کھجورڑی نامی گاؤں میں تین کنوئیں ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی پانی موجود نہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں نے آخری کنواں اپنی مدد آپ کے تحت 2010 کے آس پاس تعمیر کیا تھا لیکن ان کے سربراہ غلام حیدر نوہڑی کہتے ہیں کہ پہلے دو کنوؤں کی طرح یہ بھی چند سال ہی پانی مہیا کر سکا اور اب خشک پڑا ہے۔
کھجورڑی صوبہ سندھ کے جنوب مشرقی صحرائی ضلعے تھرپارکر کی تحصیل ڈیپلو کا حصہ ہے۔ یہاں کولہی اور بھیل نامی شیڈولڈ کاسٹ ہندو برادریوں اور نوھڑی نامی مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ پاک-انڈیا سرحد کے قریب واقع یہ گاؤں تحصیل کے صدر مقام ڈیپلو سے 45 کلومیٹر دور ہے اور پختہ سڑک اور بجلی جیسی جدید سہولتوں سے محروم ہے۔
یہاں کے 200 مقامی گھرانوں کے ارکان کو اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے درکار پانی حاصل کرنے کے لیے روزانہ آٹھ کلومیٹر دور ایک دوسرے گاؤں جانا پڑتا ہے۔ ان میں سے کئی ایک یہ سفر گدھوں پر کرتے ہیں جبکہ بہت سے دوسرے یہ فاصلہ پیدل ہی طے کرتے ہیں۔ غلام حیدر کہتے ہیں کہ ہر روز یہ دقت برداشت کرنے کے سوا گاؤں والوں کے پاس کوئی اور چارہِ کار نہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ "اپنے گاؤں میں ایک نیا کنواں کھودنے کے لیے پیسہ کہاں سے لائیں"۔
تھرپارکر کے سینکڑوں دیہات میں یہی حالات ہیں۔
مقامی روایات کے مطابق اس علاقے میں کبھی ایک بہت بڑا دریا بہتا تھا جو کچھ ہزار سال پہلے خشک ہو گیا۔ اب 16 لاکھ سے زائد آبادی والے اس ضلعے میں ہر طرف ریت کے ٹیلے دکھائی دیتے ہیں جن کے درمیان واقع انسانی بستیاں، چراگاہیں اور زرعی زمینیں مکمل طور پر بارشوں اور زیرِ زمین پانی کی مرہونِ منت ہیں۔
تاہم سالانہ بارش کے حوالے سے تھرپارکر پاکستان کے خشک ترین حصوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں ہر سال اوسطاً 11 انچ کے قریب بارش ہوتی ہے (جبکہ اس کے مقابلے میں صوبہ پنجاب کے وسطی میدانی علاقوں میں پڑنے والی بارش اوسطاً 25 انچ سالانہ کے لگ بھگ ہوتی ہے)۔ اس بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے تھرپارکر میں متعدد روایتی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں سب سے اہم قدرتی تالاب ہیں جنہیں مقامی زبان میں ترائی کہا جاتا ہیں۔ تاہم ان تالابوں میں صرف جولائی، اگست اور ستمبر میں ہی پانی موجود ہوتا ہے کیونکہ اس علاقے میں ہونے والی 80 فیصد بارش انہی تین مہینوں میں برستی ہے۔ باقی سارا سال یہ ریت سے اٹے رہتے ہیں۔
ضلع تھرپارکر میں زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بہت نیچی ہے لہٰذا اسے نکالنے کے لیے اکثر تین سو سے چار سو فٹ گہرے کنوئیں کھودنا پڑتے ہیں۔ یہ مسئلہ پاکستان-انڈیا کی سرحد سے متصل تحصیل چھاچھرو میں زیادہ شدید ہے۔ اس لیے یہاں کی مقامی خواتین اکثر گھڑے اٹھائے پانی کی تلاش میں گھومتی نظر آتی ہیں۔
لیکن تھرپارکر کے زیرِ زمین پانی میں معدنیات اور نمکیات کی مقدار اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا استعمال انسانی صحت کے لیے مناسب نہیں- مقامی ماہرِ ارضیات عطا محمد رند کہتے ہیں کہ چھاچھرو اور اسلام کوٹ کی تحصیلوں میں پائے جانے والے زیرِ زمین پانی میں نمکیات اور معدنیات کی مقدار 10 ہزار ملی گرام سے 20 ہزار ملی گرام فی لٹر ہے جو اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہِ صحت کے مقرر کردہ معیار، تین سو ملی گرام فی لٹر، سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اس کے باوجود ان علاقوں کے باشندے یہی کھارا اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ، عطا محمد رند کے مطابق، ان کے پاس کوئی متبادل موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے دانت پیلے اور کمزور ہوتے ہیں اور ان میں پیٹ کی بیماریاں عام ہیں۔
پانی کی فراہمی کے ناقص منصوبے
تھرپارکر میں پانی کی فراہمی کے لیے جتنا پیسہ خرچ کیا گیا ہے اتنا شاید ہی پاکستان کے کسی اور دیہاتی ضلعے میں خرچ کیا گیا ہو۔ خاص طور پر پچھلی دو دہائیوں میں مختلف سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے یہاں متعدد ایسے منصوبے شروع کیے ہیں جن کا واحد مقصد صاف پانی کی فراہمی ہے۔ درجنوں دیہات میں کنوئیں کھودے گئے ہیں اور ہاتھ یا مشین سے چلنے والے نل لگائے گئے ہیں۔ لیکن ان منصوبوں میں سے محض چند ایک ہی کارگر ثابت ہوئے ہیں جبکہ باقی سب مالی اور تکنیکی وجوہات کی بنا پر کام کرنا چھوڑ چکے ہیں۔
اسی طرح کئی جگہوں پر جدید سائنسی ٹیکنالوجی کے ذریعے زمینی پانی کو صاف کرنے کے لیے ریورس آسموسس پلانٹ لگائے گئے جن کی تنصیب کا سب سے بڑا منصوبہ سندھ کی صوبائی حکومت نے بنایا۔ تین کروڑ تیس لاکھ امریکی ڈالر لاگت کے اس منصوبے کا آغاز 2015 میں تھرپارکر کے ضلعی صدر مقام مِٹھی میں ایک ایسے پلانٹ کے قیام سے ہوا جس میں روزانہ 80 لاکھ لیٹر صاف پانی فراہم کرنے کی صلاحیت تھی۔ لیکن یہ پلانٹ کچھ ہی عرصہ چلا اور پھر بند ہو گیا۔
اس منصوبے کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ چھ سالوں میں صوبائی حکومت اس کے مجوزہ سات سو 50 پلانٹوں میں سے صرف چار سو ہی لگا سکی ہے۔ باقی ماندہ کی مشینری، مٹھی کے رہائشی کمال دیو کے مطابق، یا تو سرے سے ان کی مجوزہ جائے تنصیب پر پہنچی ہی نہیں یا وہاں پہنچنے کے بعد خورد برد ہو گئی ہے۔
کمال دیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن پلانٹوں کی تنصیب ہو چکی ہے ان میں سے زیادہ تر حکومتی اہل کاروں نے اپنے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں کی من پسند جگہوں پر لگوائے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس بات پر سائنسی طریقے سے غور ہی نہیں کیا گیا کہ کسی پلانٹ کی تنصیب کے لیے کون سی جگہ مناسب ہو گی اور کون سی نہیں۔ وہ اس بات پر بھی شاکی ہیں کہ "ان پلانٹوں کی تنصیب میں ناقص میٹریل استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے آج ان میں سے 80 فیصد خراب پڑے ہیں"۔
تاہم صوبائی حکومت کے اہل کار کہتے ہیں کہ پلانٹوں کی تنصیب میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری پاک اوئسس نامی ایک نِجی کمپنی کے پاس ہے۔ اس کمپنی کے ایک اہل کار تسلیم کرتے ہیں کہ تھر پارکر میں سب پلانٹ پاک اوئسس نے ہی لگائے ہیں لیکن اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر وہ کہتے ہیں "انہیں چالو رکھنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے"۔ ان کے خیال میں پلانٹوں کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ انہیں چلانے کے لیے غیر تربیت یافتہ آپریٹروں کی تعیناتی ہے۔
ایسے پلانٹ جو ابھی تک تکنیکی اعتبار سے درست حالت میں ہیں وہ بھی اب پچھلے کئی ماہ سے بند پڑے ہیں کیونکہ حکومتِ سندھ ان کے آپریٹروں کو باقاعدگی سے تنخواہ نہیں دے رہی۔
حکومتی دعوؤں پر عدم اعتماد
تھرپارکر کے قریبی اضلاع (بدین ، عمرکوٹ اور میرپور خاص) میں زرعی اور گھریلو استعمال کے لیے کئی دہائیوں سے نہری پانی دستیاب ہے لیکن اسے تھر پارکر تک پہلی بار لگ بھگ پندرہ سال پہلے جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کے تحت ضلع میرپور خاص کے قصبے نئوکوٹ سے نہر کا پانی تقریباً سوا سو کلومیٹر لمبی پائپ لائن کے ذریعے مِٹھی کے راستے کلوئی اور ڈیپلو نامی قصبوں تک پہنچایا گیا تا کہ ان بستیوں میں اسے گھریلو مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
لیکن 2010 میں آنے والے ایک سیلاب کے نتیجے میں کلوئی اور ڈیپلو کے درمیان بچھی پائپ لائن تباہ ہوگئی جسے پھر کبھی بحال نہیں کیا گیا۔ سیلاب کے بعد نئوکوٹ اور مٹھی کو جوڑنے والی پائپ لائن میں بھی پانی کی ترسیل میں کمی کر دی گئی اور ہفتے میں ایک بار کے بجائے اس میں مہینے میں ایک بار پانی چھوڑا جانے لگا۔
اس دوران تھرپارکر میں بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کی کھدائی اور استعمال کا عمل شروع ہوا جس کے لیے روزانہ کی بنیاد پر پانی کی ایک بڑی مقدار درکار تھی۔ چنانچہ اس پائپ لائن کو مِٹھی سے 42 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع قصبے اسلام کوٹ تک بڑھا کر اس کا سارا پانی بجلی بنانے والے کارخانوں کے لیے مختص کر دیا گیا۔
تھر کے باشندوں کو شکایت ہے کہ اگر ان کارخانوں کی مشینری کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے نہر کا میٹھا پانی روزانہ باقاعدگی سے فراہم کیا جا سکتا ہے تو مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ بھوریلو نامی گاؤں کے رہائشی چندر میگھواڑ کہتے ہیں کہ "ہم کئی نسلوں سے چیخ رہے ہیں کہ ہمیں پانی چاہیے لیکن کسی حکومت نے کبھی ہماری بات نہیں سنی۔ دوسری طرف کوئلے کے منصوبوں کو جیسے ہی پانی کی ضرورت پڑی ہے تو اس کے لیے نہری پانی کا انتظام کر دیا گیا ہے"۔
تھرپارکر کے لوگوں کی ان شکایات کی بنا پر آبی امور کے ماہر اور موسمیاتی تبدیلی کے سائنسدان پرویز عامر سمجھتے ہیں کہ پانی سے متعلقہ مسائل حل کیے بغیر حکومت مقامی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے خاطر خواہ معاشی فوائد حاصل نہیں کر سکے گی۔ ان کے مطابق جب تک پانی سمیت تمام قدرتی وسائل کو مقامی طور پر ایک منصفانہ طریقے سے تقسیم نہیں کیا جاتا اس وقت تک مقامی لوگ کوئلے کے حوالے سے بننے والے تمام حکومتی منصوبوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے۔
تاہم نہری پانی اور آب پاشی کی بہتری پر کام کرنے والے وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اشفاق میمن کہتے ہیں کہ نئو کوٹ-اسلام کوٹ پائپ لائن کے ذریعے بجلی کے کارخانوں کو نہری پانی کی فراہمی ایک عارضی بندوبست ہے جو جلد ہی ختم کر دیا جائے گا کیونکہ، ان کے بقول، حکومتِ سندھ نے ایک ایسے منصوبے پر 80 فیصد کام مکمل کر لیا ہے جس کے ذریعے ضلع عمرکوٹ میں واقع مکھی فرش کے علاقے سے ایک نہر نکال کر مٹھی کے قریب نبی سر تک لائی جا رہی ہے جہاں سے اسے تحصیل اسلام کوٹ کے گاؤں ویجے ہار تک پہنچایا جائے گا تا کہ اس کے ذریعے بجلی کے کارخانوں کی آبی ضروریات پوری کی جا سکیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد نئو کوٹ۔اسلام کوٹ پائپ لائن کا پانی مِٹھی، اسلام کوٹ اور ان کے ارد گرد کے دیہات کے باشندوں کو ملنے لگے گا۔
تاہم مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا بلکہ نہر اور پائپ لائن دونوں کے ذریعے تھرپارکر میں لایا جانے والا تمام نہری پانی بجلی کے کارخانوں کی نذر ہی ہو جائے گا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کارخانے زیرِ زمین پانی کی سطح میں کمی کے بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ انہیں اس پانی کے استعمال کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
ان کے مطابق زیرِ زمین پانی کے اس بے دریغ استعمال سے مقامی آبی ذرائع قلیل سے قلیل تر ہوتے جا رہے ہیں جس کے باعث پچھلے پانچ سالوں میں کوئلے کی کانوں کے آس پاس واقع کئی دیہات میں موجود کنوؤں میں پانی یا تو مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے یا اس کی سطع پہلے کے مقابلے میں بہت نیچے چلی گئی ہے۔ یہ مسئلہ بھاوے جوتڑ، کھاریو غلام شاھ اور وروائی جیسے دیہات میں خاص طور پر شدید ہے۔
ایسے ہی ایک گاؤں وکڑیو کی نشاندہی ایک مقامی صحافی اور تحقیق کار نصیر کنبھار نے پچھلے سال تھرڈ پول نامی میگزین سے بات کرتے ہوئے کی تھی۔ ان کے مطابق اس گاؤں میں ایک نئے کھودے گئے 300 فٹ گہرے کنوئیں سے پانی کچھ عرصہ پہلے اچانک غائب ہوگیا جس کی وجہ سے 3000 کے لگ بھگ مقامی آبادی کو مہینوں اپنے روزمرہ کے استعمال کے پانی کے لیے جگہ جگہ خوار ہونا پڑا۔
اب اُن کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں مزید شدت اختیار کر لے گا۔ لہٰذا وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ "حکومت فوری طور پر تحقیق کرائے کہ تھرپارکر میں تیزی سے ختم ہوتے ہوئے زیرِ زمین پانی کے ذخیروں کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے"۔
تاریخ اشاعت 17 ستمبر 2021