غیرمعیاری تعلیم، غیرمحفوظ عمارتیں، غیرصحت مند ماحول: رحیم یار خان میں غیررجسٹرڈ نجی سکول طلبہ کے لیے خطرہ بن گئے

postImg

بلال حبیب

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

غیرمعیاری تعلیم، غیرمحفوظ عمارتیں، غیرصحت مند ماحول: رحیم یار خان میں غیررجسٹرڈ نجی سکول طلبہ کے لیے خطرہ بن گئے

بلال حبیب

loop

انگریزی میں پڑھیں

رحیم یار خان شہر کے فضیلت ٹاؤن میں رہنے والے امتیاز احمد پیشے کے اعتبار سے بینکار ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی آمنہ کو گھر کے قریب ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کروایا۔ چند برس میں وہ پلے گروپ سے جماعت دوم تک پہنچی۔ اس دوران بینک نے والد کا تبادلہ تحصیل خان پور میں کر دیا۔

وہاں وہ اچھی شہرت کے حامل ایک پرائیویٹ سکول میں اپنی بیٹی کا داخلہ کرانے گئے۔ سکول انتظامیہ نے سابق سکول کا ریکارڈ دیکھا اور کہا کہ وہ آمنہ کا ٹیسٹ لیں گے تاہم  پاس ہونے کی صورت میں پہلی جماعت میں داخلہ دیں گے کیونکہ وہ ایک غیر رجسٹرڈ سکول میں پڑھتی رہی ہے۔

استفسار پر پہلے پرائیویٹ سکول کی انتظامیہ نے امتیاز کو بتایا کہ رجسٹریشن کا عمل آن لائن ہونے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا اور یہ جلد مکمل ہو جائے گا۔

آمنہ ان پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتی داخلہ ملنے کے بعد والدین سے پوچھتی رہتی ہے کہ وہ دوسری کے بعد پہلی جماعت میں کیوں ہے۔

رحیم یار خان میں بہت سے ایسے بچوں کو یہی مسئلہ درپیش ہے جو جانے انجانے میں غیررجسٹرڈ نجی سکولوں میں پڑھتے رہے ہیں۔

اس حوالے سے پنجاب ٹیچر یونین جنوبی پنجاب کے صدر رانا شہباز صفدر اور پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے سابق صدر حافظ محمد مدثر کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ سکولوں سے آنے والے طلبہ کی بڑی تعداد تعلیمی لحاظ سے کمزور ہوتی ہے۔

"ایسے سکول کی انتظامیہ کے پاس سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ دینے کا اختیار ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کوئی رزلٹ کارڈ جاری کر سکتی ہے۔ اس کی مثال غیررجسٹرڈ گاڑی کی سی ہے۔ ایسےسکولوں کی عمارتوں کے بارے میں بھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ محفوظ اور بچوں کے لیے موزوں ہیں یا نہیں۔"

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے دیے جانے والے وظائف سے غیر رجسٹرڈ سکولوں کے طلبہ محروم رہتے ہیں۔ انتظامیہ بھی غیر رجسٹرڈ سکولوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کرتی۔

فرحان عامر فروغ تعلیم کے لیے کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں سے طویل عرصہ وابستہ رہے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بہت سے سکول انکم ٹیکس اور دیگر سرکاری فیسوں سے بچنے کے لیے رجسٹرڈ نہیں کرائے جاتے۔

ایک پرائیویٹ سکول کی انتظامیہ کے عہدے دار طارق محمود نے بتایا کہ انہوں نے ایک سال پہلے اپنے سکول کے ای لائسنس کے لیے درخواست دی تھی لیکن یہ انہیں ابھی تک نہیں ملا۔

طارق کے مطابق سکولوں کو ای لائسنس حکومت پنجاب کی ویب سائٹ کے ذریعے اپلائی کرنے پر ملتے ہیں۔ شاید اس کا ایک سبب یہ ہے کہ مختصر عرصے میں چار چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن تبدیل ہو چکے ہیں اور معاملات میں تسلسل نہیں رہا۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن محمد اسلم کے مطابق کسی سکول کی رجسٹریشن کے لیے حکومت پنجاب کے ضلعی محکمہ صحت کی جانب سے ہائی جینک سرٹیفکیٹ حاصل کیا جانا ضروری ہے۔ ضلعی محکمہ بلڈنگ کی طرف سے معائنہ کرنے کے بعد عمارت کے قابل استعمال ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سکول انتظامیہ نے ضروری دستاویزات متعلقہ ویب سائٹ پرائیویٹ ایجوکیشن پرووائیڈر رجسٹریشن اینڈ انفارمیشن (پیپرس) پر اپ لوڈ کرنا ہوتی ہیں۔

"ضروری دستاویزات موصول ہونے کے بعد تصدیق کے لیے ہم محکمہ صحت اور محکمہ بلڈنگ کو خط لکھ دیتے ہیں۔ جب ان محکموں سے تصدیق ہو جاتی ہے تو ہم ایک اجلاس بلاتے ہیں جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر اور سیکرٹری چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن کرتے ہیں۔ اس میں پرائیویٹ سکولوں، بچوں کے والدین اور خواتین کا ایک ایک نمائندہ بھی شریک ہوتا ہے۔ سکولوں کی رجسٹریشن کا فیصلہ اسی اجلاس ہوتا ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ پرائیوٹ سکول چاہے پرائمری ہو، مڈل یا ہائی سب کی رجسٹریشن کا عمل ایک سا ہے۔ رجسٹرڈ ہونے والے سکولوں کو دو برسوں کے لیے ای لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے جس کے بعد ان کی تجدید ہوتی ہے۔تمام رجسٹرڈ سکولوں کا ڈیٹا آن لائن ویب سائٹ پیپرس پر موجود ہے اور رجسٹریشن کا عمل آن لائن ہی ہوتا ہے۔"

غیر رجسٹرڈ سکول کی شکایت کے اندراج کے بارے میں سی ای او ایجوکیشن نے بتایا کہ یہ آن لائن نہیں بلکہ درخواست لکھ کر دی جا سکتی ہے۔

"درخواست ملنے کے بعد وہ متعلقہ سکول کے پرنسپل کو بلا کر وارننگ دیں گے اور اسے رجسٹریشن کروانے کا وقت دیا جائے گا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں وہ سکول بند کر دیا جائے گا۔ وارننگ کے بعد عمل درآمد نہ ہونے پر سکول کی انتظامیہ کو جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔"

پرائیویٹ رجسٹرڈ سکولوں کے بارے میں جاننے کے لیے حکومت پنجاب کی ویب سائٹ (پیپرس) پر ایک 'پیرنٹ کارنر' بنایا گیا ہے۔ اس میں پنجاب کے تمام اضلاع کے رجسٹرڈ پرائیویٹ سکولوں کی تعداد دی گئی ہے۔

اس ویب سائٹ کے مطابق ضلع رحیم یار خان میں 486 سکولوں کے پاس ای لائسنس ہے جبکہ 531 سکولوں کے لائسنس عبوری (پروویژنل) یا زائدالمعیاد (ایکسپائرڈ) ہیں۔ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 85 سکولوں نے لائسنس کے لیے درخواست ہی نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

محکمہ تعلیم یا اساتذہ: چاغی میں بند پڑے سکولوں کا ذمہ دار کون ہے؟

رانا شہباز صفدر کے مطابق جنوبی پنجاب میں 35 فی صد سکول رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ فرحان عامر کا ان کا دعویٰ ہے کہ 60 لاکھ سے زیادہ آبادی کے ضلع رحیم یار خان میں سات ہزار سے زیادہ پرائیویٹ سکول ہیں۔

 ضلع بھر میں رجسٹرڈ پرائیویٹ سکولوں کی تعداد جاننے کے لیے اس نمائندے نے فوکل پرسن ضلعی محکمہ ایجوکیشن  محمد یاسین ساحر سے بارہا رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا جبکہ چیف ایگریکٹو آفیسر ایجوکیشن بھی یہ تعداد بتانے سے گریزاں رہے۔

تاریخ اشاعت 28 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال حیب رحیم یا ر خان کے رہائشی ہیں۔ وہ گذشتہ 16سال سے انگریزی اردو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.