ٹمن مسلم لیگ ن کے بعد الیکشن سے بھی آؤٹ، تلہ گنگ کی 'سرداری' کس کو ملے گی؟

postImg

فیصل شہزاد

postImg

ٹمن مسلم لیگ ن کے بعد الیکشن سے بھی آؤٹ، تلہ گنگ کی 'سرداری' کس کو ملے گی؟

فیصل شہزاد

ضلع تلہ گنگ میں آٹھ فروری کو ایک قومی اور دو صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ تلہ گنگ کو سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے دور میں 14 اکتوبر 2022ء کو چکوال سے الگ کر کے ضلع بنایا گیا تھا۔

اس ضلعے کی کل آبادی چھ لاکھ دو ہزار 246 نفوس پر مشتمل ہے جہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چار لاکھ 29 ہزار 933 ہے جن میں دو لاکھ 19 ہزار 172 مرد اور دو لاکھ 10 ہزار 761 خاتون ووٹرز ہیں۔

تلہ گنگ کی آبادی کم ہونے کے باعث اس کے ساتھ ضلع چکوال کے کچھ علاقوں کو ملاکر قومی حلقہ این اے 59 تلہ گنگ کم چکوال بنایا گیا ہے۔

تلہ گنگ کے اس قومی حلقے پر 2018ء مسلم لیگ ق کے چودھری پرویز الٰہی نے ن لیگ کے محمد فیض ٹمن کو بھاری اکثریت سے ہرایا تھا۔ تاہم پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کی نشست برقرار  رکھی تھی جبکہ یہ قومی نشست چھوڑ دی تھی۔ بعد ازاں ضمنی انتخابات میں یہاں سے چودھری سالک حسین کامیاب ہو گئے تھے۔

 اب کی بار نشست سے تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ محمد رومان احمد آزاد، مسلم لیگ ن کے سردار غلام عباس، تحریکِ لبیک کے محمد یعقوب نقشبندی اور پیپلز پارٹی کے حسن سردار امیدوار ہیں۔

سردار فیض ٹمن اور منصور حیات ٹمن نے بھی قومی اور صوبائی نشستوں پر کاغذات جمع کرائے تھے مگر وہ تینوں حلقوں سے تحریکِ انصاف کے حق میں دستبردار ہو چکے ہیں۔


تلہ گنگ کی نئی حلقہ بندیاں 2023

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این  اے 65 چکوال 2 اب این اے 59 تلہ گنگ کم چکوال ہے
تلہ گنگ جو پہلے چکوال کی تحصیل تھی، اب اس کو ضلع بنا دیا گیا ہے۔ اسی لیے اس حلقے کا نام  بھی تبدیل کرکے چکوال دو سے تلہ گنگ کم چکوال کر دیا گیا ہے۔ اس حلقے میں تحصیل لاوہ سمیت ضلع تلہ کنگ کی مکمل آبادی شامل ہے۔ اس کے علاوہ چکوال تحصیل کے مرید اور مینگن پٹوار سرکل کو چھوڑ کر پور بلکسر قانون گو حلقہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح کلر کہار مونسپل کمیٹی اور تحصیل کلر کہار کے کچھ قصبے اور دیہات بھی اس کا حصہ ہیں۔ اس حلقے کی جغرافیائی حدود میں کوئی تبدیلی نہیں گئی ہے ۔ یعنی جو علاقے 2018 کے انتخابات کے وقت اس میں شامل تھے 2024 کے الیکشن میں بھی وہی رہیں گے۔

2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی پی 23 چکوال 3 اب پی پی 22 چکوال کم تلہ گنگ ہے
یہ تلہ گنگ اور کلرکہار کا مشترکہ صوبائی حلقہ ہے جس میں تحصیل چکوال کے کچھ دیہات بھی شامل ہیں۔ تلہ گنگ کو ضلعی درجہ ملنے کے بعد نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے کا نام چکوال کم تلہ گنگ کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ اس حلقے میں تحصیل چکوال کے قصبے نیلا قانون گو اور بلکسر قصبے کے پٹوار سرکل مرید اور مینگن  کو شامل کیا گیا ہے۔ چکوال تحصیل کے قصبات ڈھڈیال اور بوچھال کلاں قانون گو نکال دیے گئے ہیں۔

2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی پی 24 چکوال 4 اب پی پی 23 تلہ گنگ ہے
یہ تلہ گنگ ضلع تحصیل لاوہ کا حلقہ ہے۔ اس حلقے میں تلہ گنگ تحصیل کے پانچ پٹوار سرکل بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے کی حدود میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔


اس ضلعے میں ٹمن خاندان اور سردار خاندان کے دو بڑے سیاسی دھڑے ہیں جبکہ اعوان، تریڑ، ارائیں، بلوچ اور قصاب بڑی برادریاں ہیں۔ ان کے علاوہ تلہ گنگ میں چکی شیخ جی کا پیر گھرانہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔

تحصیل لاوہ کے سیاسی کارکن احتشام محمد عثمان بتاتے ہیں کہ اس حلقے میں گجرات  کے چودھریوں خاص طور پر پرویز الٰہی کا بہت اثر ہے۔ اس لیے اب یہاں سے پرویز الہی اور سابق ایم پی اے حافظ عمار یاسر نے تحریک انصاف سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھےلیکن دونوں لیڈران کے کاغذات مسترد ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کے میدان سے آؤٹ ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے حافظ عمار یاسر کے قریبی رشتہ دار محمد رومان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا جو ابتداء میں کورنگ امیدوار تھے۔

سیاسی کارکن جمیل احمد بتاتے ہیں کہ تلہ گنگ کے ٹمن سردار اس بار مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے خواہش مند تھے لیکن ن لیگ نے سردار غلام عباس کو امیدوار نامزد کر دیا جن کا ضلع چکوال میں زیادہ ذاتی ووٹ بینک ہے۔ جس کی وجہ سے ٹمن سردار نے ان کی حمایت سے انکار کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ سردار غلام عباس کا ٹمن سرداروں کی حمایت کے بغیر تلہ گنگ سے الیکشن جیتنا مشکل ہو گا۔ تاہم اس حلقے میں غلام عباس کو ذاتی ووٹ بنک کے علاوہ تریڑ برادری اور چکی شیخ جی کے پیر گھرانے کی حمایت حاصل ہے جن کا لاوہ تحصیل میں کافی اثر و رسوخ ہے۔

سیاسی کارکن محمد خالد کا خیال ہے کہ رومان احمد کی پوزیشن کافی کمزور تھی لیکن چند روز قبل یہاں سب سے مضبوط دھڑے کے سربراہ سردار فیض ٹمن اور سردار ممتاز ٹمن کی حمایت کے بعد ان کی پوزیشن کافی بہتر ہو گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اب رومان احمد کو تحریک انصاف کے پاپولر ووٹ کے علاوہ تریڑ برادری کا ایک حصے اور قصاب برادری کی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے حسن سردار مقابلہ میں کافی پیچھے ہیں۔

ان کا کہنا تھا  یعقوب نقشبندی 2018ء میں تقریباً 24 ہزار اور ضمنی انتخابات میں 32 ہزار سے زیادہ ووٹ لے چکے ہیں اب بھی وہ سنی ووٹر کا اچھا خاصا حصہ لے جا ئیں گے۔

اس قومی نشست کے نیچے دو صوبائی حلقے آتے ہیں جن میں سے ایک چکوال اور تلہ گنگ کا مشترک ہے۔

پی پی 22 چکوال کم تلہ گنگ میں کلر کہار، بلکسر اور تلہ گنگ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ جہاں سے پی ٹی آئی کے سردار آفتاب اکبر بھاری اکثریت سے جیتے تھے۔

اس بار یہاں سے مسلم لیگ ن نے سردار غلام عباس کو قومی اور اس صوبائی دونوں نشستوں پر کھڑا کیا ہے جبکہ تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار نثار احمد ہیں۔ اسی طرح تحریکِ لبیک نے محمد ادریس اور پیپلز پارٹٰی نے ملک عظمت حیات کو امیدوار نامزد کیا ہے۔

سیاسی کارکن محمد سلیم بتاتے ہیں کہ سابقہ ایم پی اے سردار آفتاب کے نو مئی کے واقعات پر پارٹی چھوڑنے کے بعد تحریک انصاف کے پاس کوئی مضبوط آپشن نہیں تھا۔اس لیے پارٹی نے دیرینہ کارکن حکیم نثار کو نامزد کیا ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے عظمت حیات کی پوزیشن ابھی تک کوئی زیادہ مضبوط نہیں لگ رہی۔

وہ کہتے ہیں کہ حکیم نثار انتخابی میدان میں نووارد اور سردار عباس کے مقابلے میں کافی کمزور ہیں لیکن انہیں تحریک انصاف کے ساتھ ٹمن برادران کی حمایت بھی مل گئی ہے۔ تاہم سردار عباس کا ذاتی ووٹ بینک کافی ہے اور انہیں کاروباری طبقے خصوصا بلوچ برادری کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس لیے یہاں سردار عباس زیادہ مضبوط ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ضلع راولپنڈی نے ایک صوبائی نشست کھو دی، "آبادی بڑھی ہے لیکن حلقے کم کر دیئے گئے ہیں، یہ نا انصافی ہے"

پی پی 23 تحصیل لاوہ اور تلہ گنگ کے علاقوں پر مشتمل ہے جہاں سے گزشتہ انتخابات میں ن لیگ کے ملک شہریار منتخب ہوئے تھے۔

اس حلقے سے اب ملک شہریار اعوان ن لیگ، کرنل سلطان سرخرو تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ، پیر محمد شاہ تحریکِ لبیک اور خالدہ پروین آزاد امیدوار ہیں۔

 سلطان سرخرو 15 سال سے تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ ن لیگ کے ملک شہریار اعوان سابقہ ایم پی اے ملک ظہور اعوان مرحوم کے بھتیجے ہیں جو 2017ء میں چچا کے انتقال کے بعد ایم پی اے چلے آ رہے ہیں۔

اس حلقے کے سیاسی کارکن عظمت ہاشمی بتاتے ہیں کہ سلطان سرخرو عمر رسیدہ ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف نے چند روز قبل ان کی جگہ سعد حیات ٹمن کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن 24گھنٹے بعد ہی یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ کرنل سرخرو کا کوئی ذاتی مضبوط ووٹ بینک نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی کا ووٹ اور ٹمن سرداروں کی حمایت انہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جبکہ ملک شہر یار نوجوان، آکسفورڈ گریجوایٹ اور تلہ گنگ میں کافی مقبول ہیں۔ وہ پچھلے انتخانات کی نسبت کافی مضبوط پوزیشن میں دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اس بار انہیں یہاں کی اکثریتی اعوان برادری کے ساتھ تریڑ برادری کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس نشست پر کانٹے کا مقابلہ نظر آ رہا ہے۔

تاریخ اشاعت 2 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فیصل شہزاد کا تعلق میانوالی سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں اور گزشتہ 5 سال سے محکمہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں۔

چمن: بچے ابھی تک کتابوں کے منتظر ہیں

thumb
سٹوری

شانگلہ کے پہاڑوں میں کان کنی سے آبادی کے لیے کیا خطرات ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شمالی وزیرستان میں تباہ کیے جانے والے سکول کی کہانی مختلف کیوں ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ
thumb
سٹوری

ٹنڈو الہیار میں خسرہ سے ہوئی ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

آزاد کشمیر: احتجاج ختم ہو گیا مگر! مرنے والوں کو انصاف کون دے گا؟

ملتان، تھری وہیلر پائلٹ پراجیکٹ: بجلی سے چلنے والے 20 رکشوں پر مشتمل ایک کامیاب منصوبہ

thumb
سٹوری

موسموں کے بدلتے تیور کیا رنگ دکھائیں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

آنکھوں میں بینائی نہیں مگر خواب ضرور ہیں

thumb
سٹوری

گندم کے کھیت مزدوروں کی اجرت میں کٹوتی کس نے کی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceغلام عباس بلوچ

منصوبہ جائے بھاڑ میں، افتتاحی تختی سلامت رہے

مانسہرہ: ہزارہ یونیورسٹی ماحول دوستی میں پہلے نمبر پر

thumb
سٹوری

ٹنڈو محمد خان میں 15 سال سے زیر تعمیر پبلک سکول جس کا کوئی وارث نہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرمضان شورو
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.