پچپن سالہ مرتضیٰ فیصل آباد کے علاقے مکوآنہ کے رہائشی ہیں جو مقامی فیکٹری میں بطور ہیلپر کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قلیل آمدنی اور مہنگائی کے باعث ان کے لیےگھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہے جس کی وجہ سے ان کے بچوں کی تعلیم بالکل ختم ہو گئی۔
"تین، چار ماہ قبل محلے دار خاتون نے مشورہ دیا کہ میں اپنی 11 سالہ بیٹی عائشہ کو ایک خاتون کے گھر بھیج دوں جو سکول ٹیچر ہیں۔ بچی وہیں رہ کر ان کے چھوٹے موٹے کام کر دے گی اور خاتون اسے پڑھا دیں گی جس پر میں راضی ہو گیا"۔
وہ کہتے ہیں کہ اگلے روز نعمت کالونی کی رہائشی سکول ٹیچر راحیلہ ان کے گھر آئیں جنہوں نے یقین دلایا کہ وہ عائشہ کو اپنے بچوں کی طرح سکول میں داخل کریں گی۔
"ٹیچر راحیلہ نےکہا کہ ہم عائشہ کے کھانے پینے و دیگر ضرورتوں کا خیال رکھیں گے اور اسے چار ہزار روپے ماہانہ بھی دیں گے۔ یہ سمجھ دار بچی ہے اس کا مستقبل سنور جائے گا جس پر میں دھوکے میں آ گیا اور عائشہ کو راحیلہ کے ساتھ ان کے گھر بھیج دیا"۔
انہوں نے بتایا کہ 25 اور 26 فروری کی درمیانی شب راحیلہ اور ان کا بھائی اچانک ان کے گھر پہنچ گئے اور بتایا کہ عائشہ کی طبعیت خراب ہو گئی ہے جو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (الائیڈ II) میں زیر علاج ہے۔
"دونوں نے مجھے رقم کا لالچ دینا شروع کر دیا اور کہا کہ میں اس معاملے پر کسی سے کوئی بات نہ کروں"۔
مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ عائشہ کی اچانک بیماری کا سن کر انہوں نے اپنی بیٹی سے ملنے پر اصرار کیا تو وہ مجبوراً انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں ہسپتال لے گئے۔
"جب میں ہسپتال پہنچا تو عائشہ دم توڑ چکی تھی۔اس کے جسم پر جگہ جگہ زخم تھے اور واضح نظر آ رہا تھا کہ ان پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا ہے"۔
یہ سب بتاتے ہوئے مرتضیٰ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور شدت غم سے ان کی آواز رندھ گئی۔
الائیڈ ہسپتال انتظامیہ کی اطلاع پر 26 فروری کو ہی مدینہ ٹاؤن پولیس نے عائشہ کے قتل کے الزام میں نعمت کالونی کے رہائشی فضل الرحمن اور ان کی بہنوں سنیلہ طفیل اور راحیلہ کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا۔
ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتولہ عائشہ کے جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کے 18 نشانات پائے گئے جن میں سے بعض موت واقع ہونے سے دو، تین روز پہلے کے تھے۔
بچی کے قتل کی اطلاع پر سب سے پہلے ہسپتال پہنچنے والے ہیڈ کانسٹیبل طارق منیر بتاتے ہیں کہ لاش کی حالت دیکھتے ہی انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ عائشہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
مقدمے کے تفتیشی انسپکٹر عنایت علی کے مطابق عائشہ کی موت کی وجوہات کے تعین کے لیے سیمپلز پنجاب فرانزک لیبارٹری بھجوائے دیے گئے جبکہ تینوں ملزم جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملزمان، دوران تفتیش بچی کی موت کو کبھی 'اتفاقی حادثہ' تو کبھی اس کی وجہ 'الرجی' بتاتے ہیں جبکہ یہ سیدھا سادہ قتل کا کیس ہے۔ تاہم ڈاکٹروں نے لیبارٹری سے رائے مانگی ہے تاہم عنایت علی کے مطابق ملزمان کا سزا سے بچنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
فیصل آباد میں کسی بچی یا گھریلو ملازم کی تشدد سے ہلاکت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں ڈجکوٹ میں ایک سات سالہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا جبکہ مارچ 2023ء میں گلبرگ کالونی کے ایک گھر میں دس سالہ گھریلو ملازم لڑکے کو تشدد اور گلے میں پھندہ ڈال کر ہلاک کیا گیا تھا۔
بچوں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ سال ملک بھر میں بچوں کے خلاف جرائم اور تشدد کے سب سے زیادہ واقعات ضلع فیصل آباد سے رپورٹ ہوئے ہیں جن کی تعداد 888 ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق راولپنڈی میں بچوں پر تشدد کے 496، قصور میں 382، اسلام آباد میں 306، سیالکوٹ میں 266، گوجرانوالہ میں 169، لاہور میں 151، سرگودھا میں 104، رحیم یار خان میں 84 اور خیرپور میں 82 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
ساحل کے اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2023ء کے دوران مجموعی طور پر چار ہزار 213 بچوں کو جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں دو ہزار 251 لڑکیاں اور ایک ہزار 962 لڑکے شامل تھے۔
تشدد کا شکار ان بچوں میں سے دو ہزار 21 کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 61 کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
اسی سال کے دوران مختلف واقعات میں 286 بچے قتل کیے گئے جن میں سے 121 پر بے رحمانہ جسمانی تشدد بھی کیا گیا تھا۔
ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزہ بانو سمجھتی ہیں کہ بچوں کے خلاف تشدد اور جرائم کے زیادہ واقعات چونکہ گھروں کے اندر پیش آتے ہیں اس لیے ان کی روک تھام کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
ان کا ماننا ہے کہ بچوں سے بدسلوکی کی روکنے کے لیے ملک میں کوئی نوٹیفائیڈ نیشنل ایکشن پلان یا حکمت عملی تیار نہیں کی جا سکی جبکہ ایسے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ فوری اور سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔
فیصل آباد پولیس کے ترجمان انسپکٹر ملک شاہد نے اس ضلعے میں بچوں کےخلاف جرائم سے متعلق ساحل کے اعدادو شمار کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں پر جسمانی یا جنسی تشدد کے واقعات کا پولیس کے پاس الگ سے کوئی ریکارڈ یا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی ایسے جرائم پر قابو پانے کے لیے محکمے میں کوئی علیحدہ شعبہ موجود ہے۔
"بطور ادارہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دلوائی جائے لیکن زیادہ تر واقعات میں ورثاء اور ملزموں کے درمیان صلح یا لین دین کی وجہ سے مقدمات اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتے"۔
فیصل آباد میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی ڈسٹرکٹ آفیسر روبینہ اقبال کا کہتی ہیں کہ ان کا ادارہ جسمانی یا جنسی تشدد کی شکایت پر ان بچوں کو پولیس کے ذریعے ریسکیو کرتا ہے اور انہیں قانونی معاونت فراہم کرتا ہے۔
"بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کی بنیادی ذمہ داری پولیس کی ہے۔ ہمارے ادارے کا مینڈیٹ بے سہارا بچوں کو رہائش، تعلیم وصحت کی سہولتیں دینا اور انہیں ہنرمند بنانا ہے تاکہ وہ باعزت زندگی گزار سکیں"۔
ساحل کے لیے ڈیٹا جمع کرنے والی ٹیم کے سربراہ وقاص حمید بتاتے ہیں کہ ضلع فیصل آباد میں رپورٹ ہونے والے زیادہ تر کیس تحصیل جڑانوالہ، سمندری اور تاندلیانوالہ کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات ضلع فیصل آباد میں زیادہ کیوں ہو رہے ہیں؟ اس بات کا جواب کسی بھی ادارے کے پاس نہیں ہے۔
تاہم چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں بچوں کی نفسیاتی بحالی پر کام کرنے والی سائیکالوجسٹ ماریہ حسین کا خیال ہے کہ بیروزگاری و غربت میں اضافہ اور تعلیم کی کمی فیصل آباد میں بچوں پر تشدد کے اضافے کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔
"فیصل آباد صنعتی شہر ہےجہاں دور دراز سے لوگ روزگار کے لیے آتے ہیں۔ اس لیے یہاں چائلڈ لیبر اور بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے کا زیادہ رحجان بھی بچوں پر تشدد کے واقعات بڑھنے کی وجہ ہو سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ لاہور اور کراچی بڑے شہر ہیں مگر وہاں ایسے واقعات فیصل آباد کی نسبت کم پیش آتے ہیں جس پر متعلقہ اداروں کو تحقیقات کر کے سدباب کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں
گھریلو ملازم بچوں پر تشدد: با اثر مالکان کے سامنے والدین بے بس اور قانون خاموش۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر رانا اعجاز علی خان نے 2003ء میں فیصل آباد اور پاکپتن میں چائلڈ لیبر پر تحقیق کی تھی جنہوں نے اس وقت بھی نشاندہی کی تھی کہ فیصل آباد میں بچوں پر تشدد کے واقعات تشویشناک حد تک زیادہ ہیں۔ اس کی بڑی وجہ انہوں نے چائلڈ لیبر کے رحجان کو قرار دیا تھا۔
انہوں نے اپنی تحقیق میں چائلڈ لیبر کی بڑی وجوہات غربت، محدود آمدنی اور گھریلو تنازعات بتائی تھیں اور لکھا کہ مزدوری کرنے والے بچوں پر تشدد کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بچے زیادہ تر ان گھرانوں سے آتے ہیں جہاں ماں گھریلو فیصلہ سازی کا حصہ نہیں ہوتی یا بچوں کو سکول بھیجنے کا رحجان کم ہوتا ہے۔
ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزہ بانو کے مطابق آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت پانچ سے 16 سال تک تعلیم مفت ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ بچے سکول میں داخل ہی نہیں کرائے جاتے۔
"بچوں پر تشدد ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے اور ہمارے معاشرے میں سب سے کمزور فریق بچے ہی ہوتے ہیں جنہیں ہر کوئی اپنا غصہ یا ڈپریشن نکالنے کے لیے آسان ہدف سمجھتا ہے"۔
نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروقی بتاتی ہیں کہ ان کا ادارہ بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے قانونی اور ادارہ جاتی میکانزم کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
"ہم این سی آر سی ایکٹ 2017ء کے تحت بچوں کے خلاف جسمانی و جنسی تشدد، استحصال اور سمگلنگ کی روک تھام کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سفارشات بھیجتے ہیں تاہم ہمارے پاس کسی ادارے یا فرد کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے"۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کو بھی یہی شکوہ ہے کہ پاکستان بچوں کے حقوق کے کنونشن (سی آر سی) کی توثیق کے تقریباً 30 سال بعد بھی کوئی عالمی معیار کا مربوط چائلڈ پروٹیکشن کیس مینجمنٹ اور ریفرل سسٹم قائم نہیں کر سکا۔ نہ صرف یہ بلکہ 1996ء کے پہلے اور آخری سروے کے بعد چائلڈ لیبر کے حوالے سے ایک قومی سروے تک نہیں ہو سکا۔
تاریخ اشاعت 7 مارچ 2024