سندھ کے ضلع عمر کوٹ اور تھر میں مویشیوں کی افزائش نسل کے لیے سولہ سال پہلے بنائی گئی 'کیٹل کالونیاں' ابھی تک پوری طرح فعال نہیں ہو سکیں جن پر سرکاری خزانے سے خرچ کی گئی بھاری رقم عملاً ضائع ہو چکی ہے۔
یہ کالونیاں تقریباً ایک ارب اور 44 کروڑ روپے لاگت سے عمر کوٹ، تھرپارکر کے گاؤں جنھان جونیجو اور کلوئی میں بنائی قائم کی گئی تھیں۔ ان کا ایک مقصد یہ بھی کہ لوگ اپنے مویشی آبادیوں سے نکال کر ان کالونیوں میں رکھیں تاکہ سرکاری سطح پر ان کی اجتماعی دیکھ بھال ہو سکے۔
عمرکوٹ کی کیٹل کالونی شہر سے پانچ کلومیٹر دور مشرق میں رتنور روڈ پر دو سو ایکڑ اراضی پر بنائی گئی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 44 کروڑ روپے سے لاگت سے یہ منصوبہ اگست 2016ء میں مکمل ہوا جس کے بعد محکمہ ورکس نے یہ کالونی محکمہ لائیو سٹاک کو سونپ دی۔ تاہم اس کالونی کو تاحال پوری طرح فعال نہیں کیا جا سکا۔
تھرپارکر میں نوکوٹ قلعے کے قریب جنھان جونیجو گاؤں میں کیٹل کالونی کی خستہ حال عمارتیں ہی باقی رہ گئی ہیں جبکہ کلوئی کے قریب قائم کردہ دوسری کالونی کا بھی یہی حال ہے۔
غلام اکبر درس پچھلے 25 برس سے مویشی پال رہے ہیں۔وہ عمر کوٹ کی تحصیل کنری میں رہتے ہیں جہاں انہوں نے اپنے گاؤں نبیسر میں مویشی فارم بنا رکھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے تھر اور عمر کوٹ میں ڈیری ڈیویلپمنٹ کے لیے تین کیٹل کالونیاں بنائی تھیں مگر ان میں کوئی ایک بھی فعال نہیں ہے۔ سرکاری خزانے کے کروڑوں روپے ضائع ہو گئے اور مقامی لوگوں کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
عمر کوٹ کے محلہ سومرو سے تعلق رکھنے والے مینھل سومرو نے اپنے گھر کے ساتھ باڑے میں تقریباً 35 گائیں بھینیسں پال رکھی ہیں۔ وہ ان کا دودھ شہر میں بیچتے ہیں۔
مینھل کا کہنا ہے کہ عمر کوٹ کی کیٹل کالونی ان کے علاقے سے قریب ہے لیکن اس کالونی میں پانی نہیں ہے۔ اگر محکمہ لائیو سٹاک پانی کی فراہمی شروع کرا دے اور شیڈ الاٹمنٹ کی فیس میں کمی کرے تو وہ اپنے مویشیوں کو کیٹل کالونی میں منتقل کر سکتے ہیں۔
اس وقت کیٹل کالونی کی ماہانہ فیس 7600 روپے ہے جسے مویشی مالکان بہت زیادہ قرار دیتے ہیں۔
عمرکوٹ کے سماجی کارکن ہرچند ساگر بتاتے ہیں کہ کیٹل کالونی میں پانی کے برسوں سے خالی تالاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ میٹھے پانی کے لیے بنائی گئی بڑی ٹینکی کا بھی یہی حال ہے جس کی چھت نوجوانوں کے سیلفیاں بنانے کے کام آتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ کالونی ڈیری فارمرز کے کام تو نہ آ سکی البتہ بینظیر انکم سپورٹ والوں کے کام ضرور آ رہی ہے۔ کالونی کی عمارت کو عارضی طور پر اس پروگرام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہاں جب خواتین پیسے نکلوانے آتی ہیں تو وقتی طور پر چہل پہل دکھائی دیتی ہے۔ سیلاب متاثرن کے لیے خیمہ سٹی بھی اسی کالونی میں قائم کیا گیا تھا۔
چند برس سے ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک نے کیٹل کالونی میں ویٹرنری ہسپتال کے لیے تعمیر کردہ چند کوارٹرز میں اپنا دفتر بنا رکھا ہے۔ اس لاوارث کیٹل کالونی کی عمارتوں کے دروازے اور دیگر قیمتی سامان چوری ہو رہا ہے۔ بھینسوں کو نہلانے کے لیے بنائے گئے فواروں کے کچھ حصے بھی غائب ہو گئے ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک تسلیم کرتے ہیں کہ کالونی سے سامان چوری ہوتا رہا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب سے وہ اس جگہ آئے ہیں اس وقت سے چوری کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
عمرکوٹ کے سابق ڈپٹی کمشنر ندیم رحمان میمن نے جولائی 2020ء میں کالونی کی بحالی کے لیے اجلاس بلایا اور پندرہ روز کے اندر مویشی بانوں کو شیڈز کی الاٹمنٹ کی ہدایات جاری کیں۔ کالونی کو کوٹ واہ سے پانی کی فراہمی کے لیے ایکسیئن انہار تھر ڈویژن کو لیٹر لکھنے کی ہدایات بھی دی گئیں مگر ان معاملات پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک ڈاکٹر گنیش کمار کہتے ہیں کہ کیٹل کالونی کا رقبہ بارانی تھا اس لیے پانی کا انتظام نہ ہو سکا۔ کوٹ واہ سے پانی لینے کے لیے حکومت کو 30 لاکھ روپے دینے کی درخواست کی گئی تاہم یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔
دوسری جانب ایکسیئن آبپاشی تھر ڈویژن اختر خاصخیلی کالونی کو پانی دینے کے لیے کوئی سمری یا تجاویز ملنے کی تردید کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایسا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔ تاہم ضلعی انتظامیہ سے احکامات ملے تو وہ فزیبلٹی رپورٹ تیار کر کے حکام کو بھیج دیں گے۔
عمر کوٹ کے موجودہ ڈپٹی کمشنر نوید رحمان لاڑک کہتے ہیں کہ کیٹل کالونی کا معاملہ ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ باڑے باہر منتقل ہونے سے شہر کا ماحول بہتر ہو گا اور کسان بھی پراجیکٹ کے معاشی فوائد سے مستفید ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں
کچھی بولان ، کیاسیلاب سے متاثرہ مویشی پالوں اور گلہ بانوں کے نقصان کا کبھی ازالہ ہو پائے گا؟
تھرپارکر کے گاؤں مانجھی ڈاھانی کے عثمان جونیجو نے 17 گائے بھینسیں پال رکھی ہیں۔ وہ 20 سال سے نوکوٹ جا کر دودھ بیچ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مویشی بیمار ہو جائیں تو نوکوٹ یا مٹھی سے ڈاکٹروں کو بلانا پڑتا ہے۔ مویشیوں کے حوالے سے کئی مسائل ایسے ہیں جو تھرپاکر کی جنھان جونیجو کیٹل کالونی فعال ہونے کی صورت میں حل ہو سکتے تھے۔
ان مویشی کالونیوں کےمعاملے پر جب سندھ کے ڈائریکٹر اینیمل ہسبینڈری ڈاکٹر احتشام الحق سے بات کی گئی تو انہوں نے غیر فعال کیٹل کالونیوں کے مسائل کا اعتراف کیا اور کہا کہ ان کا محکمہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ اس سلسلے میں جلد عمر کوٹ کے ڈپٹی کمشنر سے بھی ملیں گے۔
تاریخ اشاعت 16 اگست 2023