'والد کے نام کے بغیر سکول میں داخلہ نہیں ملے گا'، بن بیاہی ماؤں کے بے شناخت بچوں کی مشکلات

postImg

انیلہ اشرف

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'والد کے نام کے بغیر سکول میں داخلہ نہیں ملے گا'، بن بیاہی ماؤں کے بے شناخت بچوں کی مشکلات

انیلہ اشرف

loop

انگریزی میں پڑھیں

راجن پور کی طاہرہ بی بی٭ اپنے پانچ سالہ بیٹے شکیل٭ کو تعلیم دلانا چاہتی ہیں لیکن کوئی سکول اسے داخلہ نہیں دیتا۔بچے کو سکول میں داخل کروانے کے لیے اس کا شناختی ب فارم اور والد شناختی کارڈ ہونا ضروری ہے لیکن طاہرہ سکول کو یہ دونوں چیزیں مہیا نہیں کر سکتیں۔

انہوں نے سکول کی ہیڈمسٹریس سے درخواست کی تھی کہ ان کا یا بچے کے نانا کا نام سرپرست کے طور پر لکھ کر شکیل کو داخلہ دے دیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔

طاہرہ کا تعلق تحصیل جام پور کی  نواحی بستی سے ہے۔ان کے بقول 2016ء میں مقامی زمیندار عبداللہ کا بیٹا اسلم انہیں محبت کے جال میں پھنسا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئیں۔

جب انہوں نے اپنے اہل خانہ  کو اس صورتحال سے آگاہ کیا تو اس وقت ان کے حمل کو پانچ ماہ گزر گئے تھے۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اس مرحلے پر حمل کو ساقط نہیں کیا جا سکتا۔

طاہرہ کے والد نے کاشف کے والد انور کو یہ بات بتائی اور اس موقع پر گاؤں کے بڑوں نے ملزم اور طاہرہ کا نکاح کرانے کی تجویز دی۔ ابتدا میں اسلم کے والد نے اس پر رضامندی ظاہر کی لیکن بعد میں انکار کر دیا۔

طاہرہ کے خاندان نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرایا جس نے ضمانت قبل ازگرفتاری کروا لی تاہم بعد میں عدالتی حکم پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔

چند ماہ کے بعد طاہرہ نے راجن پور کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں بیٹے کو جنم دیا۔

بچے کی پیدائش سے قبل پولیس نے ایڈیشنل سیشن جج جام پور کی ہدایت پر طاہرہ اور ملزم کاشف کے ڈی این اے کے نمونے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو بھجوائے تھے جس کے نتائج آج تک متاثرہ خاندان کو نہیں مل سکے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملزم ہائیکورٹ ملتان بینچ سے ضمانت پر رہا ہوا اور بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج جام پور نے عدم ثبوت کی بنا پر نومبر 2018ء میں اسے بری کر دیا۔

اس عرصہ میں طاہرہ کی گود میں آنے والے شکیل کی عمر دو برس ہو چکی تھی۔ انہوں نے ملزم کی بریت کے خلاف لاہور ہائی کورت کے ملتان بینچ میں اپیل دائر کی جو جون 2020ء میں دوبارہ سماعت کے لیے سیشن کورٹ میں بھیج دی گئی جہاں اس پر تاحال تاریخیں پڑ رہی ہیں۔

طاہرہ کے وکیل عرفان عاربی نے بتایا کہ ایسے واقعات میں ملزموں کے وکیل نظام انصاف کی پیچیدگیوں اور قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھا کر تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔

"چونکہ بیشتر متاثرہ فریق زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور انہیں قانونی باریکیوں کے بارے میں آگاہی بھی نہیں ہوتی اسی لئے بیشتر مقدمات میں یہ لوگ تھک ہار کر ملزموں سے صلح کر لیتے ہیں"۔

طاہرہ بچے کو سکول میں داخلہ دلوانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں لیکن ولدیت سے 'محرومی' ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل ان کے پاس نہیں ہے۔

یہ حالات طاہرہ کے علاوہ بھی بہت سی ایسی خواتین کو درپیش ہیں جو جنسی زیادتی کے نتیجے میں ماں بنی ہیں۔

ان میں ایسی خواتین بھی ہیں جنہیں ان کے قریبی رشتہ داروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا یا شوہر انہیں ایسے حالات میں چھوڑ چکے ہیں جن میں ان کے بچوں کو والد کی شناخت نہیں مل سکی۔

کچھ عرصہ پہلے ملتان کی سیشن عدالت نے سونیا بی بی٭ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں بلال نامی ملزم کو عمر قید اور سات لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

زیادتی کے نتیجے میں سونیا حاملہ ہو گئی تھیں۔ اس مقدمے کی تفتیش اور فیصلے میں تین سال لگے۔

سونیا کے بچے کو بھی والد کی شناخت نہیں مل سکی۔

مظفرگڑھ کی فرزانہ بی بی٭ اپنے سگے چچا کی زیادتی کے نتیجے میں ایک بیٹی کی ماں بن چکی ہیں۔

اسی شہر کی نجمہ بی بی٭ اور لیہ کے علاقے چوک اعظم کی نوعمر ارم کو ان کے ہمسایوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اپنے باپ کی شناخت سے محروم ہیں۔

اسی طرح ملتان کے علاقے قادر پور راں کی 15سالہ علشبہ٭کو 55 سالہ ملزم قادر نے زیادتی کانشانہ بنایا جس کے نتیجے میں حاملہ ہونے کے بعد انہوں نے بیٹی کو جنم دیا۔

یہ اور اس جیسے تمام واقعات میں پیدا ہونے والے بچوں کو ان کی ماؤں کے علاوہ کسی نے قبول نہیں کیا اور ولدیت کی غیرموجودگی میں ان کے لیے تعلیم کا حصول اور زندگی میں آگے بڑھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

بن بیاہی ماؤں کے بچوں کو سکولوں میں داخلے کے حوالے سے درپیش مشکلات پر بات کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری سکول ایجوکیشن سیف الرحمٰن خان وضاحت کرتے ہیں کہ حکومت پنجاب نے 2016ء میں سکولوں میں داخلے کے لئے آن لائن نظام بنایا تھا۔

"اس نظام کے تحت داخلہ حاصل کرنے والے بچے کے کوائف درج کرنا ضروری ہوتا ہے جس میں بچے کے والد کے نام کے اندراج کے ساتھ اس کا شناختی کارڈ بھی درج کیا جاتا ہے۔ والد کے بغیر آنے والے بچے کی ماں کو بچہ داخل کرانے کے لیے نادرا یا عدالت سے رجوع کرناپڑتا ہے اور وہاں سے احکامات آنے کے بعد ہی اسے داخلہ دیا جا سکتا ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملی ہیں: 'جنسی زیادتی کا شکار خواتین اپنے مخالفین کا مقابلہ نہیں کر پاتیں'۔

مختار مائی ویلفیئر آرگنائزیشن کی چیئرپرسن مختارمائی کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب میں جنسی زیادتی کے نتیجے میں ماں بننے والی خواتین اور بے شناخت بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن اس حوالے سے اعدادو شمارجمع کرنے کا کوئی طریقہ وضع نہیں کیا گیا۔

"اگرچہ زیادتی کے واقعات سے متعلق اعداد و شمار مل جاتے ہیں لیکن ان میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کی تفریق نہیں ہوتی"۔

جنوبی پنجاب کی سیشن عدالتوں میں بن بیاہی ماﺅں کے بچوں کی شناخت کے حوالے سے 56 مقدمات زیرالتوا ہیں۔

ملتان کے سابق ڈپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر شوکت حیات ہراج بتاتے ہیں کہ بہت سے عدالتی فیصلوں کے بعد اب ایسے بچوں کو شناخت دینے کا قانونی طریقہ کار ہے لیکن بن بیاہی ماﺅں کو اس مقصد کے لیے طویل عدالتی جنگ لڑنا پڑتی ہے جو کم وسائل اور ناخواندہ خواتین کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

ڈیجیٹل رائٹس فاﺅنڈیشن کی سی ای او نگہت داد واضح کرتی ہیں کہ نادرا نے یتیم خانوں میں پلنے والے اور گود لیے گئے بچوں کی سرپرستی سرٹیفکیٹ کے ذریعے رجسٹریشن کا عمل شروع کیا ہے۔

"تاہم بن بیاہی ماﺅں کے لیے یہ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہوا۔ ان کے بچوں کو شناخت کے لیے نادرا میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ عدالتی فیصلوں کے بغیر انہیں شناخت جاری نہیں کی جاتی"۔

تاریخ اشاعت 25 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

انیلہ اشرف ملتان سے تعلق رکھنے والی تحقیقاتی صحافی و سماجی کارکن ہیں۔ گذشتہ 19 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.