نئی حلقہ بندیوں سے کہیں انتخابی حلقوں میں اضافہ ہوا ہے تو کہیں حلقے کم ہو گئے ہیں۔ نئی تجاویز کے تحت ضلع ٹھٹہ میں صوبائی اسمبلی کا ایک پورا حلقہ غائب ہو گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نےآئندہ عام انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں 17 ستمبر کو جاری کی تھیں۔
نئی حلقہ بندیوں میں قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد 266 ہے، اس سے پہلے 2018 کے انتخابات میں یہ تعداد 272 تھی۔
نئی فہرست کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی تین، پنجاب سے 141، سندھ سے 61، خیبرپختونخوا 45 اوربلوچستان میں 16 نشستیں ہیں۔
2018ءکے انتخابات کے وقت ضلع ٹھٹہ میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستں تھیں۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 232 پور ے ضلع پر مشتمل تھا 2023ء کی حلقہ بندیوں کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
البتہ اس حلقے کو اب این اے 225 کا نام دیا گیا ہے۔
نئی حلقہ بندیوں میں تحصیل میرپور ساکرو کا صوبائی حلقہ (پی ایس 79 ) ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اس ضلع سےآئندہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو ارکان منتخب ہوں گے۔
مگر ان تبدیلیوں پر سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت کو اعتراض ہے۔
ختم یا ضم ہونے والے صوبائی حلقہ (پی ایس 79 ) کو پیپلز پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں سےگزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے جام اویس جوکھیو 43 ہزار 874 ووٹ لے کر رکن سندھ اسمبلی بنے تھے۔ 2013ء میں سید امیر حیدر شیرازی آزاد جیتے اور پی پی میں شامل ہو گئے تھے۔ ان سے پہلے سسی پلیجو بھی یہاں سے ایم پی اے رہ چکی ہیں۔
یہ صوبائی حلقہ (پی ایس 79) ٹھٹہ کی ساحلی پٹی پر واقع علاقوں میرپور ساکرو، دھابیجی، گھارو، گجو، بُہارا پر مشتمل تھا۔
ان علاقوں کی کل آبادی تین لاکھ41 ہزار 412 تھی۔ جبکہ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعدا ایک لاکھ 46 ہزار 196 تھی۔
نئی مردم شماری کے بعد صوبائی حلقوں میں ووٹرز کے تعداد کو بڑھایا دیا گیا ہے۔ نئے فارمولے کے تحت سندھ میں ہر صوبائی حلقہ چار لاکھ 28 ہزار 432 کے قریب آبادی پر مشتمل ہو گا۔
اسی فارمولے کے پیش نظر اس حلقے (سابقہ پی ایس 79) کے علاقوں کو دوسری صوبائی نشستوں میں شامل کر دیا گیا ہے۔
یوں ٹھٹہ کے دونوں صوبائی حلقوں کی آبادی اب پانچ پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔
نئی حلقہ بندیوں کے مطابق پی ایس 75 (ٹھٹہ ون) اب پانچ لاکھ 56 ہزار 767 آبادی پر مشتمل ہو گا۔ جس میں ٹھٹہ تحصیل، میرپور ساکرو کے علاقے ٹاؤن کمیٹی گھارو، گھارو تپیدار سرکل آف میرپور ساکرو سپروائزری تپیدار سرکل شامل ہیں۔
اسی طرح پی ایس 76 (ٹھٹہ ٹو ) پانچ لاکھ 26 ہزار 424 نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں تحصیل گھوڑا باری، تحصیل کیٹی بندر اور میرپور ساکرو تعلقہ (گھارو ٹائون کمیٹی اور گھارو تپیدار سرکل آف میرپور ساکرو سپروائزری تپیدار سرکل کے سوا) باقی علاقے شامل کیے گئے ہیں۔
ضم ہونے والے صوبائی حلقے میں جوکھیو اور خاصخیلی برادریوں کی اکثریت رہتی ہے۔ جبکہ جام اویس بجار جوکھیو برادری کے سردار ہیں۔ جن کا نام ناظم جوکھیو قتل کیس میں بھی آیا تھا اور وہ کچھ عرصہ جیل میں بھی رہے۔
ٹھٹہ کے سینئر صحافی شبیر بھٹی کا خیال ہے کہ نئی حلقہ بندی سے سب سے زیادہ نقصان خاصخیلی برادری کے رہنما اقبال خاصخیلی کا ہو گا۔
اقبال خاصخیلی ہمیشہ پیپلز پارٹی کے مقابل مضبوط امیدوار ہوتے تھے اور اب حال ہی میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ حلقے کی تبدیلی سے سسی پلیجو کے لیے بھی صورت حال آسان نہیں رہی۔ ان کے والد غلام قادر پلیجو نے بھی اسی حلقے سے الیکش جیتا تھا۔
"سسی پلیجو نے ترقیاتی کام بھی اسی حلقے میں کرائے ہیں"۔
وہ کہتے ہیں کہ شیرازی برادران بھی میر پور ساکرو میں اچھا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ تاہم وہ دوسرے حلقے میں ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں۔
اگر یہ لوگ آگے پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے تو پارٹی کو اس کا فائدہ ہو گا۔
پی پی کی مقامی قیادت کو اپنے ضلع سے ایک نشست کم ہونے پر سخت اعتراض ہے۔
یہ بھی پڑھیں
نئی حلقہ بندیوں میں راجن پور کو اضافی صوبائی نشست مل گئی، حلقوں میں مواضعات کی تبدیلی سے انتخابی امیدواروں کو پریشانی
پیپلز پارٹی ضلع ٹھٹہ کے صدر صادق میمن سمجھتے ہیں کہ یہ نشست ختم ہونے سے میر پور ساکرو کے لوگوں کو نقصان ہو گا۔ یہاں کے لوگوں کی نمائندگی ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ اعتراض سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھیجا ہے۔
پیپلز پارٹی ہی سے وابستہ سابقہ ایم پی ایز سسی پلیجو اور علی حسن زرداری بھی نئی حلقہ بندی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
دونوں رہنما ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ متنازع حلقہ بندی سے الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ اس اقدام کو واپس نہ لیا گیا تو اسے چیلینج کیا جائے گا۔
شبیر بھٹی پیپلز پارٹی کے اعتراض کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ٹھٹہ میں پانچ پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی کا ایک ایک صوبائی حلقہ بنا دیا گیا۔ حالانکہ ختم ہونے والے حلقے کی آبادی تین لاکھ 41 ہزار سے زائد تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ آبادی کو برابر کر کے تینوں حلقوں کو برقرار بھی رکھا جا سکتا تھا۔
اس حلقے کے خاتمے پر الیکشن کمیشن کو اعتراضات موصول ہو گئے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو تجاویز دی ہیں اور آبادی اور ووٹرز کے تناسب کے مطابق حلقے بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تاریخ اشاعت 2 نومبر 2023