آکاش کا چہرہ اور جسامت انڈین اد اکار شاہد کپور سے بہت ملتے ہیں۔ وہ شاہد کپور ہی کی طرح عام طور جینز کی پتلون، ٹی شرٹ اور سامنے سے کھلی جیکٹ پہنے رہتے ہیں۔
تاریخی شہر ٹیکسلا کے پاس واقع ایک گاؤں کے رہنے والے آکاش ایک ذہین اور محنتی طالب علم بھی رہے ہیں۔ جب وہ انٹرمیڈیٹ میں زیرتعلیم تھے تو انہوں نے ٹیکسلا کے مسلم آئیڈیل سکول میں سائنس کے استاد کی حیثیت سے پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ اسی زمانے میں قریبی قصبے واہ کینٹ میں ایک کوچنگ سنٹر قائم کر کے وہ چھ سال خواتین کو کمپیوٹر بھی سکھاتے رہے۔
بعدازاں انہوں نے اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نَسٹ) سے سافٹ ویئر انجنئرنگ میں ڈگری حاصل کی اور 50 ہزار ماہانہ تنخواہ پر ایک ایسی کمپنی میں کام کرنے لگے جو کاروں میں ٹریکر لگاتی ہے۔
لیکن 28 سالہ آکاش آج کل لاہور میں مچھلی سے بنے کھانے بیچنے والی ایک دکان پر 11 ہزار روپے ماہوار تنخواہ پر چولہے میں کوئلہ ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ انہیں یہ کام کرتا دیکھ دکان پر آنے والے لوگ بہت افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض انہیں ملازمت بھی دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ان پیش کشوں کو قبول نہیں کر سکتے کیوںکہ ان کے پاس کوئی شناختی دستاویزات موجود نہیں۔
شناخت کا بحران
جون 2020 کے آخر میں آکاش نے نیہا نامی 16 سالہ لڑکی سے شادی کر لی لیکن اس کے والدین نے ان کے خلاف ٹیکسلا کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے کم سِن نیہا کو اغوا کر کے اسے اپنی بیوی بنایا ہے۔
اس الزام کا جواب دیتے ہوئے آکاش نے عدالت کو بتایا کہ نیہا نے اپنی مرضی سے ان سے شادی کی ہے لیکن اس کے والدین نے اسے زبردستی قید کر رکھا ہے۔ لہٰذا انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کی بیوی کو اس کے والدین کی قید سے نکال کر ان کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔ نیہا نے بھی جج کو بتایا کہ وہ آکاش کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
نتیجتاً جج نے ان کی شادی کو درست مان کر پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ان دونوں کو اپنی نگرانی میں ان کے گھر چھوڑ کر آئے تاکہ راستے میں کوئی انہیں ہراساں نہ کرے۔
جب نیہا کے والد سید امجد حسین نے یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ کے روبرو چیلنج کیا تو آکاش اور نیہا کو یقین تھا کہ اس کا فیصلہ بھی ان کے حق میں ہو گا۔ ان کا خیال تھا کہ جیسے ہی وہ جج کو بتائیں گے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
لیکن اس مقدمے نے ایک اور ہی صورت اختیار کر لی۔
ابھی اس کی سماعت شروع ہی ہوئی تھی کہ کوچنگ سنٹر کے زمانے میں آکاش کے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی نے ان کی کچھ پرانی تصویریں سوشل میڈیا پر لگا دیں جس میں انہوں نے لڑکیوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ چنانچہ سید امجد حسین نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ آکاش ایک مرد نہیں ہے لیکن نیہا سے شادی کرنے کے لیے اس نے یہ حقیقت چھپائی ہے اس لیے اس کی شادی کو دھوکہ دہی پر مبنی قرار دے کر ختم کیا جائے۔
جب 15 جولائی 2020 کو آکاش اور نیہا لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس عبدالعزیز کے سامنے پیش ہوئے تو وکلا سمیت کمرہِ عدالت میں موجود بیشتر لوگ انہیں گھور رہے تھے اور اپنے سر ایسے ہلا رہے تھے جیسے انہیں ان کے میاں بیوی ہونے پر شدید اعتراض ہو۔
تھوڑی دیر بعد سید امجد حسین کے وکیل نے عدالت کو آکاش کی ایک پرانی تصویر دکھائی جس میں انہوں نے گلابی رنگ کی پھول دار قیمص پہن رکھی تھی۔ وکیل نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے پیدائشی سرٹیفکیٹ پر ان کا نام عاصمہ بی بی لکھا ہوا ہے۔
یہ باتیں سن کر عدالت میں موجود لوگوں نے بآوازِ بلند ناگواری کا اظہار کیا۔ ان میں سے کچھ نے تو ایسے استغفراللہ کہا جیسے ان کے سامنے کسی بڑے گناہ کا ارتکاب ہوا ہو۔
اس ماحول میں جب آکاش کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کا موکل مرد ہے تو جج سمیت عدالت میں موجود لوگوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ بلکہ جج نے تو یہ کہا کہ "چلیں اس کی بیوی سے پوچھتے ہیں"۔
پھر انہوں نے نیہا سے سوال کیا:
"کیا آپ کا شوہر آکاش، جس سے آپ نے 30 جون 2020 کو شادی کی تھی، مکمل مرد ہے؟"
سوال سنتے ہی سب لوگ نیہا کی طرف دیکھنے لگے۔ جب اس نے شرمندگی اور پریشانی کے عالم میں بڑبڑا کر اثبات میں جواب دیا تو جج نے اسے زور سے بولنے کا کہا۔
مردوں سے بھرے کمرے میں تمام نظریں ابھی تک نیہا پر جمی تھیں لیکن اس نے اپنی تمام ہمت اکٹھی کر کے واضح انداز میں کہا کہ "جی ہاں، میرا شوہر آکاش ایک مکمل مرد ہے"۔
یہ جواب مجمعے کو پسند نہیں آیا۔ اس میں سے ایک شخص نے چلا کر کہا "یہ جھوٹ بول رہی ہے"۔ اسی دوران پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل مجیب الرحمان نے تجویز پیش کی کہ "ہمیں آکاش کا طبی معائنہ کرانا چاہیے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ مرد ہے یا نہیں"۔
جج نے ان کی بات مان لی اور حکم دیا کہ یہ طبی معائنہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال راولپنڈی میں کیا جائے"۔
لیکن آکاش یہ حکم ماننے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے جج کو جواب دیا کہ "میں اپنی مردانگی ثابت کرنے کے لیے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ یہ میری توہین ہے"۔
جج نے انہیں جواب دیا کہ "جو کام انہوں نے کیا ہے (یعنی مبینہ طور پر عورت ہو کر ایک عورت سے شادی کرنا) وہ اس سے کہیں زیادہ ذلت آمیز ہے اس لیے یہ تصدیق کرنا پڑے گی کہ وہ مرد ہیں یا عورت"۔
جونہی مقدمے کی سماعت ختم ہوئی مردوں کے ایک گروہ نے آکاش اور نیہا کو گھیر لیا اور انہیں بتانے لگے کہ ان دونوں نے "جس طرح کی شادی کی ہے وہ بہت بڑا گناہ ہے"۔ پھر وہ آکاش کو مجبور کرنے لگے کہ وہ عدالت کے باہر کھڑے صحافیوں کو بتائیں کہ وہ اپنا طبی معائنہ کیوں نہیں کرانا چاہتے۔
اس روز کے بعد آکاش اور نیہا کا ازدواجی تعلق "دو لڑکیوں" کی شادی کے طور پر مشہور ہو گیا اور سوشل میڈیا پر کچھ لوگ انہیں پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کرنے لگے۔
اس صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد آکاش کے دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اگلی پیشی پر عدالت میں حاضر نہ ہوں کیونکہ اگر جج نے انہیں بری بھی کردیا تو خدشہ ہے کہ عدالت میں موجود ہجوم ان کو مار ڈالے گا۔ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جب وہ متعدد پیشیوں پر عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو جج نے ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے اور پولیس کو حکم دیا کہ انہیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔
اس گرفتاری سے بچنے کے لیے آکاش روپوش ہو گئے اگرچہ اس روپوشی کے دوران بھی سوشل میڈیا نے ان کی زندگی اجیرن بنائے رکھی۔ وہ کہتے ہیں کہ "سب لوگوں نے میری تصویریں دیکھ رکھی تھیں اس لیے پہچانے جانے کے خوف سے میں گلی میں بھی نہیں نکلتا تھا"۔
ان دنوں وہ اپنا فون تک استعمال نہیں کرتے تھے تاکہ کسی کو ان کی روپوشی کے مقام کا علم نہ ہو جائے۔ اس لیے انہوں نے کئی ماہ اپنے والدین سے بھی بات نہ کی۔
جب بالآخر انہوں نے کسی سے فون مانگ کر اپنی والدہ سے بات کی تو انہیں معلوم ہوا کہ پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان کی سالیوں کے گھروں پر متعدد مرتبہ چھاپے مارے ہیں۔
نیہا اس دوران دستک نامی پناہ گاہ میں رہ رہی تھی اور مسلسل عدالت میں پیش ہو رہی تھی۔ ایک پیشی کے دوران جج نے اس سے سوال کیا کہ آیا وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہِے تو اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ دستک میں ہی جائے گی۔
لیکن جب جج کو پتہ چلا کہ دستک اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل نامی ایک غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ غیرسرکاری تنظیمیں "آکاش جیسے لوگوں کو یورپ یا امریکا بھجوانے کے لیے ان کی سرپرستی کرتی ہیں"۔ چنانچہ اس امکان کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے حکم دیا کہ آکاش کا شناختی کارڈ غیرفعال کر دیا جائے اور ان کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگائی جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے حکم دیا کہ نیہا کو دستک کے بجائے سرکاری پناہ گاہ، دارالامان، میں بھیجا جائے۔
دو ماہ بعد بعض انتظامی تبدیلیوں کی وجہ سے اس مقدمے کی سماعت کی ذمہ داری جسٹس صادق محمود خرم کو دے دی گئی جنہوں نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آکاش کا طبی معائنہ کرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے صرف یہ دیکھنا ہے کہ نیہا اپنی مرضی سے کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
اگرچہ یہ فیصلہ آئے تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن آکاش کے شناختی کاغذات ابھی تک غیر فعال ہیں۔
ناروا سزائیں
فیصل آباد کے رہنے والے شمائل راج کو بھی عدالت نے ایک ایسی سزا دی جو ان کے خلاف دائر مقدمہ ختم ہونے کے باوجود ابھی تک جاری ہے۔
انہوں نے 2007 میں شہزینہ طارق نامی لڑکی سے شادی کی لیکن اُسی سال 28 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی شادی کو غیراسلامی قرار دے دیا۔ چونکہ عدالت کی نظر میں میاں اور بیوی ایک ہی صنف سے تعلق رکھتے تھے اس لیے "ہم جنس پرستی" کے جرم میں ان دونوں کو تین تین سال قید کی سزا سنائی گئی اور اپنی شناخت کے بارے میں جھوٹ بولنے پر دس دس ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کے خلاف عدالتی درخواستیں: 'ناقدین اس قانون سے واقف ہی نہیں'۔
عدالت نے حکومت کو یہ حکم بھی دیا کہ شمائل راج اور شہزینہ طارق کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگائی جائے۔
لیکن جب ان دونوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تو لگ بھگ ایک سال کی سماعتوں کے بعد عدالتِ عالیہ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
اس بات کو 13 سال گزر چکے ہیں تاہم شمائل راج اور شہزینہ طارق کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی ابھی تک برقرار ہے حالانکہ، ان کے بقول، اس دوران ان کی زندگیاں مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہیں۔
شمائل راج کہتے ہیں کہ مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ان کے پاس تین کاریں تھیں جنہیں کرائے پر دے کر وہ اچھا خاصا منافع کما لیتے تھے لیکن مقدمے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہیں یہ گاڑیاں فروخت کرنا پڑیں۔ اب ان کی گزر بسر بہت مشکل سے ہو رہی ہے۔
انہوں نے مرد بننے کا طبی عمل مکمل کرنے کے لیے متعدد آپریشن بھی کرائے ہیں لیکن ابھی انہیں ایک حتمی سرجری کرانا ہے جس کے لیے نہ تو ان کے پاس پیسے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے درکار طبی مہارت پاکستان میں موجود ہے۔ شہزینہ کہتی ہیں کہ ''اگر کسی طرح ہم پیسے اکٹھے بھی کر لیں تو حکومتی پابندیوں کی وجہ سے ہم اس سرجری کے لیے بیرونِ ملک نہیں جا سکتے"۔
عدالت بمقابلہ آئین
صنفی اور جنسی اقلیتوں اور مخنثوں کے حقوق پر کام کرنے والی محقق مہلب جمیل کا کہنا ہے کہ "ہمارا عدالتی نظام صنفی اعتبار سے بہت غیرمنصفانہ ہے"۔ ان کے مطابق اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ عدالتوں کے پاس "مخنثوں کی مختلف درجہ بندیوں کے بارے میں خاطرخواہ معلومات نہیں ہوتیں"۔
چنانچہ اعلیٰ ترین عدالتیں بھی ان کے مقدمات سنتے وقت مخنث افراد کے بارے میں پائے جانے والے سماجی تعصب سے متاثر ہو جاتی ہیں۔ اس لیے "انہیں دی گئی بعض سزائیں بہت ہی ناجائز ہوتی ہیں"۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آکاش، شمائل راج اور شہزینہ طارق کو دی جانے والے سزائیں نہ صرف نامناسب ہیں بلکہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہیں۔ معروف وکیل اور ہیومن رائٹس واچ نامی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کے پاکستان میں نمائندے سروپ اعجاز کہتے ہیں کہ عدالت کی طرف سے بری کردہ شخص کے شناختی کاغذات کو غیرفعال رکھنا یا اس کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا آئینِ پاکستان اور اقوام متحدہ کی طرف سے دی گئی شخصی آزادیوں کی پامالی ہے۔
وہ 1948 میں بنائے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی فرد کی جنسی شناخت کے بارے میں شکوک و شبہات کو بنیاد بنا کر نہ تو اس کی شہریت واپس لی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی سفری پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
تاریخ اشاعت 3 جنوری 2022