بلوچستان کے ضلع واشک میں 55 سالہ کریم بخش کا گھر ڈھائی ماہ پہلے سیلاب میں بہہ گیا تھا اور اب وہ بیوی اور سات بچوں کے ساتھ ایک خیمہ بستی میں مقیم ہیں۔ سیلاب آنے سے پہلے وہ اپنے گاؤں غریب آباد میں کھیتی باڑی کر کے روزی کماتے تھے لیکن سیلاب نے کھیت کھلیان اجاڑ دیے اور انہیں یوں لگتا ہے کہ ان کی زندگی بھی اجڑ گئی ہے۔
غریب آباد ایران کی سرحد سے تقریباً 35 کلومیٹر دور ہے جہاں انہوں نے دس سال کی محنت سے دو کمرےکا چھوٹا سا گھر بنایا تھا جو اب مٹی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ سیلاب کے بعد سرکاری محکمے کے چند اہلکاروں نے ان کے گاؤں کا دورہ کر کے تصاویر بنائی تھیں اور کھانے پینے کے سامان کے چند پیکٹ بھی دے گئے تھے جن میں زیادہ تر اشیا زائد المعیاد نکلیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ سیلاب کےبعد سر چھپانے کو درخت کا سایہ بھی میسر نہیں تھا۔ بچے شدید گرمی کے موسم میں خیموں میں جھلستے رہے۔ اب سردیاں آنے کو ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ اس موسم میں گزارا کیسے کریں گے۔
واشک پہلے ضلع خاران کی تحصیل ہوا کرتی تھی۔2005 ء میں تین تحصیلوں واشک، ماشکیل اور ناگ پر مشتمل الگ ضلع بنا دیا گیا۔اب اس ضلعے کی کل آبادی ایک لاکھ 76 ہزار ہے۔ واشک کے مغرب میں ایرانی سرحد مشرق میں ضلع خضدار، شمال میں چاغی اور جنوب میں ضلع پنجگور واقع ہے۔
اندازے کے مطابق ضلع واشک سے سالانہ لگ بھگ دس کروڑ کی کجھور ملکی مارکیٹ میں سپلائی کی جاتی ہے۔ یہاں کی 80 فیصد آبادی کا روزگار کجھور کے باغات سے منسلک ہے اور باقی 20 فیصد لوگ ایرانی پٹرول کے کاروبار پر انحصار کرتے ہیں۔
یہاں کھجور کے باغات کی آبپاشی کے لیے بارشوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ مقامی زمیندار بڑے بڑے بند باندھ کر برساتی ندیوں کا پانی جمع کرتے ہیں اور پھر یہی پانی کاریز کی طرح باغات کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ جولائی میں غیر معمولی برسات کے باعث یہ 'زمیندارہ بند' ٹوٹ گئے تھے جن سے نکلنے والے پانی نے علاقے میں تباہی مچا دی۔
سیلابی ریلوں نے غریب آباد، علیاں، بلوچ آباد اور قادر آباد و دیگر دیہات میں دو سو گھر ملیا میٹ کر دیے۔ اس آفت میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔ ان متاثرین کی بیشتر تعداد ترعلی زی، لوراج، محمد حسنی اور ریکی قبائل سے تعلق رکھتی ہے۔
اسی علاقے کے رہائشی ملنگ بلوچ ایرانی تیل کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے دوستوں سے 20 لاکھ روپے قرض لے کر ایک زمباد (ایران سے تیل لانے کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی ) خریدی تھی اور وہ سرحد سے تیل لا کر بیچتے تھے اور اسی سے ان کے دس افراد پر مشتمل خاندان کا گزارا ہوتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان جیسے دیگر لوگ اپنی زندگی کی قیمت پر بچوں کی روزی کماتے ہیں۔ کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب ایرانی فوج تیل والی گاڑیوں پر فائرنگ کر دیں۔ جب سیلاب آیا تو اس سے ایک روز پہلے ہی وہ سرحد سے آئے تھے اور دوبارہ واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
" سیلاب آیا تو گھر کی دیوار میری زمباد گاڑی کے اوپر جا گری۔ گھر اور روزگار دونوں ختم ہو گئے۔ 20 لاکھ روپے ادھار بھی واپس کرنا ہے۔ گاڑی کو مرمت کرانے پر بھاری اخراجات آئیں گے جو میرے پاس نہیں ہیں۔ میں پریشان ہوں کہ اب گھر کیسے چلاؤں گا اور ادھار کیسے چکاؤں گا۔"
35 سالہ کھیت مزدور گل محمد بتاتے ہیں کہ سیلاب کے بعد محکمہ ڈیزاسٹر منیجمنٹ نے انہیں اور دیگر متاثرین کو خیمے اور کچھ راشن فراہم کیا۔ این جی اوز، سابقہ ارکان اسمبلی عیسیٰ ریکی، مجیب محمد حسنی، قادر بلوچ اور زاہد علی ریکی نے ذاتی حیثیت میں متاثرین کی مدد کی۔ لیکن تین چار ہزار روپے کی امداد چند روز کی ضروریات کے لیے ناکافی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ متاثریں کو کسی نہ کسی طرح فوری ریلیف تو کسی حد تک مل گیا مگر ان علاقوں میں بحالی کام آج تک شروع نہیں ہو سکا۔ کچھ لوگ رشتہ داروں کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بیشتر خیمہ بستیوں میں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔رات کو مچھروں کی بھر مار ہوتی ہے۔ بچے بیمار ہو رہے ہیں اور علاج کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک: کوئٹہ میں سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام کب شروع ہو گا؟
تیس سالہ فرید سیلاب سے متاثرہ ایک اور گاؤں بلوچ آباد کے رہائشی اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ضلع واشک کے ڈپٹی کمشنر عبدالقدوس اچکزئی یہاں آئے تھے اور لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ سیاسی نمائندوں نے بھی کہا تھا کہ وہ ان گھروں کو دوبارہ تعمیر کر کے دیں گے لیکن ابھی تک کوئی عملی کام نظر نہیں آیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک سماجی تنظیم نے کچھ لوگوں کو پانچ پانچ ہزار روپے دیے ہیں جبکہ ایک اور نتظیم نے 30 خاندانوں کو مکان بنانے کے لیے دروازے اور کھڑکیاں فراہم کی ہیں۔ لیکن بحالی کے لیے جب تک حکومت آگے نہیں آئے گی ان متاثرین کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔
واشک میں حال ہی میں تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر سجاد عالم کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اپنا کام کر رہی ہے اور سیلاب سے متاثرہ دو سو کے قریب بے گھر خاندانوں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
"سیلاب کے دوران ہم نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ ہمیں لوگوں کے تکالیف کا احساس ہے۔ یہاں راشن اور دوائیں بھی پہنچائی تھیں اور بے گھر لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کی ہیں۔ جو ہمارے بس میں تھا کیا اور انشاء اللہ حکومت جلد ان سیلاب متاثرین کو گھر تعمیر کر کے دے گی۔"
تاریخ اشاعت 17 اکتوبر 2023