اکتیس اکتوبر 2019ء کا دن رحیم یار خان کے لیے بہت بھاری تھا۔ اس روز شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال میں 70 سے زائد لاشیں پہنچائی گئیں، لاشیں بھی کیا راکھ کے ڈھیر تھے جنہیں گٹھڑیوں میں باندھ کر ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھ دیا گیا تھا۔
باہر سیکڑوں میلوں کا سفر طے کرکے پہنچنے والے لواحقین، ان پوٹلیوں میں بندھی ہڈیوں اور خاک کے ڈین اے ٹیسٹ کروا رہے تھے تاکہ ان کے پیاروں کی شناخت ہو سکے۔
یہ دردناک منظر کراچی سے راولپنڈی جانے والی ٹرین میں آگ لگنے کے بعد کا ہے۔
یہ حادثہ رحیم یار خان سے 96 کلومیٹر دور لیاقت پور کے قریب پیش آیا تھا۔
جائے حادثہ سے قریبی دو ہسپتالوں، شیخ زیدہسپتال رحیم یار خان اور بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ مرنے والو ں کے علاوہ، آگ سے جھلسے، زندہ بچ جانے والے زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے۔
شیخ زید میڈیکل کالج میں برن یونٹ موجود تو تھا لیکن وہاں سرجری کے لیے جدید سہولیات میسر نہیں تھیں، اسی لئے علاج میں دشواری ہورہی تھی۔
اس حادثے کے بعد حکومت پنجاب کی جانب سے خصوصی طور پر شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال میں 450 بیڈز پر مشتمل جدید طرز کے "حضرت حمید الدین حاکم شیخ زید سرجیکل کمپلیکس" قائم کرنے کااعلان کیا گیا۔ اس میڈیکل کمپلیکس میں سرجیکل وارڈز، آوٹ ڈور مریضوں کے لیے بلڈنگ، آپریشن تھیٹرز، ٹراما سینٹر اور جدید ریڈیالوجی سینٹر قائم کرنے کے لیے سات ارب روپے کے فنڈز بھی مختص کئے گئے۔
منصوبے کے سول ورکس کنٹریکٹ کے لیے ایک نجی کمپنی ایم/ایس آرایم ایس پرائیویٹ لمیٹڈ کا انتخاب کیا گیا۔ میسرز میٹرو پلان ایشین کو کنسلٹنٹ رکھا گیا جبکہ اس پراجیکٹ کی ایگزیکیوٹنگ ایجنسی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب تھی۔
ضلع رحیم یار خان کی آبادی 60لاکھ سے زائد ہے۔ یہ جنوبی پنجاب میں ایسے مقام پر واقع ہے جہاں سے سندھ اور بلوچستان کے کئی شہر، جیکب آباد، ڈیرہ بگٹی، سوئی، میر پور، ماتھیو، گھوٹکی وغیرہ تین سے پانچ گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔
ترجمان شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال ڈاکٹررانا الیاس کے مطابق اس ہسپتال میں تینوں صوبوں سے روزانہ کی بنیاد پر تقریبا سات سے آٹھ ہزار مریض چیک اپ کے لیے آتے ہیں، جن میں سے کچھ مریضوں کو داخل بھی کیا جا تا ہے۔
سرجیکل کمپلیکس پر اکتوبر 2021ء میں تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا تھا، جبکہ جون 2022ء میں دیگر تکنیکی مسائل کو وجہ بنا کر کام روک دیا گیا۔ تاہم جولائی 2022ء میں پھر سے تعمیراتی کام شروع ہو گیا۔
حکومت نے اس پراجیکٹ کی کنٹریکٹر کمپنی کو دسمبر 2021ء میں 270 ملین روپے اور جولائی 2022ء میں 730 ملین روپے جاری کئے تھے، یعنی مجموعی طور پر اب تک ایک ارب سے زائد رقم کنٹریکٹر کو دی جا چکی ہے لیکن تعمیر اتی کام بدستور رُکا ہوا ہے۔
پرنسپل شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم لغاری بتاتے ہیں کہ سرجیکل کمپلیکس کی تعمیر کے لیے سائٹ، 13 اکتوبر 2021ء کو نجی کنٹریکٹر کے حوالے کی گئی تھی، منصوبے کے مکمل ہونے کی مجوزہ تاریخ 30جون 2023ء تھی، لیکن تاحال اس پراجیکٹ پر بمشکل آٹھ فیصد کام مکمل ہوا ہے۔
"پراجیکٹ کی تکمیل انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب (آئی ڈی اے پی) کے ذمے ہے۔ اس مد میں پنجاب حکومت، آئی ڈی اے پی کو اب تک تین ارب 40 کروڑ روپے جاری کر چکی ہے جو کہ اس پراجیکٹ پر آنے والی لاگت کا نصف بنتا ہے"۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق آئی ڈی اے پی، کنٹریکٹر کمپنی کو ایک ارب روپے ادا کرچکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پراجیکٹ کی جلد تکمیل کے لیے وہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب( آئی ڈیپ) اور محکمہ صحت کو بارہا تحریری درخواستیں بھجوا چکے ہیں، جن کا کبھی کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں
مظفر گڑھ میں سرکاری تھرمل پاور پلانٹ مقامی آبادی کی صحت کے لیے سنگین خطرہ بن گیا
پنجاب پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے اس پراجیکٹ کے نجی کنٹریکٹر ایم /ایس آر ایم ایس پرائیویٹ لمیٹڈ کو جعلی دستاویزات بنانے اور دھوکہ دہی کی وجہ سے 20 فروری 2023 ء کو اگلے دوسالوں کے لیے بلیک لسٹ کردیا گیا تھا۔
پرنسل شیخ زید ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر سلیم لغاری کہتے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق کنٹریکٹراپنی کمپنی سے سزا ہٹوانے کے لئے کورٹ میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
اس بات کی تصدیق پراجیکٹ ڈائریکٹر آئی ڈی اے پی محمد عامر بھی کرتے ہیں۔ لوک سجاگ کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے وہ انہوں نے کنٹریکٹر کو تبدیل نہیں کیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت پنجاب نے تین ارب 40 کروڑ شیخ زید سرجیکل ٹاور کی مد میں جاری کیے ہیں اور ان کے ادارے نے ایک ارب روپے سے زائد رقم کنٹریکٹر ایم/ایس آر ایم ایس کو جاری کر دی ہے جبکہ کام گزشتہ تین ماہ سے رکا ہوا ہے تو وہ اس بات کو جھٹلا نہ سکے اور کہا "آپ تحریری درخواست دیں گے تو آپ کو تحریری جواب دوں گا"۔
تاریخ اشاعت 17 نومبر 2023