کراچی سے تعلق رکھنے والی صائمہ کو 14 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ ماہواری ہوئی۔ اس وقت ان کی والدہ اور دو بہنیں ان کے ساتھ رہتی تھیں لیکن ان میں سے کسی نے انہیں یہ نہیں سمجھایا کہ اس صورتِ حال میں وہ کیا کریں۔ لیکن انہوں نے ٹیلی وژن پر آل ویز کے پیڈ کے بارے میں سن رکھا تھا اس لیے وہ کسی سے مشورہ کیے بغیر اسے استعمال کرنے لگیں تا کہ ماہواری کے دوران وہ اپنے جسم اور لباس کو خون کے دھبوں سے محفوظ رکھ سکیں۔
یہ اقدام انہیں طبی طور پر بہت مہنگا پڑا۔
وہ کہتی ہیں کہ آل ویز کے استعمال سے انہیں سوزش اور جلن ہونے لگتی تھی جس کے نتیجے میں ان کا چلناپھرنا اور اٹھنا بیٹھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ ان کے مطابق جب بھی ان کی ٹانگیں آپس میں رگڑ کھاتیں ان کی تکلیف بد ترین صورت اختیار کر لیتی "جس سے بچنے کے لیے مجھے ویزلین لگانا پڑتی تھی"۔
آہستہ آہستہ یہ تکلیف اس قدر بڑھ گئی کہ وہ ماہواری سے ہی ڈرنے لگیں۔ اس کے باوجود انہوں نے کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اب وہ 27 سال کی ہو چکی ہیں اور کئی ایسی خواتین کو جانتی ہیں جو انہی کی طرح کے مسائل کا شکار ہیں اور سرِ عام آل ویز کو ان کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔
عالیہ کو بھی آل ویز راس نہیں۔ وہ 21 سال کی ہیں اور سیالکوٹ میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بلوغت کی ابتدا سے ہی آل ویز استعمال کرتی چلی آ رہی ہیں کیونکہ ماہواری کے بارے میں پائی جانے والی رازداری کی وجہ سے وہ کسی اور نام کے پیڈ سے واقف ہی نہیں تھیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال سے انہیں ٹانگوں کے درمیان اکثر سوزش ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی ٹانگیں جوڑ کر بیٹھ بھی نہیں سکتی تھیں جبکہ بعض اوقات "بہت سی دوائیں لینے کے باوجود" ان کی "ماہواری نہیں رکتی تھی"۔
ابتدا میں انہوں نے سوچا کہ شاید یہ مسائل وقتی ہیں تاہم کئی سال تک انہیں جھیلنے کے بعد نومبر 2020 میں انہیں محسوس ہوا کہ سوزش سے متاثرہ ان کی جلد کا رنگ نیلا، جامنی اور سرخ ہونے لگا ہے۔ ایک ماہ تک اس مسئلے کا سامنا کرنے کے بعد انہوں نے آل ویز کے بجائے کوئی دوسرا پیڈ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا بلکہ ان کی جلد پھٹنا شروع ہو گئی۔ وہ کہتی ہیں "یہ اس قدر تکلیف دہ صورتِ حال تھی کہ میں کھانے پینے اور سونے جاگنے جیسے معمول کے کام بھی آرام سے نہیں کر پاتی تھی"۔
جب ان کی طبیعت خراب سے خراب تر ہونے لگی تو انہوں نے ایک ڈاکٹر سے رجوع کیا جس نے تجویز کیا کہ وہ کچھ ٹیکے لگوائیں اور متاثرہ جگہوں پر ایک کریم استعمال کریں۔ ان دوائیوں پر آٹھ ہزار روپے خرچ کرنے اور ایک مہینہ باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد ہی ان کا مسئلہ حل ہوا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ رمشا کو بھی اسی طرح کی طبی شکایات رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران وہ جب کبھی آل ویز کا استعمال کرتیں انہیں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ کہتی ہیں کہ "میری جلد بہت حساس ہے اس لیے مجھے بہت جلد الرجی یا سوزش ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر پھولوں کی خوشبو والے آل ویز پیڈ استعمال کرنے سے مجھے ہمیشہ یہ دونوں مسائل ہو جاتے تھے"۔
انہیں ایگزیما نامی جلدی بیماری بھی ہے جس کے نتیجے میں انہیں جسم کے مختلف حصوں میں سوزش، جلن، ورم اور جلد پھٹنے کی شکایات ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے مطابق آل ویز کے استعمال سے یہ تکالیف اور بھی بڑھ جاتی تھیں۔
صائمہ، عالیہ اور رمشا کے علاوہ پاکستان بھر سے مختلف عمروں کی، مختلف سماجی اور معاشی پس منظروں میں پلنے بڑھنے والی اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی لگ بھگ ایک سو خواتین نے سوشل میڈیا کے ذریعے سجاگ سے رابطہ کر کے یہی شکایت کی ہے کہ آل ویز کے استعمال کی وجہ سے وہ کئی جلدی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہیں۔
ماہواری کے بارے میں عدم آگاہی
امریکی ریاست کیلی فورنیا سے شائع ہونے والے طبی جریدے دی کیورز -- The Cures – میں چھپنے والے ایک تحقیقی مضمون کے مطابق اکتوبر 2019 اور جنوری 2020 کے درمیان کراچی کی خواتین میں ماہواری سے متعلق رائج تصورات اور آگاہی کے بارے میں ایک سروے کیا گیا جس میں 353 عورتوں/ لڑکیوں سے رائے لی گئی۔ ان میں سے 177 طبی کارکن جبکہ 176 عام خواتین تھیں۔
اس سروے میں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ماہواری کے دنوں میں اپنے لباس کو خون کے دھبوں سے بچانے کے لیےکون سی چیزیں استعمال کرتی ہیں تو ان کے جواب کچھ یوں تھے۔
جب ان خواتین سے پیڈ استعمال کرنے کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو عام خواتین میں سے 23.3 فیصد نے کہا کہ انہیں اس کے استعمال سے تولیدی نظام کے اندر سوزش کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 36.9 فیصد عام خواتین کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے انہیں ٹانگوں کے درمیان سوزش کی شکایت ہو گئی۔
ملتان کے ایک نِجی شفا خانے، رحمت رحمان ہسپتال، میں گائنا کالوجسٹ کے طور پر کام کرنے والی ڈاکٹر رابعہ آصف کے پاس روزانہ ایسی خواتین آتی ہیں جو ایسے امراض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق ''گزشتہ تین سال کے دوران ماہواری سے متعلق طبی مسائل کے حل کے لیے میرے پاس آنے والی خواتین میں ٹانگوں کے درمیان سوزش کی شکایت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے مریضوں کی ایک بڑی تعداد کے مطابق یہ مسئلہ آل ویز کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ مختلف قسم کے علاج تجویز کرنے کے بعد انہوں نے "بالآخر انہیں مشورہ دینا شروع کیا کہ وہ کوئی دوسرا پیڈ استعمال کریں"۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس تبدیلی سے بہت سی خواتین کی طبی شکایات کا خود بخود ازالہ ہو گیا۔
لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ایک نجی کلینک چلانے والی گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر روبینہ عطا اللہ بھی ایسی کئی خواتین کا علاج کر چکی ہیں جو ماہواری کے دوران آل ویز یا کوئی دوسرا پیڈ استعمال کرنے کی وجہ سے سوزش میں مبتلا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے میں ان کے پاس آنے والی ایسی مریض خواتین کی تعداد تین گنا بڑھ گئی ہے جو پیشاب کی نالی میں سوزش کا شکار ہوتی ہیں۔
ان کے خیال میں اس کی ایک اہم وجہ ایسے پیڈز کا استعمال ہے جن کی تیاری میں مضرِ صحت کیمیائی اجزا استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے بقول "چونکہ بیشتر خواتین کو ماہواری کے دوران جسمانی صفائی کے لیے درکار اشیا تک آزادانہ رسائی نہیں ہوتی اس لیے انہیں جو چیز بھی جلدی اور آسانی سے مِل جائے وہ اسے ہی استعمال کرنا شروع کر دیتی ہیں چاہے وہ ان کی جلد کے لیے کتنی ہی ناموزوں کیوں نہ ہو"۔
رمشا اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پاکستان میں نوجوان لڑکیوں کو ماہواری کے حوالے سے مناسب آگاہی دستیاب نہیں ہوتی کیونکہ ان کے ارد گرد موجود بڑی عمر کی خواتین میں سے "کوئی بھی اس موضوع پر کھل کر بات نہیں کرنا چاہتا"۔
ان کے اس خیال کی تائید اقوام متحدہ میں بچوں کے ادارے (یونیسف) کی طرف سے 9 مارچ 2017 کو پاکستان میں ایس ایم ایس کے ذریعے کیے گئے رائے عامہ کے ایک جائزے سے بھی ہوتی ہے جس میں 10 سال سے 35 سال کی عمر کی 710 لڑکیوں اور خواتین نے حصہ لیا۔ اس میں حصہ لینے والی 49 فیصد عورتوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ماہواری آنے سے پہلے انہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
آگاہی کے اس فقدان کی وجہ سے لڑکیوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایامِ ماہواری میں ایسی کون سی اشیا کا استعمال کر سکتی ہیں جو نہ صرف انہیں اپنے جسم اور لباس کو صاف رکھنے میں ان کی مدد کر سکیں بلکہ ان کی جِلد اور صحت کے لیے بھی نقصان دہ نہ ہوں۔ رمشا اور کئی دوسری خواتین کا کہنا ہے کہ ان معلومات کی عدم موجودگی میں اکثر لڑکیاں آل ویز کا استعمال شروع کر دیتی ہیں کیونکہ انہوں نے ٹیلی وژن کے ذریعے اس کا نام سن رکھا ہوتا ہے۔ چونکہ آل ویز تیار کرنے والی کمپنی، پراکٹر اینڈ گیمبل، ایک مشہور بین الاقوامی کاروباری ادارہ ہے اس لیے وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ اس کی تیار کردہ اشیا کا معیار باقی اشیا سے بہتر ہی ہو گا۔
پیڈز میں موجود مضر صحت اجزا
اگست 2014 میں وومن وائسز فار دی ارتھ (ڈبلیو وی ای) نامی ایک عالمگیر تنظیم نے، جو ماہواری پیڈ میں استعمال ہونے والے زہریلے کیمیائی اجزا کے خاتمے کے خلاف آواز اٹھاتی ہے، ایک تفصیلی کیمیائی تجزیے کے بعد انکشاف کیا کہ آل ویز کی تیاری میں سٹائرین، کلورومیتھین، کلوروایتھین، کلورو فارم اور ایسیٹون نامی اجزا استعمال کیے جاتے ہیں جن میں سے پہلے تین نہ صرف تولیدی نظام میں زہر پھیلاتے ہیں بلکہ کینسر کا سبب بھی بنتے ہیں جبکہ چوتھا جزو انسانی جسم میں بےچینی پیدا کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
بچوں میں ایڈز کا پھیلاؤ:'میں نہیں جانتی کہ اپنی بیٹی کی جان کیسے بچاؤں'۔
تاہم ڈبلیو وی ای تسلیم کرتی ہے کہ اس کے تجزیے کے نتائج سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آل ویز کے ان اجزائے ترکیبی کا اسے استعمال کرنے والی عورتوں پر کس قسم کا منفی اثر ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا کہنا ہے کہ ان نتائج کو مزید پرکھنے کی ضرورت ہے تا کہ اس کے خواتین کی صحت پر اثرات کو بہتر طور سے سمجھا جا سکے۔
تاہم پچھلے کچھ سالوں سے دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ آل ویز میں ان اجزا کے استعمال کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ایسا ایک مظاہرہ اکتوبر 2015 میں امریکی ریاست اوہائیو کے شہر سنسناٹی میں پراکٹر اینڈ گیمبل کے مرکزی دفاتر کے سامنے ہوا جس میں شریک لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ کئی سال سے کمپنی کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
ان کی شکایات کے جواب میں پراکٹر اینڈ گیمبل کے ترجمان ڈیمن جونز نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ آل ویز کے جن اجزائے ترکیبی کا ذکر ڈبلیو ای وی نے اپنے تجزیے میں کیا ہے وہ قدرتی ماحول میں بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم وہ اس بارے میں کھل کر بات کرنے سے گریزاں رہے کہ ان اجزا کی کتنی مقدار آل ویز میں استعمال کی جاتی ہے اور کیا وہ مقدار نسوانی صحت کے لیے موزوں ہے یا غیر موزوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہمیں ایک "توازن قائم کرنا ہوگا کہ کتنی معلومات لوگوں کو فراہم کرنا ضروری ہے اور کتنی معلومات ایسی ہیں جو اگر سب کو بتا دی جائیں تو اس سے محض الجھن پیدا ہوگی"۔
نوٹ: اس رپورٹ میں ڈاکٹروں کے علاوہ تمام خواتین کے نام بدل دیے گئے ہیں تاکہ ان کی نِجی زندگی پر اس کے کوئی منفی اثرات نہ ہوں۔
تاریخ اشاعت 28 اکتوبر 2021