خان شہر سے 34 کلومیٹر دور نیشنل ہائی وے سے ملحقہ شیخ واہن نامی گاوں میں چائے کے ڈھابے پر کافی رش ہے۔ نوید احمد جو پیشے کے اعتبار سے چھوٹے زمیندار ہیں ابھی منڈی سے واپس آ کر یہاں بیٹھے ہیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی واضح ہے۔ دوستوں کے اصرار پر وہ بتاتے ہیں کہ ان کے برے دن آنے والے ہیں۔
ان کے بقول انہوں نے چار ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی تھی جس کی فی ایکڑ 32 من پیداوار آئی ہے اور فی من 3100 روپے میں فروخت ہوئی ہے۔
نوید احمد بتاتے ہیں کہ کٹائی اور تھریشر کی 28 من مزدوری اور گھر کے لیے 20 من گندم رکھ کر جو باقی 80 من فروخت کی ہے اس کی کل قیمت ڈھائی لاکھ کے قریب بنی ہے جو چار ایکڑ رقبے پر اٹھنے والے اخراجات سے بھی کم ہے۔
"یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ تین بچوں سمیت پانچ افراد پر مشتمل کنبے کے اخراجات کیسے پورے کروں گا جبکہ ابھی اگلی فصل کی تیاری کے لئے بھی اخراجات ہونا ہیں۔"
موضع کلر والی نام گاؤں کے 55 سالہ جام عبدالمجید کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ انھوں نے چھ ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی تھی جس کی اوسط فی ایکڑ پیداوار 40 من رہی ۔ ان کے مطابق ٹھیکے کے علاوہ ان کا فی ایکڑ 80 ہزار کے قریب خرچ آیا ہے۔ انھوں نے اپنی پیداوار کا دسواں حصہ مزارعوں کو بھی دینا ہے۔
جام عبدالمجید کہتے ہیں کہ ان کی فصل اگر سرکاری قیمت 3900 روپے میں بھی فروخت ہوجاتی تو شاید ان کی کچھ منافع ہو جاتا لیکن غلہ منڈی میں تو ریٹ تین ہزار روپے فی من چل رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بار جتنے خرچے فصل کی تیاری میں ہوئے اتنے ہی پیسے فصل فروخت کرکے مل جائیں تو بڑی بات ہو گی۔
"فصل کی تیاری میں بلیک میں ملنے والی کھادیں استعمال ہوئیں۔یوریا کھاد کی بوری تین ہزار 600 روپے گورنمنٹ کنٹرول ریٹ کی بجائے پانچ ہزار تک بلیک ریٹ پر اور ڈی اے پی ساڑھے گیارہ ہزار روپے کنٹرول ریٹ کی بجائے 14000 روپے میں ملی۔ نہری پانی کم ملنے کی وجہ سے ٹیوب ویل چلانا پڑا جس کی وجہ سے مہنگا ڈیزل استعمال ہوا۔ کیڑے مار ادویات پر الگ سے اخراجات ہوئے۔"
پنجاب بھر کی طرح ضلع رحیم یار خان میں بھی حکومت نے گندم کی خریداری ابھی تک شروع نہیں کی ہے۔
جام مجید اور نوید احمد تو سرکاری باردانہ لینے میں بھی ناکام رہے ہیں کیوں کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے نابلد ہونے کی وجہ سے باردانہ ایپ کا استعمال نہیں جانتے۔
کسانوں کی تنظیم ایگری فورم پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں شہبار شریف کے مطابق منصوبہ سازوں کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ آبادی کے 70 فی صد لوگوں کا روزگار زراعت سے جڑا ہے اور کورونا وبا کے بعد سے زرعی مداخل کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
ان کے مطابق گندم پر آنے والے اخراجات کو دیکھا جائے تو اس وقت مارکیٹ میں اس کی فی من قیمت پانچ ہزار روپے ہونی چاہیے اور کسانوں کو امید بھی تھی کہ ایسا ہی ہو گا لیکن جیسے ہی فصل تیار ہوئی حکومت پنجاب نے پرانی سرکاری قیمت کو برقرار رکھا جو سراسر ناانصافی ہے۔
" اب ہمارے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔"
کسان بچاو تحریک کے رہنما چوہدری یاسین کے مطابق نئی پالیسی کے تحت چھ ایکڑ والا کسان زمیندار ہے باقی کوئی نہیں۔ یہ کسان کا استحصال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کوئی ایکشن نہ لیا تو مارکیٹ میں گندم کی قیمت مزید گر جائے گی۔
ڈپٹی ڈائریکٹر زرعی اطلاعات پنجاب نوید عصمت کاہلوں کے مطابق ضلع رحیم یارخان میں گندم کی فصل کی بوائی کا ٹارگٹ سات لاکھ 14 ہزار ایکڑ اور پیدوار کا ٹارگت 13 لاکھ 19 ہزار ٹن تھا۔ فی ایکڑ گندم کی پیداوار کا ٹارگٹ 46 من فی ایکڑ مقرر کیا گیا تھا اور امدادی قیمت چار ہزار روپے ہونا تھی۔
"اس بار فصل اچھی ہونے کی وجہ سے ٹارگٹ پورے ہوئے ہیں۔"
گندم کی قیمت میں گراوٹ کے بارے میں بھی وہ الگ نظریہ پیش کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پچھلے ماہ ہونے والی بارشوں کی وجہ سے گندم میں نمی آ گئی تھی۔ جب کسان نمی والی گندم بیچنے جاتا ہے تو اس کو گندم میں نمی کی قیمت نہیں ملتی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ریٹ کم لگتا ہے۔
محکمہ خوراک پنجاب کے مطابق گزشتہ سال ضلع کی تین تحصیلوں لیاقت پور، رحیم یارخان اور صادق آباد میں گندم کی خریداری کا ہدف ایک لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن اور تحصیل خانپور میں پاکستان ایگریکلچر کارپوریشن نے ایک لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن رکھا تھا۔
ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر عبدالماجد خان کے مطابق ابھی تک پنجاب میں گندم کی سرکاری سطح پر خریداری شروع نہیں ہوئی ہے، نہ خریداری کا ہدف طے ہوا ہے اور نہ ہی پالیسی کی مکمل اپروول ہو سکی ہے۔
کسانوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ رواں سال کسانوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا جارہا ہے اس کے نتیجے میں وہ اگلی بار گندم کاشت نہیں کریں گے۔پھر یہی گندم پانچ کیا سات ہزار روپے من بھی نہیں ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟
چوہدری یاسین کہتے ہیں کہ اگر حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ اس بار ملک بھر بمپر کراپ ہوئی ہے اور آٹے کی قلت نہیں ہوگی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
" فلور ملز والے، ذخیرہ اندوز یا آڑھتیے گندم یا تو افغانستان اور ایران کے راستے سمگل کرنے کی کوشش کریں گے یا پھر مارکیٹ میں اس کی ترسیل کو روک کر چینی کی طرح مصنوعی قلت پیدا کریں گے۔ پھر حکومت کو ہی مارکیٹ میں گندم ریلیز کرنا پڑے گی، اگر اس کے پاس کم مقدار میں ہوگی تو پھر آٹے کے نرخ بہت بڑھ جائیں گے۔"
وہ کہتے ہیں کہ اگر تو حکومت کے پاس گندم کا چار پانچ سال کا سٹاک موجود ہو تو پھر خریداری کے عمل سے اس کا باہر ہو جانا سمجھ آتا ہے لیکن اس کے پاس تو چار مہینے کا ذخیرہ بھی نہیں ہوتا تو وہ ایسا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے۔
چوہدری یاسین کہتے ہیں کہ چینی، کھاد یا دوسری چیزوں کی قلت اور بلیک میں خرید و فروخت تو شاید برداشت ہوسکتی ہے لیکن اگر گندم یا آٹے کا بحران پیدا ہوا تو حکومت کے لیے یہ اچھا نہیں ہوگا۔ماضی میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
تاریخ اشاعت 6 مئی 2024