'میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں'، بلوچستان میں 16 سال میں 41 صحافی نامعلوم ہاتھوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے

postImg

محمد غضنفر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں'، بلوچستان میں 16 سال میں 41 صحافی نامعلوم ہاتھوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے

محمد غضنفر

loop

انگریزی میں پڑھیں

بلوچستان کے وسطی ضلع خضدارکے رہائشی عبدالرزاق کے لیے 29 ستمبر2012ء کا دن قیامت سے کم نہیں تھا۔ انہیں اطلاع ملی کہ ان کے بھائی عبدالحق بلوچ کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا ہے اور لاش سول ہسپتال میں پڑی ہے۔

عبدالرزاق بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی دس سال سے صحافت میں تھے اور اس وقت ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ کام کررہے تھے۔

"ایک کالعدم تنظیم کی طرف سے جاری بیان میں عبدالحق بلوچ پر علیحدگی پسندوں سے روابط کا الزام عائد کیا گیا اور انہیں دھمکی دی گئی تھی ۔تاہم بعد ازاں اسی تنظیم نے وضاحت جاری کی کہ عبدالحق کا نام غلطی سے آیا تھا۔"

وہ کہتے ہیں کہ چھ ماہ بعد عبدالحق کو چند موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ شام سات بجے چاکرخان روڈ پر پیش آیا تھا۔

قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوا تاہم اپنی جان کے خوف سے انہوں ںے نہ تو مقدمے کی پیروی کی اور نہ ہی پولیس نے ان سے رابطہ کیا۔

عبدالحق بلوچ جب قتل ہوئے تو ان کے بیٹے کی عمر چار اور بیٹی کی دو سال تھی۔ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ان کے لواحقین کے لیے 10 لاکھ روپے اور بیٹے کوملازمت دینے کا اعلان کیا تھا۔ انہیں رقم تو مل گئی لیکن ملازمت کا وعدہ وفا نہ ہوا۔

عبدالرزاق نے بتایا کہ اس وقت عبدالحق بلوچ کے ٹی وی چینل نے ان کی بیوہ کے لیے نو ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جو انہیں آج تک مل رہا ہے۔ عبدالرزاق اپنے بھائی کے قتل کے بعد نہ صرف خود صحافت میں آئے بلکہ اپنی بیٹی کو بھی اسی پیشے میں لے آئے۔

خضدار اور تربت کا شمار صوبے کے شورش زدہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں خضدار میں سات صحافیوں اور ایک سینئیر صحافی کے دو جوان بیٹوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ تربت میں چھ صحافیوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں جانیں گنوائیں۔

خضدار میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ مسلسل دھمکیوں کے بعد بہت سے صحافی علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے اور پریس کلب کو تالا پڑ چکا تھا۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے مطابق گزشتہ 16 سال میں صحافتی اداروں سے وابستہ بلوچستان کے 41 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ان میں 30 صحافیوں اور ان کے رشتے داروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی جبکہ گیارہ  بم دھماکوں میں شہید ہوئے ہیں۔

عبدالرازاق کہتے ہیں کہ بھائی کے قتل کے بعد بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے کبھی ان ان سے رابطہ نہیں کیا۔ یہاں صحافی بہت مشکل حالات میں کام کرتے ہیں اور ان میں اخبارات اور ٹی وی چینل کے ضلعی نمائندوں کو عام طور پر تنخواہ نہیں دی جاتی اور صرف پریس کارڈ اور مائیک دے کر رپورٹنگ کرنے کو کہا جاتا ہے۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ نے بتایا کہ یونین شہید صحافیوں کے لواحقین کی ہر طرح سے قانونی مدد کرتی ہے اور ان کی بیوہ اور بچوں کیلئے ملازمت کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

کوئٹہ پریس کلب نے چھ سال قبل 'شہداء ویلفیئر ٹرسٹ' قائم کیا تھا۔اس ٹرسٹ سے شہدا کے پسماندگان کوعید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر کچھ مالی مدد کی جاتی ہے۔ تاہم یہ صرف کوئٹہ کے شہداء تک محدود ہے۔

محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر نور کھیتران کہتے ہیں کہ دہشتگردی کے واقعات میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے لیے حکومت نے امدادی رقم مقرر کر رکھی ہے۔ شہید صحافیوں کے لیے بھی وہی طریقہ کار ہوتا ہے۔

بلوچستان میں صحافیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی وجوہات بتاتے ہوئے منظور بلوچ کا کہنا ہے کہ جب حالات خراب ہوئے تو بلوچستان کے صحافیوں کو شورش زدہ ماحول میں رپورٹنگ کی تربیت نہیں تھی۔ ایسے میں وہ بعض معاملات کی حساسیت کا خیال نہیں رکھ پائے اور خود خبر بن گئے۔

 وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے بلوچستان کے کسی صحافی کے قاتل گرفتار ہوئے اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے۔ صحافی ارشاد مستوئی کے قتل کا ملزم پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ عبدالواحد رئیسانی کے قتل کا ملزم بری ہو گیا جبکہ دیگر صحافیوں کو کس نے مارا یا کیوں مارا؟ آج تک اس حوالے سے مستند حقائق سامنے نہیں آ سکے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

طالبان کے عہد میں افغان صحافت: مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں۔

خضدار کے صحافی عبدالجبار بلوچ کے بقول شہر میں صحافیوں کے لیے حالات اب بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ بہت سے صحافیوں کی یا تو کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہوتی ہے یا وہ صحافت کے ساتھ سرکاری نوکری بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعت سے وابستگی اور اس طرح جانبدارانہ صحافت ان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔

ان کا کہنا ہےکہ صحافی جب تک سیاسی جماعتوں اور سرکاری عہدوں سے الگ نہیں ہوں گے اس وقت تک بلوچستان میں صحافت آسان نہیں ہوگی۔

صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو کہتے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ دوممالک کی طویل سرحدیں لگتی ہیں۔ یہاں کئی ممالک کے مفادات ہیں جن کے آلہ کار امن خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور صحافی بھی اسی دہشتگردی سے متاثر ہوئے ہیں۔

تاریخ اشاعت 26 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد غضنفر گزشتہ 12 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، وہ کئی معروف صحافتی اداروں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.