سندھ میں حکومت اور شوگر ملز کے خلاف گنے کے کاشتکاروں کا انوکھا اقدام

postImg

اشوک شرما

postImg

سندھ میں حکومت اور شوگر ملز کے خلاف گنے کے کاشتکاروں کا انوکھا اقدام

اشوک شرما

ولی محمد ٹنڈو اللہ یار کے چھوٹے کاشتکار ہیں، پچھلے چند سال سے ان کے حالات بدل گئے ہیں اور اب وہ نسبتاً خوشحال زندگی گذار رہے ہیں۔

ان کے پاس 25 ایکڑ زرعی زمین ہے جس میں سے کچھ حصے پر وہ گنا کاشت کرتے ہیں۔ ولی محمد کی خوشحالی کی وجہ گنے کی فصل تو ہے لیکن اصل "کہانی" اس کے بعد کی ہے۔

وہ چند سال سے گنے کو شوگر ملوں کو بیچنے کی بجائے اس سے گڑ تیار کرکے فروخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے شہر کے بائی پاس پر بیلنا لگایا ہوا ہے جہاں دیسی طریقوں سے گنے سے گڑ بنایا جاتا ہے اور وہیں پر سٹال سجا کر گڑ فروخت کرتے ہیں۔

ولی محمد نے بتایا کہ انہوں نے بیلنے پر چار مزدور رکھے ہوئے ہیں، جو گنے کو مشین سے گذار کر رس نکالتے ہیں۔

"ایک من گنے سے 16 کلو رس نکلتا ہے۔ جس سے ساڑھے تین سے چار کلو گڑ بن جاتا ہے۔ فی کلو گڑ کی اوسط قیمت 200 روپے ہے، اس طرح ایک من گنے سے سات سے آٹھ سو روپے آمدن ہو جاتی ہے۔"

سندھ میں رواں کرشنگ سیزن کے لیے فی من گنے کی سرکاری یا امدادی قیمت 302 روپے مقرر کی گئی ہے لیکن سندھ کی ملیں کسانوں کو گنے کو ٹرکوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں میں بھر کر مل تک پہنچانے کا خرچ نہیں دے رہیں وہ کسان خود برداشت کر رہے ہیں۔

ولی محمد کے بقول گڑ بنانے سے کسان کو سرکاری قیمت خرید سے پانچ سو روپے فی من اضافی آمدن ہوتی ہے۔

یہ صرف ولی محمد کی کہانی نہیں بلکہ سندھ کے مختلف اضلاع میں ایسے کئی گنے کے کاشتکار ہیں جنہوں نے شوگرملوں کے رویے سے مایوس ہوکر گڑ بنانے کے بیلنے لگا لیے ہیں۔

حیدرآباد سے میرپور خاص یا ٹنڈو محمد خان روٹ پر سفر کرتے ہوئے مختلف دیہات میں سڑک کنارے ایسے بے شمار بیلنے نظر آتے ہیں جہاں کاشتکار گنے سے گڑ بناکر فروخت کر رہے ہیں۔

گنے سے گڑ بنانے والے ان بیلنوں پر قائم سٹالز پر عام طور پر تین اقسام کا گڑ دستیاب ہوتا ہے۔ خالص گڑ، کیمیکل والا گڑ اور سپیشل گڑ۔

سپیشل گڑ میں خشک میوہ جات یعنی بادام مونگ پھلی، تل، چنے، سونف، الائچی شامل کی جاتی ہے جس کی قیمت فی کلو 600 روپے وصول کی جاتی ہے جبکہ سادہ گڑ 200 روپے کلو فروخت کیا جاتا ہے۔

سفر کے دوران اکثر لوگ ان بیلنوں کو دیکھ کر گاڑیوں کو بریک لگاتے ہیں اورتازہ گڑ کی کشش ان کوخریداری پر مجبور کردیتی ہے۔

گنے کو ملز میں فروخت کرنے والے کاشتکار گھاٹے میں کیوں؟

 نواب زبیر تالپور کاشتکاراور سندھ آبادگار اتحاد کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شوگر مل کو گنا دینے کے بعد رقم کی ادائیگی کے لیے انہیں بیسیوں چکر لگانا پڑتے ہیں۔ کوالٹی پریمیم بھی وعدے کے مطابق نہیں ملتا۔

شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950ء کے تحت حکومت گنے میں طے شدہ پیمانے سے زیادہ مٹھاس ہونے پر ملز مالکان کو کسانوں کو کوالٹی پریمیم ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

 سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک فیصلے میں مِلوں کو حکم دے رکھا ہے کہ اگر شرحِ مٹھاس 8.5 فی صد سے زیادہ ہو تو وہ ہر اضافی مقدار پر گنے کی قیمتِ خرید میں پانچ روپے فی 40 کلو گرام کا اضافہ کرنے کے پابند ہیں۔

پاکستان خاص کر سندھ میں  گنے کی بہت ساری اقسام میں مٹھاس کی شرح 14 فی صد تک بھی ہوتی ہے۔

نواب زبیر تالپور کہتے ہیں کہ گنے کے فی ایکڑ کاشت پر تقریباً پونے دو لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔ موجودہ ریٹ کے حساب سے گنا فروخت کرنے کے عوض فصل کا خرچہ مشکل سے نکلتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب گنے کے متبادل فصل پر توجہ دے رہے ہیں۔

نواب زبیر نے گذشتہ سیزن میں 100 ایکڑ رقبے پر گنے کی کاشت کی تھی مگر اس سال 40 ایکڑ پر گنا لگایا ہے۔

محمد ولی اگلے سال مزید رقبے پر گنا لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گڑ بنانے سے انہیں نقد اور فوری آمدن ہوتی ہے۔

"سارا گڑ ہمارے سٹال پر فروخت نا بھی ہوسکے تو اس کو ہم ہول سیل مارکیٹ میں یا مقامی دوکانداروں کو بیچ دیتے ہیں"۔

سندھ میں مجموعی طور 38 شوگر ملیں قائم ہیں۔ اس انڈسٹری میں انور مجید سے لے کر جہانگیر ترین جیسے کئی بزنس ٹائیکونز  نے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔

ان لوگوں کے سیاسی خیالات اور وابستگیاں بھلے مختلف ہوں لیکن کاشتکار سے "سلوک" کے معاملے میں یہ سب ایک پیج پر ہیں۔

کاشتکار شوگر ملوں سے کیوں ناراض ہیں؟

سندھ شوگرکین فیکٹریز کنٹرول ایکٹ کے مطابق سندھ میں ہر سال 15 اکتوبر سے اپریل تک گنے کا کرشنگ سیزن ہوتا ہے۔

اکتوبر تک گنے کی فصل تیار ہو جاتی ہے لیکن شوگرملز وقت پر کرشنگ نہیں کرتیں جبکہ کسان کے لیے مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی فصل کہاں لے کر جائے؟ گذشتہ چند برسوں سے سندھ میں ہر سال کاشتکاروں اور ملز مالکان کے درمیان گنے کے ریٹ اور شوگرملز چلانے کی تاریخ کے تعین کو لے تنازع کھڑا ہو جاتا ہے۔

کاشتکار ہر سال کی جھک جھک اور حکومت سندھ کے عدم تعاون کی وجہ سے بیزار ہوکر گنے کی بجائے دیگر فصل کاشت کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

رواں کرشنگ سیزن کے لیے حکومت سندھ نے فی من گنے کے نرخ 302 روپے مقرر کیے ہیں لیکن اکثر شوگرملز کی جانب سے کاشتکاروں کو بروقت ادایئگی نہ ہونے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔

<p> گڑ بنانے سے کسان کو سرکاری قیمت خرید سے پانچ سو روپے فی من اضافی آمدن ہوتی ہے<br></p>

 گڑ بنانے سے کسان کو سرکاری قیمت خرید سے پانچ سو روپے فی من اضافی آمدن ہوتی ہے

کین کمشنر ضمیر احمد جاگیرانی سندھ میں شوگرملوں کی کنٹرولنگ اتھارٹی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی شوگرملز ایسی ہیں جن کی طرف کاشتکاروں کے عرصہ دراز سے 40 کروڑ روپوں سے زائد واجبات ہیں جن کی ادائیگی نہیں کی جارہی۔

کین کمشنر سندھ کے مطابق انصاری شوگر ملز کی جانب کاشتکاروں کے سات کروڑ روپے بقایا ہیں، سیری شوگرملز پر آٹھ کروڑ روپے واجبات ہیں۔ چمبڑ شوگرملز پر دو کروڑ روپے، گھوٹکی شوگرملز پر آٹھ کروڑ، لاڑ شوگرملز ایک کروڑ ، نودیرو  شوگرملز  18 لاکھ ، نیو دادو شوگرملز پر 19 کروڑ اور باوانی شوگرملز کے پاس کاشتکاروں کے دو کروڑ روپے کے واجبات ہیں۔

گنے کی کاشت میں عدم دلچسپی کے نتائج

کاشتکاروں کی جانب سے گنے کی کاشت میں عدم دلچسپی کے باعث سندھ میں حکومت کی جانب سے گنے کی کاشت کا مقرر کردہ ٹارگٹ حاصل نہیں ہو رہا۔

محکمہ زراعت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ہدایت اللہ چھجڑو  نے بتایا کہ گذشتہ برس22ء-2021ء میں ان کے محکمے کی جانب سے سندھ میں تین لاکھ 10 ہزار ہیکٹرز پر گنے کی کاشت کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا تھا لیکن صوبے میں دو لاکھ 89 ہزار ہیکٹرز پر گنے کی کاشت ہوئی۔ یعنی 21 ہزار ہیکٹرز کم کاشت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میٹھا میٹھا ہپ ہپ: شوگر ملیں گنے کی مٹھاس میں کمی بیشی کر کے کس طرح کاشت کاروں کو لوٹ رہی ہیں۔

"رواں برس گنے کی کاشت کا ہدف پچھلے سال سے 10 ہزار ہیکٹرز کم کرکے تین لاکھ ہیکٹرز کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے لیکن سندھ میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث زراعت کو بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سال بھی گنے کی کاشت اور پیداواری ہدف حاصل نہ ہونے کا خدشہ ہے"۔

حکومتی اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سندھ میں کسانوں کی طرف سے گنا کاشت کرنے کے رجحان میں کمی واقعے ہو رہی ہے۔

2017ء اور 2018ء کے سیزن میں سندھ میں تقریباً تین لاکھ 33 ہزار چار سو 50 ہیکٹر(8 لاکھ 24 ہزار ایکڑ) رقبے پر گنا کاشت ہوا تھا جو 2021ء اور 22ء کے سیزن میں 38 ہزار 72 ہیکٹر(94 ہزارایکڑ)  کم ہوکر دو لاکھ 95 ہزار تین سو 76 ہیکٹر (سات لاکھ 29 ہزار ایکڑ) رہ گیا ہے۔

کین کمشنر ضمیر احمد کے مطابق گذشتہ سیزن 22-2021 کے دوران سندھ کی شگرملز نے مجموعی طور پر ایک کروڑ 55 لاکھ 24 ہزار 728 میٹرک ٹن گنا خرید کیا تھا اور شوگرملز  نے اس سے 15 لاکھ 56 ہزار 265 میٹرک ٹن چینی بنائی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ چینی کی پیداوار میں کمی کا اندیشہ ہے۔

تاریخ اشاعت 18 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشوک شرما کا تعلق حیدر آباد، سندھ سے ہے۔ مختلف مین اسٹریم میڈیا چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.