تھرپارکر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار: 'ہماری زمینیں زبردستی لی جا رہی ہیں اور ہمارا رہن سہن بدلا جا رہا ہے'۔

postImg

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

تھرپارکر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار: 'ہماری زمینیں زبردستی لی جا رہی ہیں اور ہمارا رہن سہن بدلا جا رہا ہے'۔

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

عزیز ہالے پوتو کو چیک پوسٹوں اور خاردار تاروں میں گھرا اپنا گاؤں، تھاریو ہالے پوتو، ایک مقبوضہ علاقہ لگتا ہے۔

گاؤں کے دو اطراف میں ریت کے اونچے اونچے ٹیلے ہیں جبکہ اس کے جنوب میں خاردار تار کی باڑ لگی ہوئی ہے تا کہ مقامی باشندوں کو دوسری طرف واقع کوئلے کی کانوں سے دور رکھا جا سکے۔ چوتھی جانب ایک چیک پوسٹ ہے جس سے گزرنے والا راستہ کوئلے سے بجلی بنانے والے ایک کارخانے کو جاتا ہے۔

عزیز ہر روز دو مرتبہ اس چیک پوسٹ کو پار کرتے ہیں۔ ایک بار صبح جب وہ اپنے گاؤں سے کارخانے کے ساتھ واقع ایک ریستوران میں کام کرنے جاتے ہیں اور دوسری بار شام کو جب وہ گھر واپس آتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ جب بھی چیک پوسٹ سے گزرتے ہیں تو وہاں متعین رینجرز کے سپاہی ان کا شناختی کارڈ دیکھتے ہیں، ان کی شناختی معلومات ایک رجسٹر میں درج کرتے ہیں اور ان کی جامہ تلاشی لیتے ہیں۔ جب کبھی چیک پوسٹ پر سپاہیوں کا ایسا دستہ کام کر رہا ہو جو انہیں نہ جانتا ہو تو ان سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ وہ کون ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔

تھاریو ہالے پوتو صوبہ سندھ کے مشرقی ضلعے تھرپارکار کا حصہ ہے اور اسلام کوٹ نامی قصبے سے 20 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ اس کی آبادی پانچ سو 25 خاندانوں (تقریباً تین ہزار دو سو 70 افراد) پر مشتمل ہے جو ہالے پوتو، میگھواڑ، بھیل اور کولہی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر لوگ کاشت کاری کے ذریعے اور مال مویشی پال کر اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔

جواں سال عزیز سمجھتے ہیں کہ کوئلے کی کھدائی اور بجلی کی پیداوار سے منسلک صنعتی اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے گاؤں کے روایتی رہن سہن کو شدید خطرہ لاحق ہے چنانچہ اسے زندہ رکھنے کے لیے انہوں نے روایتی سندھی ٹوپی اور اجرک کو اپنے لباس کا لازمی حصہ بنا لیا ہے۔

تھرپارکر میں پائے جانے والے کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے کا عملی آغاز 2013 میں ہوا۔ اس کے پہلے مرحلے میں کوئلے کے ذخائر کو  13 مختلف بلاکوں میں تقسیم کیا گیا اگرچہ ابھی تک ان میں سے صرف دو، تھر کول فیلڈ بلاک 1 اور تھر کول فیلڈ بلاک 2، میں کام ہو رہا ہے۔

تھاریو ہالے پوتو بلاک 2 میں واقع ہے۔

عزیز کہتے ہیں کہ مئی 2013 میں صوبائی محکمہ مال کے اہل کاروں نے پہلی بار ان کے گاؤں کے باشندوں کو بتایا کہ حکومت ان کی زمین لے کر سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کو دینا چاہتی ہے تا کہ وہ اس پر کوئلے کی کھدائی اور بجلی کی پیداوار کا کام کر سکے۔ یہی اطلاع کئی قریبی دیہات میں بھی دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:

postImg

تھرپارکر میں پانی کی قلت: 'ہم کئی نسلوں سے چیخ رہے ہیں کہ ہمیں پانی چاہیے لیکن حکومت نے کبھی ہماری بات نہیں سنی'۔

لیکن تھاریو ہالے پوتو کے لوگ اپنی زمین چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ اس لیے یکم فروری 2014 کو جب اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بلاک 1 کا دورہ کیا تو اس گاؤں کے تقریباً چار سو مردوں، عورتوں اور بچوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے مقامی دفتر کو جانے والی سڑک ٹریفک کے لیے بند کر دی۔

بہر حال ان کا احتجاج بے سود ثابت ہوا اور کمپنی نے ضلعی انتظامیہ کی مدد سے تھاریو ہالے پوتو کی 25 سو ایکڑ زمین اپنے قبضے میں لے لی۔ اس میں سے صرف پانچ سو ایکڑ کے قریب زمین ایسی ہے جو گاؤں کے ایک سو 45 خاندانوں کی باقاعدہ ملکیت تھی۔ سرکاری دستاویزات میں اسے 'قبولی' یا 'سروے'  کی زمین کہا جاتا ہے۔ باقی ماندہ مقامی زمین میں سات سو ایکڑ ایسے ہیں جو ایک سو 35 خاندانوں نے حکومت سے ایک سالہ لیز پر لے رکھے تھے اور 12 سو ایکڑ  ایسے ہیں جنہیں پورا گاؤں اجتماعی چراگاہ کے طور پر استعمال کرتا تھا۔

عزیز کہتے ہیں کہ گاؤں کی تمام زمین لے لینے کے باوجود سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے ابھی تک صرف 80 ایسے خاندانوں کو ایک لاکھ 80 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے زرِ تلافی ادا کی ہے جن کے پاس قبولی زمین تھی۔ لیکن، ان کے مطابق، حکومت اور کمپنی نے گاؤں کے باقی لوگوں کے مالی مسائل حل کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا حالانکہ زمین لیے جانے کی وجہ سے وہ سب اپنا روزگار کھو بیٹھے ہیں۔

تاہم سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے 2018 سے ایک منصوبہ پیش کر رکھا ہے جس کا مقصد تھاریو ہالے پوتو کے رہائشیوں کو ایک نئی جگہ پر بسانا ہے۔ کمپنی کے مطابق اس کے تحت گاؤں کے تمام باشندوں کے لیے نئے مکانات تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں گی جن میں سکول، ہسپتال، قبرستان، مسجد، مندر، کھیل کے میدان، مارکیٹ، سڑکیں اور صاف پانی کی فراہمی کا پلانٹ شامل ہیں۔

گاؤں کے لوگ اس منصوبے کے بارے میں منقسم ہیں۔ان میں سے تقریباً آدھے اس کے حق میں ہیں جبکہ باقی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

منصوبے کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ بلاک 1 اور بلاک 2 کے عین درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ یہ نئی بستی ہمیشہ کوئلے کی کھدائی اور بجلی کی پیداوار کے باعث پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کی زد میں رہے گی۔

عزیز کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئلے کی کانوں کے آس پاس ہی کسی دوسری جگہ منتقل ہونے میں یہ بھی خطرہ ہے کہ کل کو بجلی بنانے کا کوئی اور منصوبہ شروع ہو جائے اور انہیں ایک بار پھر اپنا گھر بار چھوڑنا پڑے۔ اس لیے وہ اور تھاریو ہالے پوتو کے کئی دوسرے باشندے کہتے ہیں کہ اگر کمپنی نے انہیں کوئی متبادل جگہ دینی ہی ہے تو وہ اسلام کوٹ کے قریب ہونی چاہیے تا کہ ایک بڑے قصبے کے پاس رہنے سے انہیں اپنے حالاتِ زندگی بہتر بنانے کا موقع مِل سکے۔

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

سیہنری درس نامی گاؤں اب موجود نہیں رہا کیونکہ 12 سو ایکڑ قبولی اراضی، 35 سو ایکڑ ایک سالہ لیز والے رقبے اور 13 سو ایکڑ پر پھیلی ہوئی چراگاہ پر مشتمل اس کی تمام رہائشی اور زرعی زمین سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے استعمال میں آ چکی ہے۔

بلاک 2 کی حدود میں واقع اس گاؤں کے تمام باشندوں کو دسمبر 2018 میں تھاریو ہا لے پوتو کے مغرب میں تعمیر کیے گئے ایک 'ماڈل ولیج' میں منتقل کر دیا گیا جسے نیو سیہنری درس کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں درس، بھیل اور کولہی برادری سے تعلق رکھنے والے تین سو 20 خاندان (دو ہزار افراد) رہائش پذیر ہیں۔ ان کے پختہ اینٹوں اور سیمنٹ سے بنے ہوئے گھروں میں تین کمرے، باورچی خانہ، صحن، چورہ (تھر کی روایتی جھونپڑی) اور غسل خانہ موجود ہیں۔

لیکن یہاں کے باسی خوش نہیں کیونکہ نہ تو وہ اِن گھروں کے قانونی مالک ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی زمین ہے جس پر وہ کاشت کاری کر سکیں۔ اگرچہ انہیں مویشیوں کی چراگاہ کے طور پر کچھ زمین دی گئی ہے لیکن تھاریو ہالے پوتو کے لوگ کئی دہائیوں سے اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے یہی زمین استعمال کر رہے ہیں۔ نتیجتاً دونوں دیہات میں رہنے والے لوگوں کے درمیان اس کے استعمال پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

عزیز کہتے ہیں کہ 2020 کے موسمِ گرما میں تھاریو ہالے پوتو کے لوگوں نے ماضی کی طرح اس زمین میں باجرے، جوار اور مُوٹھ کی فصلیں کاشت کر دیں لیکن جب نیو سیہنری درس کے رہائشیوں کو اس کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اپنے مویشی ان فصلوں میں چرنے کے لیے چھوڑ دیے جنہیں روکنے کے لیے تھاریو ہالے پوتو کے چند نوجوان اس زمین پر پہرا دینے لگے۔

عزیز کا دعویٰ ہے کہ 12 اگست 2020 کی صبح چھ بجے یہ نوجوان پہرہ دے رہے تھے جب پولیس نے اچانک ان پر دھاوا بول دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس والے 10 کے قریب گاڑیوں میں سوار تھے اور ان کے ہمراہ بلڈوزر بھی تھے۔ پہرہ دینے والے نوجوانوں نے ایک گھنٹہ ان کا راستہ روکے رکھا لیکن بالآخر ان کی فصلیں تباہ کر دی گئیں اور ان میں سے سات افراد کو گرفتار کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

تاہم سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی کے ترجمان محسن ببر چراگاہ کے استعمال پر اختلاف کو ایک 'مقامی' تنازعہ کہتے ہیں اور اپنی کمپنی کو اس معاملے میں مکمل طور پر بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ حراست میں لیے گئے نوجوانوں کو غنڈہ گرد عناصر کہتے ہیں اور ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہیں تھرپارکر کی ترقی پسند نہیں۔

کئی گاؤں تھے زیرِ آسماں

بلاک 1 اسلام کوٹ سے 13 کلو میٹر مشرق کی جانب ننگر پارکر جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ اس کی جنوبی دیوار کے ساتھ بنائی گئی پتھریلی سڑک کے ایک سرے پر تل وایو نامی گاؤں موجود ہے جس میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک پرائمری سکول نظر آتا ہے جس کی عمارت ایک چھوٹے سے کمرے، برآمدے اور چند درختوں پر مشتمل ہے۔

سکول کے صحن میں ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے 40 سالہ قربان علی تل وایو کے ان چند افراد میں سے ہیں جنہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بلاک 1 میں کوئلے کی کھدائی اور بجلی کی پیداوار کے لیے کام کرنے والی سائنو سندھ ریسورسسز کمپنی نے مقامی لوگوں کو باقاعدہ آگاہ کیے بغیر اپریل 2018 میں ان کے علاقے میں حصولِ اراضی کا عمل شروع کیا جس کے خلاف اپریل 2019 میں اسلام کوٹ میں پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ دھرنے کے شرکا کا مرکزی مطالبہ تھا کہ ان کی زمین حاصل کرنے سے پہلے ان سے مشاورت کی جائے۔ انہوں نے اپنی ملکیتی زمین محدود مدت کے لیے لیز پر دینے کی پیش کش بھی کی لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہ موصول ہوا۔

تاہم اس احتجاج کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے سائنو سندھ ریسورسسز کمپنی اب تک قربان علی کے گاؤں کی آٹھ سو ایکڑ کے قریب زمین اپنے قبضے میں لے چکی ہے جس میں ان کے اپنے زیرِ استعمال 10 ایکڑ زمین بھی شامل ہے۔
تل وایو کی طرح اس کے قریبی دیہات ویراواہ اور کھاریو غلام شاہ میں بھی مقامی لوگوں کی مرضی کے بغیر ہی کمپنی ان کی زمین لے رہی ہے۔

ان تینوں دیہات کی کل آبادی 13 ہزار چار سو 50 افراد پر مشتمل ہے جبکہ ان کے مجموعی رقبے میں سے تین ہزار آٹھ سو ایکڑ قبولی زمین تین سو 90 خاندانوں کی ملکیت ہے اور سات ہزار تین سو ایکڑ زمین چار سو خاندانوں نے حکومت سے ایک سالہ لیز پر لے رکھی ہے۔ اسی طرح دو ہزار ایکڑ پر مشتمل چراگاہ ان تینوں دیہات میں رہنے والے تمام دو ہزار 40 خاندان مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ان دیہات میں رہنے والے تقریباً ایک ہزار دو سو 70 خاندانوں کے پاس کبھی کوئی زمین تھی ہی نہیں لیکن دو سو مقامی خاندان ایسے بھی ہیں جو سائنو سندھ ریسورسسز کمپنی کی طرف سے حصولِ اراضی کے نتیجے میں بے زمین ہو گئے ہیں کیونکہ یا تو انہوں نے سرکاری زمین ایک سالہ لیز پر لے رکھی تھی یا وہ اپنے گاؤں کی مشترکہ اراضی پر کاشت کاری کر رہے تھے۔

لیکن قربان علی کہتے ہیں کہ ان دیہات میں صرف دو سو 40 خاندانوں کو دو لاکھ 50 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے قبولی زمین کی زرِ تلافی دی گئی ہے۔ انہیں خود بھی ان کی زمین کے بدلے میں ایک پیسہ نہیں ملا حالانکہ ان کے پاس موجود کاغذات کے مطابق تھرپارکر کی ریونیو عدالت نے جون 2020 میں انہیں اس زمین کا باقاعدہ مالک قرار دیا ہے۔

 

ان دیہات میں حصولِ زمین اور اس کی قیمت کے تعین اور ادائیگی کے سلسلے میں پائی جانے والی شکایات اتنی زیادہ اور اتنی شدید ہیں کہ ان کی شنوائی اور ازالے کے لیے صوبہ سندھ کی حکومت کو 9 ستمبر 2020 کو ڈسٹرکٹ کمشنر تھرپارکر محمد نواز کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کرنا پڑی۔

اب تک اس کمیٹی کے پاس تقریباً تین سو 52 شکایات درج کرائی گئی ہیں۔ لیکن مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ ان میں سے بہت سی شکایات رد کر دی جائیں گی کیونکہ کمیٹی نے انہیں قبول کرنے کے لیے ایسے دستاویزی ثبوت طلب کیے ہیں جو زیادہ تر کاشت کاروں کے پاس ہیں ہی نہیں۔ ان میں ان کی شادیوں کی رجسٹریشن کے سرٹیفکیٹ سے لے کر بجلی کے بل اور ووٹر لسٹوں میں ان کے ناموں کی موجودگی کی تصدیق تک شامل ہے۔

محمد نواز ان شرائط کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "جب تک کمیٹی کے پاس بنیادی دستاویزی ثبوت نہیں ہوں گے تب تک وہ کیسے تعین کر سکتی ہے کہ کون سی زمین کا مالک کون ہے؟"

لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی تک تھرپارکر کی ضلعی انتظامیہ کے پاس کوئلے کے منصوبوں سے متاثر ہونے والے مقامی لوگوں کی آباد کاری اور ان کی زمینوں کی قیمتوں کے تعین کے بارے میں کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے۔

دوسری طرف سندھ کی صوبائی حکومت کافی عرصے سے کہہ رہی ہے کہ ایسی پالیسی بنائی جا رہی ہے اگرچہ تھرپارکر میں زمینوں کے حصول کے عمل کو شروع ہوئے کئی برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک اسے حتمی شکل دے کر لاگو نہیں کیا جا سکا۔

تاریخ اشاعت 2 اکتوبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

زاہد علی ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور متعلقہ موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارسی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا (ترمیمی) آرڈیننس 2024 اور اس کے اثرات: نور کاتیار

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.