نصرت حسین طوفان 48 سال سے چارسدہ میں صحافت کر رہے ہیں۔ وہ کئی بڑے قومی و علاقائی اخبارات سے منسلک رہ چکے ہیں اور تین نیوز چینلز کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ صحافتی ادارے اضلاع کی سطح پر کام کرنے والے نمائندوں کو نہ صرف تنخواہیں نہیں دیتے۔ بلکہ ان سے سکیورٹی کے نام پر بھاری رقم (زر ضمانت) بھی وصول کی جاتی ہے جو ادارہ چھوڑنے پر اکثر اوقات واپس نہیں کی جاتی۔
"تمام صحافتی ادارے چاہے اشاعتی ہوں یا نشریاتی، علاقائی رپورٹرز کو صرف اپنا کام چلانے کے لیے خبر کی حد تک نمائندہ تسلیم کرتے ہیں۔ باقی کسی چیز کا خیال نہیں رکھتے، میرا ان کے ساتھ کام کا تجربہ نہایت مایوس کن رہا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صحافت اور عوام کی خدمت میں عمر گزار دی۔ اب یہ پیشہ چھوڑ کر دوسری جگہ طبع آزمائی کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی۔
ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں رپورٹر، سب ایڈیٹر، اسائنمنٹ ایڈیٹر، کیمرہ مین اور فوٹو گرافر سمیت سیکڑوں صحافی اخبارات و ٹی وی چینلز کے لیے کام کرتے ہیں۔ مگر ان کی اکثریت حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت بھی وصول نہیں کر پاتی۔
بیشتر صحافی ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت اعلان کردہ تنخواہوں سے محروم ہیں اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
وفاقی حکومت پچھلے 50 سال میں آٹھ بار صحافیوں کی تنخواہوں سے متعلق ویج ایوارڈ(اجرت کے تعین) کا اعلان کر چکی ہے۔ مگر آج تک کسی ایک پر بھی پوری طرح عمل نہیں کرا پائی۔
نیوز پیپرز ایمپلائی کنڈیشن آف سروس ایکٹ 1973ء کے تحت اخباری ملازمین کی تنخواہوں کا تعین کرنے والا ادارہ 'ویج بورڈ' کے نام سے تشکیل دیا گیا تھا جس میں حکومت ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا اس کے برابر عہدے کا فرد بطور چیئرمین تعینات کرتی ہے۔
اس بورڈ میں اخباری مالکان اور کارکن صحافیوں(یونین ) کے نمائندوں کی مساوی تعداد شامل کی جاتی ہے۔ یہی ادارہ مہنگائی کی شرح کے حساب سے اخباری ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کا تعین کرتا ہے اور میڈیا ملازمین کے گریڈز یا مراتب کے مطابق تنخواہوں کا فارمولہ طے جاتا ہے۔
عامل صحافیوں کے لیے پہلے ویج بورڈ 'شرائط خدمات آرڈیننس' کے تحت 1960ء میں تشکیل دیا گیا تھا۔ جس نے 31 دسمبر 1960ء کو ویج ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔
لیکن اخبار مالکان کی ناراضی سے بچنے کے لیے اس پر 13 سال عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ 1973ء میں 'شرائط خدمات' کا نیا قانون منظور ہوا۔ اگرچہ اس قانون پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہوا تاہم اس کے تحت 1994ء تک ہر پانچ سال بعد ویج ایوارڈ آنے کا سلسلہ جاری رہا۔
جولائی 2000ء سے ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کا اعلان ہوا تو میڈیا مالکان (تب نجی چینلز آ چکے تھے) نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
اس عرصے میں سرکاری اور نجی شعبے کی تنخواہوں میں 400 سے 500 فیصد تک اضافہ ہو چکا تھا۔ مگر صحافیوں کی چھ سال پہلے مقرر کی جانے والی اجرت پر نظرثانی نہیں کی گئی۔
اسی دوران میڈیا ہاؤسز میں کارکنوں کی چھانٹی شروع کر دی گئی جس پر ملازمین اور صحافیوں نے ویج ایوارڈ پر عمل درآمد کی تحریک کا آغاز کر دیا۔
پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے ایوارڈ نافذ کرانے کی کوشش کی لیکن اسے بھی میڈیا مالکان کے سامنے جھکنا پڑا۔
اسی اثناء میں میڈیا مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے ساتویں ویج ایوارڈ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور دعویٰ کیا کہ اخباری ملازمین (خدمت کی شرائط) ایکٹ 1973ء امتیازی قانون ہے اور اس کا مقصد آزادی صحافت کو دبانا ہے۔
حالانکہ ویج بورڈ ایوارڈ جیسے قانون پر بنگلہ دیش اور بھارت میں برسوں سے عمل ہو رہا تھا۔ مگر پاکستان میں مقدمے بازی شروع ہو چکی تھی۔
سپریم کورٹ کو اے پی این ایس کی پٹیشن خارج کرنے میں چار سال لگ گئے لیکن ساتھ ہی درخواست دہندہ سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ چاہے تو 'قابل دائرہ اختیار عدالت' میں جا سکتا ہے۔
اس فیصلے سے صحافیوں کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ میڈیا مالکان سندھ ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ جہاں یکے بعد دیگرے بنچ تبدیل ہوتے رہے اور کیس کی سماعت میں مزید پانچ سال لگے مگر فیصلہ نہیں سنایا گیا جس پر صحافیوں کو سپریم کورٹ جانا پڑا۔
عدالت عظمیٰ نے اگست 2009ء میں 90 دن میں کیس کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کی لیکن سندھ ہائی کورٹ نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔
ستمبر 2010ء کو ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا لیکن یہ فیصلہ 2011ء میں سنایا گیا۔ جس کو اخباری مالکان نے پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
میڈیا مالکان کی اس درخواست بازی کے باعث صحافی مالکان کی مرضی کی تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور رہے۔ 2018ء میں آٹھویں ویج ایوارڈ کا اعلان ہوا تو پھر چیئرمین کی تقرری کا تنازع شروع ہو گیا۔
یوں 2000ءسے 2019ء تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 511 فیصد اضافہ ہو چکا تھا جبکہ میڈیا ہاؤسز نے اس دوران ویج ایوارڈ تو درکنار، کم سے کم اجرت کے قانون پر بھی عمل نہیں کیا۔
اب تک یہی صورت حال برقرار ہے۔
چھتیس سالہ صحافی سفیر احمد چترال کے رہائشی ہیں۔ وہ پشاور میں ایک نجی ٹی وی چینل سے بطور کاپی ایڈیٹر منسلک ہیں۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹر ڈگری کرنے کے بعد 2007ء میں ریڈیو پاکستان سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔
سفیر احمد اسلام آباد میں روزنامہ دوپہر اور پشاور میں روزنامہ مشرق میں آٹھ سال بطور سب ایڈیٹر کام کرتے رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان پر خاندان کے پانچ افراد کی ذمہ داری ہے لیکن انہیں ادارے سے اتنی تنخواہ مل رہی ہے جو مزدور کی مقررہ کردہ کم سے کم ماہانہ اجرت سے بھی کم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق ادارے سے تنخواہ یا مراعات ملنا تو بہت دور کی بات ہے۔ انہیں آج تک یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کس گریڈ میں کام کر رہے ہیں۔
"اگر کہیں اور بہتر نوکری ملے تو صحافت کو خیرباد کہنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاؤں گا۔ جہاں ملازمت کا تحفظ ہو نہ بہتر تنخواہ، اور دوسروں کے لیے آواز اُٹھانے والا اپنا حق بھی نہ مانگ سکے تو ایسا پیشہ چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔"
سینئر صحافی اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر سیف الاسلام سیفی بتاتے ہیں کہ آٹھویں ویج ایوارڈ میں میڈیا ورکرز کو تنخواہوں میں پانچ ہزار سے ساڑھے آٹھ ہزار روپے کا عارضی ریلیف دیا گیا ہے۔ تاہم ان سفارشات پر بھی دو تین قومی اخبارات نے چند کارکنوں کی حد تک عمل کیا ہے۔
"یہ ویج بورڈ ایوارڈ بھی صرف پرنٹ میڈیا کے لیے ہے۔ اس میں الیکٹرانک میڈیا کے صحافی شامل نہیں ہیں۔"
ویج ایوارڈ پر عمل درآمد کے لیے نیوز پیپرز ایمپلائی کنڈیشن آف سروس ایکٹ 1973ء کے تحت محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں امپلیمنٹیشن ٹریبونل آف نیوز پیپر ایمپلائیز (آئی ٹی این ای ) کے نام سے ٹربیونل قائم کیا گیا ہے جس کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے۔
اس ٹربیونل میں اخباری اداروں سے وابستہ افراد ویج ایوارڈ کے مطابق تنخواہیں نہ ملنے کی شکایت کر سکتے ہیں۔
درخواست کی سماعت چیئرمین آئی ٹی این ای کرتے ہیں۔ وہ فیصلے پر عمل کرانے کے لیے ریونیو ایکٹ کے استعمال کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔
سیف الاسلام سیفی کہتے ہیں کہ عمل درآمد میں بھی شدید مسائل ہیں ۔ایک تو آئی ٹی این ای میں بھی درجنوں کیسز مدتوں سے زیر التوا ہیں۔ دوسرے اخباری کارکن اپنے تقرر نامہ (اپائنٹمنٹ لیٹر) کے بغیر کسی ادارے کے خلاف آئی ٹی این ای میں درخواست دائر نہیں کرسکتا۔
"یعنی تقررنامے کے بغیر آپ ادارے کے ملازم نہیں ہیں۔ اس کے خلاف آپ کا دعویٰ ہی نہیں بنتا۔ اس لیے اکثر صحافتی ادارے اپنے دفاتر یا اضلاع میں کام کرنے والے نمائندوں کو تقرر نامے جاری نہیں کرتے۔ جو لیٹر ہمیں ملتے ہیں وہ ان کی جانب سے بنائی گئی متبادل کمپنیوں کے ہوتے ہیں یعنی ان میں ادارے کا نام نہیں ہوتا۔"
یہ بھی پڑھیں
'ہم زندگی نہیں گزار رہے، زندگی ہمیں گزار رہی ہے'، بلوچستان میں سیکڑوں صحافی بغیر تنخواہ کام کرنے پر مجبور
خیبر پختونخوا میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین بتاتے ہیں کہ اب تک بارہواں ایوارڈ آ جانا چاہیے تھا لیکن آخری ویج ایوارڈ کو چار سال ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد خاموشی ہے۔
"چار سال بعد مہنگائی کتنا بڑھ چکی ہے اس کی کسی کو پروا نہیں۔ ایوارڈ پر عمل درآمد کی حالت یہ ہے کہ خیبر یونین کے 600 ممبران میں سے تین اخبارات (روزنامہ جنگ، ڈیلی دی نیوز اور ڈیلی ڈان ) کے بمشکل پانچ یا چھ افراد کو ویج بورڈ کے مطابق تنخواہیں مل رہی ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ نئے پیمرا ترمیمی ایکٹ کے تحت اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں کونسل آف کمپلینٹ قائم کی جائے گی جہاں الیکٹرانک میڈیا کے کارکن تنخواہوں میں تاخیر یا نہ ملنے کی صورت میں شکایات کر سکیں گے۔
" جب میڈیا کارکنوں کی آمدنی دہاڑی دار مزدور کے برابر بھی نہ ہو، تنخواہیں دینے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہو اور کئی کئی ماہ کے واجبات بقایا ہوں۔ ایسے میں ویج ایوارڈ کے برائے نام اعلان کا کوئی فائدہ نہیں، اس پر عمل کرانا ہو گا۔"
ایسوسی ایٹڈ ممبر اے پی این ایس اور روزنامہ آئین پشاور کے چیف ایڈیٹر راحت اللہ خان بتاتے ہیں کہ اخبارات کی آمدنی کا انحصار اشتہارات اور بزنس پر ہوتا ہے۔ اس لیے بڑے ادارے تو ویج بورڈ کے مطابق تنخواہیں دے سکتے ہیں لیکن چھوٹے اخبارات کے لیے یہ مشکل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کارکنوں کی تنخواہوں میں حکومت تعاون نہیں کر رہی۔ سرکاری اشتہارات کے چیک مہینوں بعد موصول ہوتے ہیں جو سابقہ اخراجات میں چلے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ورکروں کو تنخواہیں جیب سے دینا پڑتی ہیں۔
ڈیلی ٹائمز پشاور کے ایڈیٹر انچیف فضل الحق کا کہنا ہے کہ اس وقت حالات انتہائی خراب ہیں۔ اشتہارات بہت کم اور سرکولیشن نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے تنخواہیں میں ویج بورڈ کے سفارشات پر عملدرآمد مشکل ہے۔
"علاقائی نمائندوں کو اشتہارات میں 50 فیصد کمیشن دیا جاتا ہے۔ جسے ہم ان کی تنخواہ میں شمار کر لیتے ہیں کیونکہ انہیں تنخواہیں دینا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔"
لوک سجاگ نے ویج بورڈ ایوارڈ یا کم از کم اجرت کے حوالے سے آر ٹی آئی قانون کے تحت صوبائی محکمہ لیبر سے معلومات لینے کی کوشش کی۔ لیکن انہوں نے "یہ وفاق کا معاملہ ہے" کہہ کر جان چھڑالی جبکہ وفاقی سیکرٹری لیبر نے آر ٹی آئی کے تحت دی گئی درخواست کا تاحال جواب نہیں دیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ اطلاعات نے آر ٹی آئی کے تحت درخواست کے جواب میں خیبر یونین آف جرنلسٹس اور پشاور پریس کلب سے رجوع کرنے کا مشورہ دے کر خود کو بری الذمہ کر لیا جبکہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ( پی آئی ڈی) نےایک ماہ گزرنے کے باوجود جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔
تاریخ اشاعت 15 دسمبر 2023