حادثات، جنسی استحصال اور مارپیٹ کا سامنا کرتے طورخم سرحد کے مزدور بچے

postImg

اسلام گل آفریدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

حادثات، جنسی استحصال اور مارپیٹ کا سامنا کرتے طورخم سرحد کے مزدور بچے

اسلام گل آفریدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

پاک افغان سرحدی راہداری طورخم پر سارا دن بڑی تعداد میں لوگوں کی آمدورفت اور اشیائے ضرورت اور تجارتی سازوسامان لے جانے والی گاڑیوں کے باعث گہماگہمی رہتی ہے۔ گاہے گاہے ان ٹرکوں اور ٹرالرز کے بیچ نوعمر بچے بھی نظر آجاتے ہیں جو سامان کے تھیلے ہاتھوں میں اٹھائے یا کندھے پر لادے سیکیورٹی اہلکاروں اور گاڑیوں سے بچتے بچاتے تیزی سے دوڑتے چلے جاتے ہیں۔

افغانستان کے سرحدی علاقے غزگی کی کم سن بچی مہنا بھی ان میں شامل ہیں جو پانچ کلو چینی کندھے پر رکھ کر باقی کئی بچوں کے ساتھ سرحد پار افغانستان جارہی ہیں۔

بوسیدہ کپڑے اور پیوند زدہ دوپٹہ پہنے مہنا والدین اور چار بہن بھائیوں پر مشتمل خاندان کی آمدنی میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ وہ پچھلے ایک سال سے چینی اور گڑ کا پانچ کلو کا تھیلا افغانستان لے جاتی ہیں اور وہاں سے سگریٹ، صابن اور کاسمیٹکس لے کر آتی ہیں۔

مہنا نے بتایا کہ پاکستان یا افغانستان میں کمیشن کار یا گودام سے مال لے کر سرحد پار جانے کیلئے انہیں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سرحد پر موقع ملتے ہی وہ اپنے منزل کے طرف روانہ ہوجاتی ہیں۔ کبھی کبھار تو پوری رات سڑک کے کنارے گزر جاتی ہے کہ کب سرحد پار کرنے کا موقع ملے گا۔

کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کے والدین ان سے تجارتی سامان کی سمگلنگ کرواتے ہیں اور انہیں خود طورخم لے کر آتے ہیں۔

سرحد پار مال بھیجنے اور منگوانے کے کام سے منسلک ایک گودام کے منشی سید محمد آغا نے بتایا کہ بچوں میں بڑی تعداد ایسی ہے جن کے ساتھ گھر کا کوئی بڑا نہیں ہوتا، لیکن کچھ ایسے بھی بچے ہیں جن کے والد ہمارے پاس گودام میں بیٹھے رہتے ہیں، وہ اپنے دو یا تین بچوں کو لاکر ان کے ذریعے مال سرحد پار بھجوانے کا کہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ افغانستان میں گودام والوں کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں تاکہ واپسی میں وہاں سے مال لے آئیں۔ بچوں کے اس کام کا معاوضہ بھی ان کے والد خود وصول کرتے ہیں۔

طورخم میں کام کرنے والے مزدوروں کی یونین کے سابق صدر فرمان شنواری نے بتایا کہ اس وقت سرحد پر ہونے والے تجارتی سرگرمیوں میں تین ہزار سے زیادہ مزدور کام کررہے ہیں، جن میں 70 فیصد بچے ہیں۔

سات سالہ سدیس کا تعلق بھی افغانستان سے ہے۔ وہ اپنے رشتہ داروں اور پڑوس کے دیگر بچوں کے ساتھ طورخم میں محنت مزدوری کررہے ہیں اور پانچ یا آٹھ کلو وزن کندھے پر رکھ کر پاکستان کی حدود میں تیس منٹ جبکہ افغانستان میں چالیس منٹ پیدل سفرکرتے ہیں اور سرحد پر سختی نہ ہو تو دن میں ایسے دو یا تین چکر لگاتے ہیں جبکہ بعض اوقات انہیں انتظار کرتے پورا دن یوں ہی گزرجاتا ہے۔

سدیس کا گھر طورخم سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ وہ چند دن بعد گھر جاکر اپنی والدہ کو دو سے تین ہزار روپے دے آتے ہیں جس سے ان کے دو بھائیوں اور تین بہنوں کی کفالت ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کام میں بچوں کو پیش آنے والے حادثات، ان کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد معمول ہے۔

کسٹم اور وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) کے مطابق طورخم سرحد پر روزانہ پانچ ہزار افراد سفری دستاویزات کے ساتھ آتے جاتے ہیں، جبکہ تین ہزار سے زیادہ بچے غیرقانونی طریقے  سے سرحدی آمدورفت کرتے ہیں جو افغانستان سے شیونگ ریزر، تمباکو کی ہندوستانی مصنوعات، سگریٹ، صابن، کاسمیٹکس اور خوردنی تیل سمگل کرکے پاکستان لاتے ہیں۔

حال ہی میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سرحدی حکام نے افغانستان کے کسٹم ہاؤس میں سرحد پر درپیش مسائل کے حوالے اجلاس میں شرکت کی جن میں دیگر امور کے ساتھ بچو ں کی آمدورفت اور تحفظ پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔

 فرمان شنواری کے مطابق بچوں کی آمدورفت قانونی طور پر مکمل بند نہیں کی گئی کیونکہ بندش کی صورت میں بچے پیدل باڑ کراس کرکے یا گاڑیوں اور ٹرالروں میں چھپ کر سفر کرتے ہیں۔ اس دوران کئی بچے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے اعداد شمار کے بارے میں انہوں نے لاعملی کا اظہار کیا۔

وہ پاک افغان سرحدی حکام کی وقتا فوقتاً ہونے والی ملاقاتوں میں مزدور یونین کے نمائندے کے طور پر بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ملاقات میں حکام سختی سے یہ بات کرتے ہیں کہ بچوں کے مال لانے اور لے جانے پر پابندی ہونی چاہیے اور بعض اوقات کئی کئی دن حکام سرحد پر بچوں کی آمد ورفت بند کردیتے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پچھلے دوسال کے عرصے میں تیس بچے مال بردار گاڑیوں کے نیچے آکر ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اُن بچوں کا حکومت کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور نہ اُن کے خاندان کی مالی مدد کا کوئی نظام موجود ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ یہ بچے سرحد کے قریب کھلے میدان، سڑک کے کنارے، مال کے گوداموں اور گاڑیوں کے اڈوں میں ٹھہرتے ہیں، جہاں بعض اوقات وہ جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنائے جاتے ہیں۔

مزدور بچوں کا جنسی استحصال

بارہ سالہ اعظم خان کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے ہے۔ وہ افغانستان سے پیدل سرحد پار کرکے پاکستان کی حدود میں واقع گودام تک کندھے پر سگریٹ کے بیس پیکٹ (ڈنڈے) لے کر پہنچے ہیں۔ پسینے کے باعث ان کے کپڑے گرد میں اٹے ہوئے ہیں اور وہ پانی کے کولر کے قریب بیٹھ کر پیاس بجھا رہے ہیں۔

چہرے پر لگی خراشوں اور زخم کے نشانات کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ کئی بار سرحد پر پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں اور افغان طالبان کی مارپیٹ کا نشانہ بنے ہیں۔

اعظم نے بتایا کہ کام کے دوران مزدور بچے نہ صرف جسمانی بلکہ جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنتے ہیں۔ ایسے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ رات گزارنے کیلئے گودام کے منشی کی جانب سے دی گئی جگہ پر گئے تو اس نے ان کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی۔

"میں بھاگ کر کمرے سے باہر آیا، تو منشی نے جنسی تعلقات کے عوض رقم کی پیشکش کی۔ میں وہاں سے بھاگ گیا اور ساری رات سڑک کے کنارے باقی ساتھی بچوں کے ساتھ جاگ کر گزاری۔"

فرمان شینواری نے بتایا کہ 15 اگست 2021کو افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے اور عالمی پابندیوں کی وجہ سے طورخم میں مشقت کرنے والے بچوں کے تعداد بڑھ چکی ہے۔ 100 میں سے 10 بچے پاکستانی جبکہ باقی افغان ہیں۔ ان بچوں کی اکثریت گھروں کی واحد کفیل ہے جن کے بڑے بدامنی کے مختلف واقعات میں ہلاک یا معذور ہوچکے ہیں۔

لنڈی کوتل سب جیل کے ایک عہدایدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے شرط پر بتایا کہ طورخم میں بچوں کو نہ صرف تجارتی سامان کی سمگلنگ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ذریعے منشیات بھی سمگلنگ کی جاتی ہے ۔ جن میں رواں سال بیس بچے گرفتار کیے گئے، تاہم جیل میں بچوں کیلئے مخصوص جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے مقدمات جلدی نمٹاکر قانونی کارروائی پوری کردی جاتی ہے۔اُنہوں نے کہا گرفتار بچوں میں بڑی تعداد افغان بچوں کی ہوتی ہے جنہیں بعد میں افغان حکام کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

مزدور بچوں کی تعداد کتنی ہے؟

خیبر پختونخوا میں محنت مشقت کرنے والے بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی کارکن عمران ٹکر کہتے ہیں کہ صوبے بھر میں محنت مشقت کرنے والے کم سن بچوں کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی اعداد شمار موجود نہیں، اس لئے ان بچوں کی فلاح وبہبود کیلئے کوئی مؤثر منصوبہ بندی بھی نہیں کی جاسکی۔

"آخری سروے 1996میں ہوا تھا جس کے مطابق ملک میں 33لاکھ (3.3 ملین) بچوں سے چند مخصوص شعبوں میں مشقت لی جاتی ہے۔ ان میں گیا رہ لاکھ بچے خیبر پختونخوا سے تھے، لیکن قبائلی علاقے، افغان مہاجرین اور غیر رسمی شعبے اس سروے میں شامل نہیں کیے گئے۔"

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد شمار کے مطابق ملک بھر میں ایک کروڑ بچے مشقت میں مصروف ہیں۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن خیبرپختونخوا کے سربراہ اعجاز محمد خان نے بتایا کہ چائلڈ لیبر کے روک تھام کے سلسلے میں بنیادی کام اعداد شمار کا  اکھٹاہونا ہے جس پر محکمہ لیبر کام کررہا ہے اور اُمید ہے کہ رواں سال ستمبر تک اس کے اعداد شمار جاری کردئیے جائیں گے۔

سروے میں تاخیر کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سروے کا کام ایسے وقت میں شروع ہوا جب پورا ملک کرونا وائرس کی وباء کے لپیٹ میں تھا اور پورانظام زندگی مفلوج ہوگیا تھا۔

"معلومات جمع کرنے کا باقاعدہ کام جنوری 2022میں شروع ہوا۔ اکتوبر 2022 میں یہ مرحلہ ختم ہونے کے بعد جمع شدہ معلومات کی تصحیح کا عمل شروع ہوا، جو اپریل 2023 میں اسے مکمل کیاگیا، پانچ ماہ رپورٹ تحریر کرنے میں صرف ہوئے، اب جلد ہی رپورٹ شائع کردی جائے گی۔ کمیشن نے مختلف مسائل کے شکار افغان بچوں کی نشاندہی کرائی اور مذکورہ بالا اداروں کے مدد سے افغانستان میں اپنے خاندان والوں تک پہنچایا۔اس وقت بھی کمیشن کے زیر انتظام بحالی کے مراکز میں تیس سے زیادہ افغان بچے موجود ہیں۔"

چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کے مطابق ان کے پاس 2011 سے اب تک 31 ہزار کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں زیادہ تر حل کیے جاچکے ہیں۔ کمیشن کے اعداد شمار کے مطابق جون 2021 سے اگست 2023 تک افغان مہاجرین بچوں کے 370 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جنہیں حل کرنے کیلئے متعلقہ اداروں کو بھیجا گیا۔

بچوں کی حفاظت کے قوانین

خیبرپختونخوا میں بچوں کے تحفظ و بہبود ایکٹ 2010ء میں ترامیم کے بعد 2015میں اسے دوبارہ منظور کیا گیا، لازمی پرائمری تاسیکنڈری تعلیمی ایکٹ2017، بچوں سے مشقت کے روک تھام کا ترمیمی قانون 2015 میں بنایا گیا، جس میں بچوں سے مشقت کے حوالے سے شرائط واضح کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'ان افغان مہاجرین کو افغانستان واپس نہ بھیجا جائے جن کی زندگیوں کو خطرہ ہے'۔

خیبر پختونخوا میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کے بعد سماجی کارکنوں اور عوام کی جانب سے حکومت پر بچوں کے تحفظ کے قانون 2010 میں ترامیم لانے کے لیے دباؤ بڑھ گیا تھا۔اس بل کو 2021 میں صوبائی کابینہ میں پیش کرکے اس کا متنازع حصہ نکال کر اس بل کے ڈرافٹ کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا تھا۔

مجوزہ ترمیم میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کو پھانسی پر لٹکانے کی ویڈیو عام کرنے کا ذکر تھا، جس کے بارے میں اختلافی آراء سامنے آنے کے بعد اس حصے کو بل سے نکال دیا گیا۔

ترمیم شدہ قانون کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث فرد کی سزا عمر قید، سزائے موت اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ بچوں کے جنسی زیادتی کی ویڈیو بنانے پر 20سال قید اور 70 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ویڈیو شیئر کرنے پر 10سال قیداور20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔بل سے جنسی زیادتی کے مجرم کو سزائے موت اور اعضاء مخصوصہ کاٹنے جیسی دفغات حذف کر دی گئی تھیں۔

تاریخ اشاعت 9 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.