شرجیل احمد پڑھ لکھ کر اچھی نوکری حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے اور مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے وقت دینے کے ساتھ پڑھائی میں بھی محنت کی اور مقامی ہائر سیکنڈری سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔
لیکن جب انہوں ںے گیارہویں جماعت میں داخلہ لینا چاہا تو انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ سکول میں انٹرمیڈیٹ کے مضامین پڑھانے والا کوئی استاد نہیں ہے اسی لیے یہاں داخلے بند کر دیے گئے ہیں۔
چونکہ ان کے علاقے میں اعلیٰ تعلیم کا کوئی اور ادارہ موجودہ نہیں ہے اس لیے مجبوراً انہیں پڑھائی چھوڑنا پڑی اور اب وہ اپنے گاؤں میں زرعی ادویات کی دکان پر کام کرتے ہیں۔
شرجیل احمد ضلع اٹک کے گاؤں دورداد میں رہتے ہیں جو شہر سے 23 کلومیٹر دور ہے۔ اس علاقے میں ہائر سیکنڈری سکول 2005ء سے قائم ہے جہاں 16 سبجیکٹ سپیشلسٹ اساتذہ کی اسامیاں ہیں لیکن پچھلے 17 سال سے سکول میں کبھی اساتذہ کی تعداد پوری نہیں رہی۔
اس کے باوجود 2022ء تک یہاں گیارہویں اور بارہویں جماعت کی کلاسیں چلتی رہی تھیں۔
گزشتہ برس جب یہاں سے آخری سبجیکٹ سپیشلسٹ استاد اپنا تبادلہ کرا کے چلا گیا تو انٹرمیڈیٹ کے داخلے بند کر دیے گئے۔
شرجیل بتاتے ہیں کہ 2021ء میں ان سمیت گاؤں کے اس سکول میں پڑھنے والے تقریباً سو لڑکوں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا جن میں سے قریباً 70 نے کامیابی حاصل کی لیکن اب ان کی اکثریت پڑھائی چھوڑ چکی ہے۔
"جن طلبہ کے والدین کے معاشی حالات اچھے تھے صرف وہی اٹک جا کر انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لے سکے ہیں"۔
شرجیل کے بڑے بھائی عقیل احمد نے اسی ہائر سیکنڈری سکول سے ایف ایس سی پاس کی تھی لیکن گھر کے معاشی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے وہ مزید نہ پڑھ سکے۔ شرجیل کا چھوٹا بھائی جلیل احمد اسی سکول میں میٹرک کا طالب علم ہے لیکن انہیں اس کا تعلیمی مستقبل بھی کچھ روشن دکھائی نہیں دیتا۔
شرجیل احمد کے والد خلیل احمد کے بقول اس سکول میں ہائر سکینڈری کا شعبہ بند ہونے سے دورداد اور اس کے قریب ایک درجنوں دیہات کا تعلیمی نقصان ہوا ہے جن کی آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔
دورداد ہائر سیکنڈری سکول اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اٹک سمیت تحصیل حسن ابدال اور فتح جنگ کے کئی دیہات سے اس کا فاصلہ ان کے تحصیل ہیڈ کوارٹر سے کم ہے۔
محکمہ تعلیم کے ضلعی دفتر کے مطابق ضلع اٹک میں کُل 22 ہائر سیکنڈری سکول ہیں جن میں سے 10 لڑکیوں اور 12 لڑکوں کے ہیں۔
لڑکوں کے سکولوں میں انٹرمیڈیٹ کے 184 سبجیکٹ سپیشلسٹ اساتذہ کی اسامیوں میں سے 135 اسامیاں خالی پڑی ہیں جبکہ لڑکیوں کے سکولوں میں 160 میں سے 120 اسامیوں پر تقرری نہیں ہوئی۔
تقریباً 22 لاکھ آبادی کے ضلع اٹک میں چار ہائر سیکنڈری سکول ایسے ہیں جہاں انٹرمیڈیٹ جماعتوں کو پڑھانے والا کوئی بھی استاد نہیں ہے۔ان میں دورداد کے علاوہ کوٹ فتح خان کا بوائز سکول اور چھب اور شادی خان قصبوں میں خواتین کے سکول شامل ہیں۔
قصبہ ملال میں قائم بوائز ہائر سکینڈری میں ایک سبجیکٹ سپیشلسٹ استاد رہ گیا ہے جہاں صرف دو طلبہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اس سکول میں نویں اور دسویں جماعت کو پڑھانے والے استاد محمد زبیر کہتے ہیں کہ سبجیکٹ سپیشلسٹ اساتذہ کی کمی کی وجہ سے سکول انتظامیہ رواں سیشن میں گیارہویں جماعت کے داخلے بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔
اسی طرح کُھنڈا قصبے کے بوائز ہائر سیکنڈری سکول میں بھی انٹرمیڈیٹ کی جماعتوں کے لیے صرف ایک ہی استاد تعینات ہے۔
اٹک میں لڑکیوں کے بیشتر ہائر سیکنڈری سکولوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اٹک، کامرہ کینٹ اور حسن ابدال شہر کے علاوہ تمام علاقوں کے سکولوں میں انٹرمیڈیٹ کے اساتذہ مطلوبہ تعداد کے نصف سے بھی کم ہیں۔
ملہو اور بسال نامی قصبوں کے گرلز ہائر سیکنڈری سکول میں ایک ایک سبجیکٹ سپیشلسٹ تعینات ہے۔اسی طرح ملہووالی اور کوٹ فتح خان کے گرلز ہائر سکینڈری سکولوں میں تین تین اساتذہ ہیں جبکہ ان چاروں سکولوں میں انٹرمیڈیٹ کے سبجیکٹ سپیشلسٹ کی سولہ سولہ اسامیاں رکھی گئی ہیں۔
ضلعی محکمہ تعلیم کے ایک سینئر عہدیدار (جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے)کے مطابق ضلعے کے تمام ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولوں کی تعداد 262 ہے جن میں سے 197 میں مستقبل بنیادوں پر پرنسپل ہی تعینات نہیں کیے جا سکے۔
وہ بتاتے ہیں کہ تین سال پہلے یہاں کے 39 مڈل سکولوں کو اپ گریڈ کرکے ہائی کا درجہ تو دے دیا گیا ہے لیکن اب تک یہاں کوالیفائیڈ اساتذہ تعینات نہیں کیے گئے اور مڈل کے اساتذہ ہی نویں اور دسویں جماعتوں کو پڑھا رہے ہیں۔
استاد کہاں گئے؟
گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول دورداد کے پرنسپل ممتاز حسین کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم نے نہ تو گزشتہ سال سے نئی بھرتیاں کی ہیں اور نہ ہی موجودہ اساتذہ کو ترقی ملی ہے جبکہ اس عرصہ میں بہت سے اساتذہ ریٹائر بھی ہو گئے ہیں۔
لیکن ان کے خیال میں محکمہ تعلیم کی طرف سے اساتذہ کو آن لائن ٹرانسفر کی سہولت فراہم کرنا اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس سہولت کے ذریعے بہت سے اساتذہ نے دور دراز دیہات سے شہروں کے سکولوں میں تبادلہ کروا لیا ہے۔ یہ ایک خودکار نظام ہے جو اساتذہ کا تبادلہ ان کے من پسند سکول میں سیٹ خالی ہونے کی بنیاد پر کر دیتا ہے۔
"اگر کسی سکول میں صرف ایک ہی سیکنڈری سکول ٹیچر ہو تو اس کو تبادلے کے لیے اسی سکول میں کسی دوسرے ٹیچر کی ضرورت ہوگی جو اس کی جگہ تعینات ہو سکے جبکہ سبجیکٹ سپیشلسٹ کسی سکول میں اکلوتا ہونے کے باوجود بھی اپنا تبادلہ باآسانی کرا سکتا ہے"۔
اس سے پہلے اساتذہ کے تبادلوں میں محکمے کے افسروں کا اہم کردار ہوتا تھا۔ چونکہ ضلع بھر کے سکول انہی کے زیر کنٹرول ہوتے ہیں اس لیے انہیں تمام سکولوں میں اساتذہ کی تعداد پر نظر رکھنا پڑتی تھی۔ اس لیے وہ ضرورت کو مدنظر رکھ کر ہی تبادلوں کی منظوری دیتے تھے۔
ممتاز حسین اٹک شہر میں رہتے ہیں اور روزانہ 23 کلومیٹر سفر طے کرکے دورداد آتے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں نہ تو سڑکیں ٹھیک ہیں اور نہ ہی کوئی مناسب پبلک ٹرانسپورٹ میسر آتی ہے۔ اسی لیے انہیں روزانہ سکول کھلنے سے ڈھائی گھنٹے پہلے گھر سے روانہ ہونا پڑتا ہے اور واپسی پر شام ڈھل جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر کا گرلز کالج: یہاں صرف فزکس، زوآلوجی، انگریزی، ریاضی، اردو، اسلامیات، سندھی اور مطالعہ پاکستان کے استاد نہیں ہیں
ممتاز حسین کے مطابق اسی وجہ سے اساتذہ ایسے علاقوں میں پڑھانے سے گریز کرتے ہیں اور انہی مسائل کی وجہ سے یہاں کے طلبہ کے لیے روزانہ شہر جا کر پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اگر اساتذہ کی مزید بھرتیاں نہ ہوئیں، پرانے اساتذہ کو ترقیاں نہ دیں گئیں تو حالات بہت ہی زیاہ بدتر ہوجائیں گے کیونکہ اگلے تین سے چار سال میں پچاس فیصد اساتذہ نے ریٹائر ہو جانا ہے۔
صوبائی محکمہ تعلیم کی ویب سائٹ 'سکول انفارمیشن سسٹم' کے مطابق 2020ء میں اٹک میں نویں اور دسویں جماعتوں میں کُل 35 ہزار 951 طلبہ زیر تعلیم تھے جبکہ اس سال ہائر سیکنڈری سکولوں میں انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کی تعداد تین ہزار 280 تھی۔
اس طرح یہاں میٹرک میں داخلہ لینے والے صرف نو فیصد طلباء ہی انٹرمیڈیٹ درجے میں تعلیم جاری رکھ پائے، 64.1 فیصد شرح تعلیم کے ساتھ خواندگی کے اعتبار سے پنجاب کے نمایاں اضلاع میں شمار ہونے والے ضلع اٹک میں میٹرک کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دینے والے طلبہ کی شرح راجن پور، بہاولنگر، ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ جیسے نسبتاً پسماندہ سمجھے جانے والے اضلاع سے بھی زیادہ ہے۔
اس سٹوری میں لاہور سے ہمارے رپورٹر آصف ریاض نے بھی مدد فراہم کی
تاریخ اشاعت 27 جولائی 2023