بلوچستان کے وسطی ضلع خضدارکے رہائشی عبدالرزاق کے لیے 29 ستمبر2012ء کا دن قیامت سے کم نہیں تھا۔ انہیں اطلاع ملی کہ ان کے بھائی عبدالحق بلوچ کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا ہے اور لاش سول ہسپتال میں پڑی ہے۔
عبدالرزاق بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی دس سال سے صحافت میں تھے اور اس وقت ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ کام کررہے تھے۔
"ایک کالعدم تنظیم کی طرف سے جاری بیان میں عبدالحق بلوچ پر علیحدگی پسندوں سے روابط کا الزام عائد کیا گیا اور انہیں دھمکی دی گئی تھی ۔تاہم بعد ازاں اسی تنظیم نے وضاحت جاری کی کہ عبدالحق کا نام غلطی سے آیا تھا۔"
وہ کہتے ہیں کہ چھ ماہ بعد عبدالحق کو چند موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ شام سات بجے چاکرخان روڈ پر پیش آیا تھا۔
قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوا تاہم اپنی جان کے خوف سے انہوں ںے نہ تو مقدمے کی پیروی کی اور نہ ہی پولیس نے ان سے رابطہ کیا۔
عبدالحق بلوچ جب قتل ہوئے تو ان کے بیٹے کی عمر چار اور بیٹی کی دو سال تھی۔ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ان کے لواحقین کے لیے 10 لاکھ روپے اور بیٹے کوملازمت دینے کا اعلان کیا تھا۔ انہیں رقم تو مل گئی لیکن ملازمت کا وعدہ وفا نہ ہوا۔
عبدالرزاق نے بتایا کہ اس وقت عبدالحق بلوچ کے ٹی وی چینل نے ان کی بیوہ کے لیے نو ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جو انہیں آج تک مل رہا ہے۔ عبدالرزاق اپنے بھائی کے قتل کے بعد نہ صرف خود صحافت میں آئے بلکہ اپنی بیٹی کو بھی اسی پیشے میں لے آئے۔
خضدار اور تربت کا شمار صوبے کے شورش زدہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں خضدار میں سات صحافیوں اور ایک سینئیر صحافی کے دو جوان بیٹوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ تربت میں چھ صحافیوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں جانیں گنوائیں۔
خضدار میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ مسلسل دھمکیوں کے بعد بہت سے صحافی علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے اور پریس کلب کو تالا پڑ چکا تھا۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے مطابق گزشتہ 16 سال میں صحافتی اداروں سے وابستہ بلوچستان کے 41 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ان میں 30 صحافیوں اور ان کے رشتے داروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی جبکہ گیارہ بم دھماکوں میں شہید ہوئے ہیں۔
عبدالرازاق کہتے ہیں کہ بھائی کے قتل کے بعد بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے کبھی ان ان سے رابطہ نہیں کیا۔ یہاں صحافی بہت مشکل حالات میں کام کرتے ہیں اور ان میں اخبارات اور ٹی وی چینل کے ضلعی نمائندوں کو عام طور پر تنخواہ نہیں دی جاتی اور صرف پریس کارڈ اور مائیک دے کر رپورٹنگ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ نے بتایا کہ یونین شہید صحافیوں کے لواحقین کی ہر طرح سے قانونی مدد کرتی ہے اور ان کی بیوہ اور بچوں کیلئے ملازمت کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
کوئٹہ پریس کلب نے چھ سال قبل 'شہداء ویلفیئر ٹرسٹ' قائم کیا تھا۔اس ٹرسٹ سے شہدا کے پسماندگان کوعید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر کچھ مالی مدد کی جاتی ہے۔ تاہم یہ صرف کوئٹہ کے شہداء تک محدود ہے۔
محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر نور کھیتران کہتے ہیں کہ دہشتگردی کے واقعات میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے لیے حکومت نے امدادی رقم مقرر کر رکھی ہے۔ شہید صحافیوں کے لیے بھی وہی طریقہ کار ہوتا ہے۔
بلوچستان میں صحافیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی وجوہات بتاتے ہوئے منظور بلوچ کا کہنا ہے کہ جب حالات خراب ہوئے تو بلوچستان کے صحافیوں کو شورش زدہ ماحول میں رپورٹنگ کی تربیت نہیں تھی۔ ایسے میں وہ بعض معاملات کی حساسیت کا خیال نہیں رکھ پائے اور خود خبر بن گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے بلوچستان کے کسی صحافی کے قاتل گرفتار ہوئے اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے۔ صحافی ارشاد مستوئی کے قتل کا ملزم پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ عبدالواحد رئیسانی کے قتل کا ملزم بری ہو گیا جبکہ دیگر صحافیوں کو کس نے مارا یا کیوں مارا؟ آج تک اس حوالے سے مستند حقائق سامنے نہیں آ سکے۔
یہ بھی پڑھیں
طالبان کے عہد میں افغان صحافت: مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں۔
خضدار کے صحافی عبدالجبار بلوچ کے بقول شہر میں صحافیوں کے لیے حالات اب بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ بہت سے صحافیوں کی یا تو کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہوتی ہے یا وہ صحافت کے ساتھ سرکاری نوکری بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعت سے وابستگی اور اس طرح جانبدارانہ صحافت ان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
ان کا کہنا ہےکہ صحافی جب تک سیاسی جماعتوں اور سرکاری عہدوں سے الگ نہیں ہوں گے اس وقت تک بلوچستان میں صحافت آسان نہیں ہوگی۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو کہتے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ دوممالک کی طویل سرحدیں لگتی ہیں۔ یہاں کئی ممالک کے مفادات ہیں جن کے آلہ کار امن خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور صحافی بھی اسی دہشتگردی سے متاثر ہوئے ہیں۔
تاریخ اشاعت 26 جولائی 2023