غصے سے بھرے نوجوان اپنے دیہات کو جانے والے راستوں پر پھر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں اور وہ ان راستوں سے گزرنے والے ہر اجنبی کو روک رہے ہیں۔ اگر ان مسافروں میں کوئی سرکاری افسر ہو جو ایک ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں ان کے علاقے میں سروے کے لیے آ رہا ہو تو یہ نوجوان اسے یہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
ان نوجوانوں کا تعلق لِنگ نالے کے ساتھ واقع سات دیہات سے ہے۔ یہ نالہ ضلع راولپنڈی کی جنوب مشرقی پہاڑی تحصیل کہوٹہ سے شروع ہو کر روات نامی قصبے کے قریب ایک وادی سے گزرتا ہے۔ یہ قصبہ راولپنڈی شہر کے مرکز سے جنوب مشرق میں قریباً 19 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے۔
پنجاب کی صوبائی حکومت نے حال ہی میں ان دیہاتوں کی زمینوں پر ایک ڈیم کی تعمیر کا ایسا منصوبہ شروع کیا ہے جو پچھلے پندرہ سال سے سرکاری دفتروں کی فائلوں میں پڑا تھا۔ حکومت ضلع راولپنڈی کی تین تحصیلوں میں زمین کے حصول سے متعلق قانون کی اس دفعہ کا بھی نفاذ کر چکی ہے جس کے نتیجے میں اسے ڈیم کی تعمیر کے لیے درکار 18,566 کنال زمین حاصل کرنے کا قانونی اختیار مل گیا ہے۔
لِنگ نالے کے کنارے ایک دلکش گاؤں بڑوالا کے رہائشی عمران کیانی کہتے ہیں: 'ڈیم سے قریباً ایک ہزار خاندان متاثر ہوں گے۔ جب وہ یہاں سے بے گھر ہو جائیں گے تو پھر انہیں کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں ملے گا'۔ اگر ڈیم کی تعمیر کا عمل حکومتی منصوبے کے مطابق آگے بڑھتا ہے تو ان کے اپنے گاؤں میں 250 خاندان بے گھر ہو جائیں گے۔
یہ ڈیم ددہوچھہ نامی گاؤں کے قریب بن رہا ہے اسی لیے اسے سرکاری طور پر ددہوچھہ ڈیم کا نام دیا گیا ہے۔
راولپنڈی میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے سجاگ کو بتایا ہے کہ حکومت ضلع راولپنڈی کو پانی کی فراہمی کے لیے ددہوچھہ ڈیم کی تعمیر کو انتہائی اہم سمجھتی ہے کیونکہ اس ضلعے میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ ڈیم نا صرف گھریلو استعمال بلکہ زرعی مقاصد کے لیے بھی پانی فراہم کرے گا'۔
ددہوچھہ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ درحقیقت 2018 میں شروع ہوا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے راولپنڈی میں پانی کی کمیابی کا از خود نوٹس لیا۔ اس سلسلے میں ہونے والی عدالتی سماعتوں کے دوران ایک مرتبہ پاکستان کی سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین نے کہا کہ وہ اپنے ذاتی سرمائے سے یہ ڈیم تعمیر کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے انہوں نے شرط رکھی کہ افسرشاہی اس کی تعمیر کے عمل میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گی۔ تاہم بعد میں پنجاب حکومت نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ دو سال میں خود یہ ڈیم تعمیر کر سکتی ہے۔
اس یقین دہانی کو دو سال گزر چکے ہیں لیکن ڈیم کی تعمیر تا حال شروع نہیں ہوئی۔
اکتوبر 2020 میں صوبائی حکومت نے ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دیا جو پاکستان آرمی انجینئرنگ ونگ ہے۔ ایف ڈبلیو او سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ تین سال میں ڈیم کی تعمیر مکمل کر لے گی۔ اس کام پر اندازاً چھ ارب روپے لاگت آئے گی۔ (اس خرچے میں زمین کے حصول پر خرچ ہونے والے چھ ارب روپے شامل نہیں ہیں)۔
دوسری جانب دیہاتیوں کو اس بات کا ابھی تک صحیح طرح سے علم نہیں ہے کہ ڈیم کتنی جگہ گھیرے گا اور اسے دراصل کس جگہ تعمیر کیا جانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں مگر ابھی تک انہیں اپنے ان سوالات کا جواب نہیں ملا۔ بڑوالا ہی کے ایک رہائشی اجمل کیانی کا کہنا ہے کہ 'ضلعی انتظامیہ کو خود بھی یہ اندازہ نہیں ہے کہ ڈیم کی جھیل کتنے رقبے پر محیط ہو گی'۔
نیوز میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت 60,000 ایکڑ فٹ ہو گی۔ اگر اس میں پانی 'ڈیڈ لیول' (کم ترین سطح) تک پہنچ جائے تو اس صورت میں بھی اس میں 15,000 ایکڑ فٹ پانی موجود ہو گا۔
تاہم مقامی لوگوں نے ٹھان رکھی ہے کہ جب تک ان کے مطالبات نہیں سنے جاتے اس وقت تک وہ ڈیم کی تعمیر شروع ہونے نہیں دیں گے۔
عمران کیانی کا کہنا ہے کہ 'ڈیم سے متاثرہ دیہات کے سرکردہ لوگ گزشتہ ہفتے اکٹھے ہوئے۔ اس موقع پر تقریباً ایک ہزار لوگ موجود تھے جو سب کے سب بعد میں ایف ڈبلیو او کے سائٹ آفس میں گئے اور اسے کام روکنے پر مجبور کر دیا'۔
دیہاتیوں کے اس اکٹھ کے بعد راولپنڈی کے اسسٹنٹ کمشنر نے بھی اس علاقے کا دورہ کیا۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو ایف ڈبلیو او کے خدشے سے آگاہ کیا کہ اگر ڈیم کی تعمیر فوری شروع نہ ہوئی تو اس سے ٹھیکہ واپس لیا جا سکتا ہے۔ عمران کیانی کہتے ہیں 'انہوں نے ہم سے التجا کی کہ ہم ایف ڈبلیو او کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اسسٹنٹ کمشنر نے ہمیں یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ہمارے مطالبات ایک ہفتے میں ہی پورے کر دیے جائیں گے'۔
یہ ڈیڈ لائن ختم ہو چکی ہے لیکن صورت حال جوں کی توں ہے۔ عمران کیانی کا کہنا ہے کہ 'اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم دوبارہ ایف ڈبلیو او کے سائٹ آفس کی جانب مارچ کریں گے'۔
ایک زمین دو قیمتیں
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فوج کا ادارہ ہے جو راولپنڈی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے رہائشی منصوبے چلاتا ہے۔ اس نے 2000 کی دہائی میں راولپنڈی میں ڈی ایچ اے ویلی نامی اپنے رہائشی منصوبے کے لیے بڑوالا، ددہوچھہ اور ملحقہ دیہات میں 18,000 کنال زمین حاصل کی تھی۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے زمین کے حصول کا عمل غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کر دیا۔ تاہم بڑوالا کے رہائشی اجمل کیانی کے مطابق اس زمین پر ڈی ایچ اے کا قبضہ بدستور قائم ہے۔
ایک مقامی رہائشی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ڈیم کی اصل جگہ میں وہ زمین بھی آتی ہے جو ڈی ایچ اے کے قبضے میں ہے لیکن ان کا الزام ہے کہ ڈی ایچ اے نے ڈیم کی جگہ تبدیل کرانے کے لیے پنجاب حکومت پر دباؤ ڈالا ہے۔
دوسری طرف ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کام کرنے والے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا بلکہ حکومت ددہوچھہ کے پاس اسی جگہ ڈیم بنانے جا رہی ہے جہاں وہ ہمیشہ سے اسے بنانا چاہتی تھی۔
اس کے باوجود بڑوالا کے رہائشی اور ایک سکول میں استاد کے طور پر کام کرنے والے حمید کیانی کی تشویش دور نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے: 'ہم قومی مفاد میں ڈیم کی تعمیر قبول کرنے کو تیار ہیں مگر ہمیں خدشہ ہے کہ اسے فوجی افسروں کے لیے پرتعیش رہائشی منصوبے بنانے کے لیے پہلے قدم کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
ان خدشات کو دور کرنے کے لیے وہ تجویز کرتے ہیں کہ حکومت ڈی ایچ اے ویلی کی زمین کو ڈیم کی تعمیر کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے دیہاتیوں کی نو آباد کاری کے لیے استعمال کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'آپ ڈیم کی تعمیر چاہتے ہیں؟ ٹھیک ہے، جائیں اور اس کی تعمیر کریں مگر ہمیں وہ زمین دے دیں جو ڈی ایچ اے ویلی نے ہم سے غیر قانونی طور پر حاصل کی تھی'۔
دیہاتیوں کو ڈیم کے لیے لی جانے والی زمین کی قیمت کے متعلق بھی شکایت ہے۔ بڑوالا گاؤں کے ایک بزرگ جمشید کیانی کا کہنا ہے کہ 'فی کنال 90,000 روپے معاوضہ وصول کر کے ہم اس رقم سے راولپنڈی شہر میں پانچ مرلے کا گھر بھی نہیں خرید سکتے'۔
انہی کے گاؤں کے رہائشی عمران کیانی نے آٹھ سال پہلے اپنے گھر کی تعمیر پر لاکھوں روپے خرچ کیے تھے۔ دراصل اس گاؤں میں رہنے والے بیشتر لوگوں نے اسی طرح حالیہ دہائیوں میں گھر بنانے پر بھاری رقم لگائی ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ حکومت انہیں جو معاوضہ پیش کر رہی ہے وہ اس خرچ کے مقابلے میں بالکل معمولی ہے۔
بڑوالا میں قائم ڈسپنسری میں لیڈی ہیلتھ ورکر کی حیثیت سے کام کرنے والی ثمینہ کیانی کا یہی کہنا ہے کہ ان کی زمین کے عوض حکومت انہیں نہایت معمولی معاوضہ دے رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ '90,000 روپے میں تو راولپنڈی میں چھ مہینے کے لیے ایک کمرے کا گھر بھی کرائے پر نہیں مل سکتا'۔
ثمینہ اور بڑوالا کے دوسرے رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت انہیں اس رقم کے مساوی زمین کی قیمت دے جو ایک دہائی پہلے ڈی ایچ اے کی جانب سے انہیں دی گئی تھی۔ اس وقت انہیں فی کنال 96,000 روپے ملے تھے ۔ اس تجویز کے متبادل کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کی زمین کی وہی قیمت مقرر کرے جو ڈی ایچ اے ویلی میں اسی سائز کے پلاٹ کی ہے۔ کیونکہ، جمشید کیانی کہتے ہیں، 'ہمارے گاؤں میں وہ تمام سہولیات موجود ہیں جو ڈی ایچ اے ویلی میں میسر ہیں۔ یہاں پانی ہے، بجلی ہے اور گیس بھی موجود ہے۔ یہاں سکول بھی ہیں۔ اگر سب کچھ یہاں موجود ہے تو پھر ہمیں اپنی زمین کی وہی قیمت کیوں نہیں دی جا سکتی جو ڈی ایچ اے کو مل رہی ہے؟'۔
بڑوالا اور اس کے نواحی دیہات میں چند خوشحال گھرانوں کے علاوہ بیشتر دیہاتیوں کی واحد ملکیت ان کے گھر ہیں۔ ان کا مسئلہ محض زمین کی قیمت سے متعلق نہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ایک مرتبہ بے دخل ہونے کے بعد وہ عمر بھر گھر نہیں بنا سکیں گے۔ ان میں ایک بتول کیانی نامی بیوہ ہیں۔ ان کی چار بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک معذور ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا واحد اثاثہ ان کا گھر ہے۔ 'جب یہ گھر نہیں رہے گا تو مجھے معلوم نہیں میں اپنی بیٹیوں کو لے کر کہاں جاؤں گی'۔
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار: 'ہماری زمینیں زبردستی لی جا رہی ہیں اور ہمارا رہن سہن بدلا جا رہا ہے'۔
ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے مویشیوں کی چراگاہیں اور زرعی زمین کھونے کے خوف میں مبتلا ہیں جو کہ اس علاقے میں روزی کمانے کے دو بڑے ذرائع ہیں۔ ان ذرائع کے ختم ہو جانے کے بارے میں عمران کیانی کہتے ہیں کہ 'یہ منصوبہ معاشی طور پر ہمارا گلہ گھونٹے جانے کے مترادف ہے'۔
ان دیہات کے بڑے بوڑھوں کو یہ پریشانی بھی ہے کہ اس منصوبے کے باعث انہیں اپنے اجداد کی قبریں پیچھے چھوڑنا پڑیں گی۔ خان پور گاؤں کے ایک بزرگ راجہ پرویز اپنا گاؤں چھوڑنے کا سوچ کر ہی پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'یہ جگہ چھوڑنے کا سوچ کر میں رات بھر روتا رہتا ہوں'۔
اسی لیے مقامی لوگ اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ راجہ پرویز خبردار کرتے ہیں کہ 'ہم یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہم اس کے لیے جان دینے کو بھی تیار ہیں'۔
ان کے پاس اپنے مسئلے کے حل کی دوسری امید عدالت ہے جس نے ماضی قریب میں ڈی ایچ اے ویلی کے لیے زمین کا حصول غیر قانونی قرار دے کر ان کی مدد کی تھی۔
اسی لیے ددہوچھہ اور بڑوالا کے رہائشی امید کر رہے ہیں کہ 26 جنوری 2021 کو جب ان کی درخواستوں اور 12 دیگر پٹیشنوں پر لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں سماعت ہو گی تو فیصلہ ان کے حق میں آئے گا ۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 22 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 29 مئی 2022