ڈاکٹر خوشبو ڈاہری ضلع سانگھڑ کے گاؤں امان اللہ ڈاہری کی رہائشی ہیں۔ انہوں نے 2021ء میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی سے اپنی گریجویشن مکمل کی تو خوش قسمتی سے انہیں فوراً ہی کراچی کے ایک نجی ادارے میں پراجیکٹ منیجر کی نوکری مل گئی۔
وہ بتاتی ہیں کہ انہیں انٹرویو میں کامیابی کی اطلاع بذریعہ ای میل دی گئی جس میں ادارے نے تین روز میں جوائننگ دینے کا کہا تھا۔
"کراچی میں میرے پاس رہائش تو تھی نہیں، میں پریشان ہو گئی۔ کسی خواتین ہاسٹل کے لیے سوشل میڈیا پر دوستوں سے مدد مانگی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بالآخر اپنی ایک دوست کے ذریعے 'گزری' میں ایک اور لڑکی کے ساتھ عارضی قیام کا انتظام ہو گیا لیکن میں اس مکان میں بمشکل ایک ہفتہ ہی رہ سکی۔"
وہ کہتی ہیں کہ صبح کو دفتر کے لیے نکلتے اور شام کو واپس آتے وقت گلیوں میں بیٹھے لوگوں کی نگاہیں پیچھا کرتی تھیں۔ روزانہ ہراسگی اور خوف کا سامنا ہوتا جس پر وہ ایک ہفتے ہی میں کلفٹن کے ایک نجی ہاسٹل منتقل ہوگئیں۔
ڈاکٹر خوشبو ڈاہری کا کہنا ہے کہ نجی ہاسٹلز کے اپنے مسائل ہیں۔ ایک کمرے میں تین تین چار چار خواتین رہتی ہیں اور واش روم مشترکہ ہوتا ہے۔ الماری میں کم گنجائش کے باعث سامان و کپڑے ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں۔
"ان ہاسٹلز کے چارجز کم از کم 25 سے 30 ہزار روپے ماہانہ ہیں جس میں ویسے تو ناشتا اور رات کا کھانا شامل ہوتا ہے مگر انتہائی غیرمعیاری ہوتا ہے، جیسے تیسے گزارا کرنا پڑتا ہے۔"
وہ کہتی ہیں کہ کراچی میں نوکری پیشہ خواتین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ رہائش ہے۔ اگر حکومت بڑے شہروں میں ورکنگ ویمن ہاسٹلز بنائے یا کم از کم پہلے سے موجود ہاسٹلز کو ہی فعال کر دے تو خواتین بہت سی اذیتوں سے بچ سکتی ہیں۔
حکومتی کاغذوں میں ملازمت پیشہ خواتین کے لیے 17 سرکاری ہاسٹلز موجود ہیں
بڑے شہروں میں سیکڑوں ورکنگ لیڈیز ایسے ہی مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ دفتر اور رہائش گاہ کے درمیان اگر فاصلہ زیادہ ہو تو آدھا دن گاڑیوں میں سفر کرتے نکل جاتا ہے۔
مردم شماری 2023ءکے نتائج بتاتے ہیں کہ سندھ میں 18 سال سے زائد عمر کی خواتین کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ 38 لاکھ 60 ہزار ہے جبکہ لیبر فورس سروے (21- 2020ء) کے مطابق اس صوبے کی 11 فیصد خواتین ملازمت پیشہ ہیں۔
ایسا نہیں کہ سندھ کے شہروں میں ورکنگ ویمن ہاسٹلز کبھی بنائے نہیں گئے۔ حکومتی کاغذوں میں17 سرکاری ہاسٹلز موجود ہیں مگر یہاں ملازمت پیشہ خواتین رہائش کے لیے نجی ہاسٹلز اور کرائے کے مکانوں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔
یہاں کی خواتین صرف کراچی اور حیدر آباد کے دو ورکنگ ویمن ہاسٹلز کا نام جانتی ہیں جن کا انتظام تقریباً نصف صدی قبل غیر سرکاری تنظیم 'پاکستان فیڈریشن آف بزنس اینڈ پروفیشنل ویمن آرگنائزیشن کراچی' کے سپرد کیا گیا تھا۔
ان دو میں سے کلفٹن میں واقع صرف ایک ہاسٹل فعال ہے جو ڈاکٹر سلیمہ رئیس الدین احمد کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں کی وارڈن مس صدف بتاتی ہیں کہ اس ہاسٹل میں 50 خواتین کے قیام ہی کی گنجائش ہے۔
تاہم حیدرآباد میں گورنمنٹ گرلز کالج کے اندر واقع زبیدہ ورکنگ ویمن ہاسٹل خستہ حالی کے باعث غیر فعال ہے۔

بھوت ہاسٹلز: جن کا حکومت کو بھی علم نہیں کہ ان پر کون قابض ہے
سندھ میں ملازمت پیشہ خواتین سمیت بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے علاوہ ضلعی صدر مقامات میں بھی ویمن ہاسٹلز یا ویلفیئر سنٹرز موجود ہیں مگر وہاں کوئی اور رہتا ہے یا پھر یہ ویران پڑے ہیں۔
اٹھارویں آئینی ترمیم سے قبل صوبے کے تقریباً تمام ورکنگ ویمن ہاسٹلز وفاقی حکومت کی ملکیت تھے مگر اس وقت بھی ان ہاسٹلز پر ضلعی انتظامیہ اور صوبائی محکموں کا قبضہ تھا۔
نومبر 2016ء میں سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بینچ نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران صوبے کی تمام ورکنگ ویمن ہاسٹلز محکمہ ترقی برائےخواتین (محکمہ ترقی نسواں) کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔
دسمبر 2019ء میں عدالت عالیہ نے ایک بار پھر چیف سیکریٹری سندھ کو حکم دیا کہ خواتین کے متعلق تمام معاملات ایک ہی محکمے کے سپرد کیے جائیں۔ یہ بھی لکھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کنکرنٹ لسٹ کا معاملہ طے پا چکا ہے اور خواتین کا شعبہ اب صوبے کے پاس ہے۔
یہ کیس تاحال سندھ ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے جہاں گزشتہ دنوں صوبے کے ورکنگ ویمن ہاسٹلز کی فہرست پیش کی گئی تو اس میں حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔
اس فہرست کے مطابق اس وقت صوبائی حکومت کے کاغذات میں (این جی او کے ماتحت دو ہاسٹلز کے علاوہ) 15 سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز و ویلفیئر سنٹرز موجود ہیں۔ اس میں سے چھ کی عمارتوں پر کون قابض ہے اس سے حکومت بھی لاعلم ہے۔
ان 'بھوت ہاسٹلز' میں نارتھ کراچی اور سجاول کے ویمن ویلفیئر سنٹرز، حیدرآباد کا ہاسٹل و مرکز خواتین، لاڑکانہ، دادو اور شکار پور کے ورکنگ ویمن ہاسٹلز شامل ہیں۔

کون سے ورکنگ ویمن ہاسٹل پر کون قابض ہے؟
عدالت کو رپورٹ میں آگاہ کیا گیا کہ میرپور خاص، بدین اور ہالہ میں ورکنگ ویمن ہاسٹلز کی عمارتوں پر محکمہ تعلیم نے قبضہ کرکے کالج و سکول بنا رکھے ہیں جبکہ سانگھڑ میں محکمہ ویمن ڈیویلپمنٹ نے ہاسٹل کی جگہ اپنا دفتر قائم کر رکھا ہے۔
شہید بینظیر آباد (نواب شاہ) میں ورکنگ ویمن ہاسٹل و کمپلیکس پر ڈی آئی جی پولیس اور سکھر میں ڈپٹی کمشنر کا قبضہ ہے۔ خیرپور میرس کی ہاسٹل کی ایک عمارت میں میونسپل کمیٹی کا دفتر اور دوسری میں محکمہ تعلیم نے گرلز کالج بنا رکھاہے۔
ٹنڈو آدم میں بھی یہی حال ہے جہاں عمارت پر نادرا، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور میونسپل کمیٹی کا قبضہ ہے۔
عدالتی حکم کے آٹھ سال بعد بھی ویمن ہاسٹلز محکمہ ترقی برائے خواتین کے حوالے نہیں کیے گئے۔
اس سلسلے میں 26 مارچ کو سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی ( پی اے سی) کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین نثار کھوڑو نے 11 ورکنگ ویمن ہاسٹلز کا قبضہ پولیس، محکمہ تعلیم، بلدیات اور ڈپٹی کمشنرز سے فوری واپس لینے کا حکم جاری کیا تاہم ابھی اس پر کوئی پیشرفت نظر نہیں آ رہی۔
محکمہ ترقی نسواں کے سیکرٹری رشید احمد زرداری بتاتے ہیں کہ انہوں نے ویمن ہاسٹلز خالی کرانے کے لیے متعلقہ اداروں کو مراسلہ لکھ دیا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جب ڈی آئی جی بینظیر آباد پرویز احمد چانڈیو سے رابطہ کر کے پوچھا گیا کہ آپ ویمن کمپلیکس کب خالی کریں گے؟ تو ان کا جواب بھی یہی تھا "ہم متعلقہ محکمے کو لکھیں گے۔"

'ہم نے سروس کارڈ، شناختی کارڈ دکھائے پر مالک مکان ایگریمنٹ پر راضی نہیں ہوئے'
ڈاکٹر خوشبو ڈاہری کو افسوس ہے کہ اکیلی خواتین کو تو بیشتر لوگ مکان یا فلیٹ کرائے پر بھی نہیں دیتے۔ اگر مل بھی جائے تو لیز ایگریمنٹ پر دستخط کے لیے والدین یا بھائیوں کو بلانا پڑتاہے۔
"میں اور میری دوست نے مالک مکان کو اپنے سروس کارڈ، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ز کے ساتھ والدین کے شناختی کارڈ بھی دکھائے مگر وہ نہیں مانے۔"
وہ کہتی ہیں کہ ان کی دوست انہیں بتاتی رہتی ہیں کہ کراچی کی کچی بستیوں اور ڈیفنس میں گھر کرائے پر مل جاتا ہے مگر وہاں اکیلی خواتین کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
سیکرٹری رشید احمد کے بقول وہ کچھ ویمن ہاسٹلز کو فعال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن کہیں عملہ کم ہے تو کہیں فرنیچر چاہیے۔" بدین سمیت بعض ہاسٹلز کی عمارتوں میں مرمت کا کام ہونا ہے جس میں کچھ وقت لگ جائے گا۔"
وہ کہتے ہیں کہ صرف سانگھڑ کا ویمن ہاسٹل صوبائی حکومت نے تعمیر کرایا ہے باقی تمام وفاقی حکومت نے بنوائے تھے۔ چونکہ محکمہ ترقی نسواں کے ریکارڈ کی صوبوں کو منتقلی کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا اس لیے بھی کچھ مسائل ہیں۔

سیکریٹری ترقی نسواں کا دعویٰ تھا کہ سکھر میں ملازمت پیشہ خواتین کی رہائش کے لیے ایک ہاسٹل ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے۔
تاہم وزیر برائے ترقی نسواں شاہینہ شیر علی نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ وہ کہتی ہیں کہ صوبے میں ابھی کوئی ورکنگ ویمن ہاسٹل فعال نہیں ہے۔
"ہم رواں سال جون کے بعد ورکنگ ویمن ہاسٹلز فعال کرنا شروع کر دیں گے جس کا آغاز سکھر سے ہوگا۔"
تاریخ اشاعت 18 اپریل 2025