ثقافتی تنوع کے لیے مشہور ضلع عمرکوٹ (یا امر کوٹ) کے واحد قومی حلقہ این اے 213 میں 17 اپریل کو ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ یہ نشست پیپلز پارٹی کے نواب یوسف ٹالپور کے انتقال سے خالی ہوئی جو یہاں سے چھ بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد چھ لاکھ آٹھ ہزار 997 ہے جن میں تین لاکھ 21 ہزار 686 مرد (تقریباً 53 فیصد) اور دولاکھ 87 ہزار 311 خواتین (لگ بھگ 43فیصد) ووٹر شامل ہیں۔
ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ سکیم بھی جاری کی جا چکی ہے جس کے تحت حلقے میں مجموعی طور پر 498 پولنگ سٹیشنز پر ایک ہزار 816 پولنگ بوتھ قائم کیے جائیں گے جن میں 944 مردانہ اور 872 زنانہ بوتھ شامل ہیں۔
پچھلے عام انتخابات (2024ء) میں اس حلقے سے پی پی کے نواب یوسف ٹالپور کے مقابلے میں پیر پگارا کی زیرقیادت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے ن لیگ کے میر امان اللہ ٹالپور کی حمایت کی تھی۔
یہاں سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے تھے جس پر پارٹی نے لال چند المعروف لال مالہی کو امیدوار (آزاد) نامزد کیا تھا۔تاہم یہ حلقہ پیپلز پارٹی کے نام رہا۔
الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق نواب یوسف ٹالپور نے ایک لاکھ79 ہزار 188 ووٹ حاصل کیے۔ میر امان اللہ کو44 ہزار 960 اور لال چند 38 ہزار 648 ووٹ ملے تھے۔
اس حلقے سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار مقامی مسجد کے پیش امام کامران رشید تھے جنہوں نے پانچ ہزار 997 ووٹ حاصل کیے تھے۔
ہندو اکثریتی آبادی والا واحد قومی حلقہ مگر کبھی کوئی غیرمسلم امیدوار نہیں جیتا
سندھ کے ضلع عمر کوٹ پر مشتمل این اے 213 ملک کا واحد قومی حلقہ ہے جہاں کی اکثریتی آبادی ہندومت سے تعلق رکھتی ہے۔

مردم شماری 2023ء کے مطابق ضلعے کی مجموعی آبادی 11 لاکھ 58 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے جن میں شیڈولڈ کاسٹ سمیت چھ لاکھ 33 ہزار 114 ہندو، پانچ لاکھ 19 ہزار 276 مسلمان، تین ہزار 97 قادیانی /احمدی اور دوہزار 702 مسیحی ہیں۔
تاہم پچھلے 32 سال میں یہاں سات میں سے چھ قومی انتخابات نواب یوسف ٹالپور نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیتے۔ 93ء میں انہوں نے ن لیگ کے پیر نور محمد شاہ جیلانی کو ہرایا لیکن 97ء میں وہ جیلانی سے شکست کھا گئے۔
یوسف ٹالپور نے 2002ء میں اس نشست پر پی پی مخالف اتحاد (نیشنل الائنس)کے متتفقہ امیدوار کشن چند پروانی کو ہرایا۔ 2008ء میں سومرو سردار محمد قاسم(آزاد) کے علاوہ پیر نور محمد شاہ جیلانی کو بھی شکست دی جو اس بار فنکشنل لیگ کے امیدوار تھے۔
2013ء میں پی ٹی آئی کے رہنما، ملتان کے گدی نشین اور غوثیہ جماعت کے سربراہ شاہ محمود قریشی اس نشست پر ٹالپور کے مقابل میدان میں اترے۔ 2018ء میں بھی یہاں انہیں دو امیدواروں کے درمیان جوڑ پڑا مگر دونوں بار مخدوم شاہ محمود ہار گئے۔
پیر نور محمد شاہ جیلانی 2013ء میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے 2013ء اور 2018ء کے انتخابات تھرپارکر ون سے لڑے اور دونوں بار وہاں پی ٹی آئی کے مخدوم شاہ محمود کو ہرایا۔
نور محمد شاہ جیلانی کے انتقال کے بعد اب تھر کی اس نشست سے ان کے فرزند امیر علی شاہ جیلانی پیپلز پارٹی کے ایم این اے ہیں۔ محمد قاسم سومرو بھی بعد ازاں پی پی میں شامل ہوگئے جو تھر ہی سے رکن سندھ اسمبلی ہیں۔
ڈاکٹر شاہنواز سانحہ سے قبل کبھی یہاں مذہب کے نام پر بڑا تنازع نہیں ہوا
مغل بادشاہ اکبر کی جنم بھومی عمرکوٹ مذہبی ہم آہنگی کے لحاظ سے ہمیشہ پرامن علاقہ رہا ہے۔ لیکن پچھلے ربیع الاول میں سوشل میڈیا پر کسی پوسٹ کے حوالے سے ڈاکٹر شاہنواز کنبھار کو تویین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں پولیس مقابلے میں انہیں ہلاک کر دیا گیا۔

بعدازاں ناصرف ڈاکٹر شاہنواز کی تدفین روکی گئی بلکہ نام نہاد ہجوم نے لاش کو آگ لگادی تھی۔ اس "کارنامے" پر پولیس حکام سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں داد و تحسین وصول کرتے نظر آئے تھے۔
یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا جس نے سندھ بھر کو متاثر کیا اور عمرکوٹ ہفتوں مظاہروں اور قومی و بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔
ایف آئی اے کی تحقیقات میں پولیس افسران و ملازمین کو اس واقعہ کا ذمہ دار گردانا گیا۔ یہ بھی تصدیق کی گئی کہ جعلی مقابلے میں ملوث سرکاری اہلکار "کچھ پرائیویٹ افراد" سے مسلسل رابطے میں تھے۔
ڈاکٹر شاہنواز کے ورثاء نے اس وقت میر پور خاص کے ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی اسد چوہدری، ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ ودیگر سمیت لگ بھگ 40 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔
ایف آئی آر کے مدعی محمد ابراہیم کنبھار نے الزام عائد کیا تھا کہ ڈی آئی جی، دو ایس ایس پیز، مقامی مذہبی رہنما عمر جان سرہندی، احمد شاہانی ودیگر نے ملی بھگت سے شاہنواز کو توہین کے بہانے ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
پیر عمر جان سرہندی اب ضمنی الیکشن میں ٹی ایل پی کے امیدوار ہیں۔ انہوں نے پچھلا الیکشن میرپور خاص (این اے 212) سے لڑا تھا اور لگ بھگ تین ہزار ووٹ لیے تھے۔
مجموعی 18 امیدوار لیکن چند ہی بھر پور مہم چلا رہے ہیں
الیکشن کمیشن کی حتمی فہرست کے مطابق ضمنی الیکشن میں مجموعی طور پر 18 امیدوار سامنے آئے جن میں سے تین سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ اور باقی تمام آزاد ہیں۔
تاحال صرف چند ہی بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں جن میں نواب یوسف ٹالپور کی بیوہ پیپلز پارٹی کی نامزد امیدوار صبا ٹالپور، ایم کیو ایم کے لال چند بھیل ایڈووکیٹ اور ٹی ایل پی کے عمر جان سرہندی شامل ہیں۔
آزاد امیدواروں میں سے صرف لال چند پرابھو المعروف لال مالہی کی کمپین چل رہی ہے جو تحریک انصاف اقلیتی ونگ کے مرکزی صدر ہیں۔ انہیں جی ڈی اے، دریا بچاؤ تحریک، جمیعت علمائے اسلام سمیت متعدد مذہبی و قوم پرست جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔

سرہندی خاندان کے حوالے سے ضلعی ہیڈکوارٹر کے رہائشی سہیل احمد بتاتے ہیں کہ خلیلی جماعت کے سربراہ پیر ایوب جان سرہندی علاقے کی مذہبی شخصیت ہیں جن کا مدرسہ یہاں لوگوں کو مسلمان کرنے کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔
ان کے بقول ایوب جان سرہندی کا خاندان اور ان کی خلیلی جماعت پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرتی ہے۔عمر جان بھی ان (ایوب جان سرہندی) کے رشتہ دار ہیں لیکن دونوں کی سیاست اور مدرسے الگ الگ ہیں۔
عمر کوٹ کے ایک سماجی کارکن دلیپ کمار شکوہ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے میرٹ کی بجائے خاندانی سیاست کو ترجیح دی۔ اس حلقے میں ہندو برادری کی اکثریت ہے، بہتر تھا کہ یہاں جنرل نشست پر اقلیتی امیدوار کو ٹکٹ دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔
مقامی زمینداروں،گدی نشینوں اور ہندو برادری کا کردار کتنا اہم؟
جیسا کہ عمرکوٹ کے 31 سالہ انتخابی جائزے سے اندازہ ہوتا ہے یہاں قومی نشست پر سرداروں، نوابوں اور پیروں (جو جاگیردار بھی ہیں)کے درمیان ہی دنگل ہوتے رہے۔ ان میں ٹالپور خاندان، جیلانی، سومرو، کشن چند پروانی(صاحب ثروت ہندو رہنما) اور مخدوم شاہ محمود شامل ہیں۔
یہاں کی مسلم برادریوں پر روحانی جماعتوں یا پیروں کے واضح اثرات ہیں جن میں پیر پگارا کی حر جماعت، مخدوم جمیل الزمان کی سروری جماعت، مخدوم شاہ محمود کی غوثیہ جماعت اور پیر نور محمد شاہ کی جیلانی جماعت شامل ہیں۔
ان چار میں سے دو یعنی سروری اور جیلانی جماعت پیپلز پارٹی کی امیدوار صبا ٹالپور جبکہ حر جماعت اور غوثیہ جماعت آزاد امیدوار لال مالہی کے ساتھ کھڑی ہیں۔
عمرکوٹ کی ہندو آبادی میں ٹھاکر برادری پر ڈھاٹ کے رانا ہمیر سنگھ(پی پی)، میگھواڑ برادری پر پیپلز پارٹی کے رہنما کھٹومل جیون، بھیل برادری پر پونجو مل بھیل(پی پی) اور کولہی برادری پر کرشنا کماری کولہی(پی پی) کا زیادہ اثر ہے۔ پی ٹی آئی کے لال چند اپنی مالہی برادری و دیگر برادریوں میں خاصے مقبول ہیں۔

ہندو کمیونٹی میں بھیل برادری کا ووٹ زیادہ ہے مگر یہ پیپلز پارٹی، جی ڈی اے اور پی ٹی آئی میں تقسیم ہے۔ اس بار ایم کیو ایم نے بھی اسی برادری کے لالا بھیل کو ٹکٹ دیا ہے جو اپنی مہم چلا رہے ہیں۔
اس ضلعے کی تینوں صوبائی نشستیں بھی پیپلزپارٹی کے پاس ہیں جہاں سے سردار علی شاہ، امیر علی شاہ اور تیمور ٹالپور ایم پی اے ہیں۔ چیئرمین میونسپل کمیٹی عمرکوٹ سراج سومرو کا تعلق بھی پی پی سے ہے جو تھر سے حکومتی رکن سندھ اسمبلی( پی پی کے سابق حریف) قاسم سومرو کے بھائی ہیں۔
ایک طرف ترقیاتی منصوبے اور دوسری طرف دریا بچاؤ تحریک
ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی ترقیاتی منصوبوں اور کارکردگی کی بنیاد پر انتخابی مہم چلا رہی ہے جبکہ مخالفین دریائے سندھ بچاؤ تحریک کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے دریائے سندھ کا سودا کر دیا ہے۔ عمرکوٹ کی زمین کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر کمپنیوں کو دی گئی ہے اور لوگوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے۔
"میں دریا بچاؤ کمیٹی کا امیدوار ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام جاگیں اور مخالفین کو شکست دے کر اپنے حقوق کی حفاظت کریں۔"
جی ڈی اے رہنما خضر حیات منگریو دعویٰ کرتے ہیں کہ پارٹی ٹکٹ صبا ٹالپور کو ملنے پر نواب خاندان میں اختلافات ہیں۔ نواب تیمور نے دوسری والدہ سے اپنے بڑے بھائی نواب یونس ٹالپور کو نظر انداز کیا جس پر وہ (نواب یونس) اور ان کے ساتھی ناراض ہیں۔
جی ڈی اے رہنما خوش ہیں کہ عمرکوٹ میں پی پی کے دو سیاسی خانوادے یعنی سید اور سومرا خاندان الیکش میں متحرک نظر نہیں آ رہے۔ یہاں تک کہ 25 مارچ کو نئی نہروں کے خلاف پیپلز پارٹی کے احتجاج میں بھی سردار علی شاہ، امیر علی شاہ اور خالد سراج سومرو شریک نہیں تھے۔
پیپلز پارٹی کی امیدوار صباء ٹالپور کی انتخابی مہم ان کے بیٹے تیمور ٹالپور چلا رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ پی پی مخالفین مجوزہ کینال منصوبوں کا نام لے کر ووٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
"ہم پہلے ہی نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کی مخالفت کر چکے ہیں اور پیپلز پارٹی ہی عوام کے حقوق کا تحفظ کرے گی۔ لوگ جانتے ہیں کہ نواب یوسف ٹالپور اسمبلی میں ہمیشہ سندھ کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔"
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے خاندان کا علاقے میں ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کا زبردست ریکارڈ ہے۔ پیپلز پارٹی اسی بنیاد پر اپنی برتری اور کامیابی کی روایت برقرار رکھے گی۔
"پیپلزپارٹی کے تمام رہنما اور ہم سب متحد ہیں، ہم نے یہاں مخدوم شاہ محمود کو شکست سے دوچار کیا۔ اس وقت مخالف امیدوار ان سے زیادہ مضبوط نہیں ہیں۔ لہٰذا اس مرتبہ بھی ہم کامیابی حاصل کریں گے۔"
یہ بھی پڑھیں

لاہور کا ضمنی انتخاب: کیا پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست میں واپس آ گئی ہے؟
بیشتر مذہبی و قوم پرست جماعتیں ہندو برادری کے امیدوار کی حامی
مقامی سینیئر صحافی امین ڈیپلائی کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اب بھی مضبوط پوزیشن میں ہے کیونکہ اکثر غیر مسلم ووٹ اسی کو جاتے ہیں۔ البتہ اس بار تبدیلی یہ آئی ہے کہ بیشتر مذہبی و قوم پرست جماعتیں پہلی بار مل کر اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار (لال مالہی) کی حمایت کر رہی ہیں۔
تاہم سندھی میڈیا کے لیے کام کرنے والے نوجوان صحافی مدن گوپال سمجھتے ہیں کہ نئی کینالز اہم ایشو ہے اور لال مالہی دریا بچاؤ تحریک کے امیدوار ہیں۔
"ارباب غلام رحیم، پیر پگارا کے مریدان، غوثیہ جماعت کا ووٹ اور لال مالہی کا شہر میں ذاتی تعلق انہیں مضبوط بناتا ہے۔ پچھلی بار جی ڈی اے کا الگ امیدوار تھا تب بھی انہوں نے 38 ہزار ووٹ لیے تھے۔ اس مرتبہ وہ مشترکہ امیدوار ہیں اس لیے اچھا مقابلہ ہو گا۔"
لیکن شہری محمد یوسف سمجھتے ہیں کہ پی پی مخالف تمام امیدوار صرف اپنی برادری تک محدود رہتے ہیں، کسی اور (برادری) کے غم و خوشی میں بہت کم جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں اب بھی پیپلز پارٹی کا کوئی متبادل نہیں جو سب سے برابری کا رویہ رکھتی ہے۔
ان ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی اپنے روایتی ووٹ بینک اور حکومتی اثر و رسوخ کے ساتھ میدان میں اتری ہے جبکہ مذہبی و قوم پرست جماعتیں پوری قوت کے ساتھ پی پی کی مخالفت میں کھڑی ہیں۔ یوں صبا ٹالپور اور لال مالہی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے تاہم فیصلہ 17 اپریل کو ووٹر کریں گے۔
تاریخ اشاعت 16 اپریل 2025