حفیظ اللہ خان سیاسیات، سماجیات، قانون اور لسانیات جیسے موضوعات پر شائع ہونے والے متعدد جرائد کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ ان جرائد کو شائع کرنے والے ادارے، ہیومینیٹی پبلیکیشنز(Humanity Publications) پرائیویٹ لیمیٹڈ، کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ادارہ کل گیارہ تحقیقی جرائد چھاپتا ہے جن میں اب تک 409 مضامین چھاپے گئے ہیں جو 1040 مصنفین نے لکھے ہیں جبکہ کمپنی کے پاس ان مضامین کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے 2369 تنقید نگار موجود ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی ان میں سے دس جرائد کی اشاعت کی منظوری دے رکھی ہے لیکن اس کے مطابق یہ جرائد ہیومینیٹی پبلیکیشنز نہیں بلکہ ہیومینیٹی اونلی (Humanity Only) نام کا ایک تحقیقی ادارہ شائع کرتا ہے۔
تاہم ہیومینیٹی اونلی کی نہ تو کوِئی اپنی ویب سائٹ ہے اور نہ ہی یہ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے البتہ ہیومینیٹی پبلیکیشنز کے شائع کردہ تمام جرائد کی ویب سائٹوں میں اس کا بٹن موجود ہے۔ اگر اس بٹن کو کلِک کریں تو ہیومینیٹی اونلی کے بارے میں صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں لیکن اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ اسے کون لوگ چلاتے ہیں اور ہیومینیٹی پبلیکیشنز کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے۔
اس کے اغراض و مقاصد میں ہیومینیٹی ریسرچ کونسل (Humanity Research Council) کا ذکر بھی ہے جو ہیومینیٹی ڈویلپمنٹ سوسائٹی (Humanity Development Society) نامی ایک ادارے کا حصہ ہے جس میں اس کے علاوہ بین المذاہب ہم آہنگی اور کھیلوں کے فروغ پر کام کرنے والی دو کونسلیں اور جوانوں، عوامی فلاح اور میڈیا پر کام کرنے والی تین تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ یہ کونسلیں اور تنظیمیں کہاں کام کرتی ہیں اور ان میں کون لوگ شامل ہیں اس کے بارے میں آن لائن کوئی معلومات دستیاب نہیں۔
جب سجاگ نے ہیومینیٹی پبلیکیشنز کی ویب سائٹ پر دیے ہوئے فون نمبر پر رابطہ کیا تو دوسری طرف سے حفیظ اللہ خان نے ہی جواب دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'وہ پچھلے چھ سال سے تحقیقی جرائد کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں۔'
چھ سال پہلے وہ خیبر پختونخوا کی عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہِ سیاسیات میں ایم فل کے پہلے سال کے طالب علم تھے۔ (اب وہ اسی یونیورسٹی کے اسی شعبے میں لیکچرار ہیں)۔ اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ جرائد شائع کے لئے 'میرا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کچھ اور شرائط رکھی ہوئی ہیں جنہیں ہم پورا کرتے ہیں'۔
ان شرائط کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ایک تحقیقی جریدے کی اشاعت کی منظوری لینے کے لئے اس کے اہداف، مقاصد اور دائرہِ کار (aims, objectives and scope) واضح طور پر متعین ہونے چاہئیں، اس کا ایک واضح نام اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈ سیریل نمبر (ِISSN) ہونا چاہیئے، اس کا ایک ایسا یو آر آیل (URL) ہونا چاہیئے جس کی تصدیق انٹرنیشنل سٹینڈرڈ سیریل نمبر جاری کرنے والے بین الاقوامی ادارے نے کی ہوئی ہو۔ اسی طرح جریدے کی ویب سائٹ پر لکھا ہونا چاہیے کہ آیا یہ مصنفین سے کوئی فیس لیتا ہے یا نہیں، یہ اشاعت کے لئے درکار رقم کہاں سے لیتا ہے اور کس طریقہِ کار کے تحت تحقیق کو اشاعت کے لئے قبول کرتا ہے۔ ایسے جریدے کا باقاعدگی سے چھپنا بھی ضروری ہے۔
ہائر ایجوکیش کمیشن کے مطابق صرف یونیورسٹیاں، اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے شعبہ جات، رجسٹرڈ تحقیقی ادارے یا ایسے غیر منافع بخش ادارے جنہیں تحقیق کا اختیار (mandate) حاصل ہو تحقیقی جریدے چھاپ سکتے ہیں۔ لیکن ان سب اداروں کے لئے ضروری ہے کہ ان کا انتظام و انصرام کئی افراد پر مبنی ایک باقاعدہ اداراتی نظم و نسق کے تحت چلایا جا رہا ہو جو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن یا رجسٹرار آف سوسائٹیز کے پاس باقاعدہ رجسٹرڈ ہو۔
اگرچہ ہیومینیٹی پبلیکیشنز سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے لیکن اس کی رجسٹریشن 26 اپریل 2018 کو ہوئی جبکہ اس کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے جرائد 2016 سے چھپ رہے ہیں۔ اس کمپنی کا کوئی باقاعدہ اداراتی نظم و نسق بھی موجود نہیں۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے مطابق یہ در حقیقیت فردِ واحد کی ملکیت ہے۔
اس کی ویب سائٹ پر موجود بورڈ آف ڈائریکٹرز کا بٹن کلِک کرنے پر 24 دسمبر 2020 کی سہ پہر تین بجے تک ایک ایسا صفحہ کھلتا تھا جس پر ایسی تصویریں اور نام موجود تھے جن کا حقیققت میں کوئی وجود نہِیں اور جو ویب سائٹیں بنانے اور فروخت کرنے والے ادارے خود ہی ان پر ڈال دیتے ہیں۔
حفیظ اللہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تصویریں اور نام فرضی ہیں کیونکہ 'ہماری ویب سائٹ ابھی بن رہی ہے'۔ لیکن سجاگ سے ان کی بات چیت کے کچھ ہی دیر بعد یہ نام اور تصویریں ویب سائٹ سے غائب ہو گئے۔
اس ویب سائٹ پر یہ ذکر بھی موجود نہیں کہ ہیومینیٹی پبلیکیشنز کو تحقیق کرنے کا اختیار (mandate) کیسے، کب اور کس نے دیا ہے، اس کے پاس جرائد کی اشاعت کے لئے درکار رقم کہاں سے آتی ہے اور کیا یہ کمپنی مصنفین سے کوئی فیس لیتی ہے یا نہیں۔ مصنفین، مدیران اور تنقید نگاروں کے لئے درکار گائیڈ لائن کے خانے تو اس کی ویب سائٹ پر بنے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی کھولا نہیں جا سکتا۔
اسی طرح اس ویب سائٹ پر دو ایسے جرائد موجود ہیں جن کا دائرہِ کار (scope) ابھی تک متعین نہیں کیا گیا۔ دو مزید جرائد کا انٹرنیشنل سٹینڈرڈ سیریل نمبر ہی موجود نہیں جبکہ پانچ جرائد ایسے ہیں جن کے پرنٹ ایڈیشن کا سیریل نمبر تو ہے لیکن آن لائن ایڈیشن کا نہیں۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی جریدہ باقاعدگی سے شائع نہیں ہوتا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قواعد کے مطابق 2016 سے چھپنے والے ان سہ ماہی جرائد میں سے ہر ایک کے 20 شمارے شائع ہونے چاہئیں لیکن ان میں سے دو تو ایسے ہیں جن کا ایک شمارہ بھی شائع نہیں ہوا۔ چھ ایسے ہیں جن کے پانچ شمارے شائع ہوئے ہیں (اگرچہ ویب سائٹ پر ان میں سے صرف ایک شمارہ کھلتا ہے) اور ایک ایسا ہے جس کے سات شمارے شائع ہوئے ہیں (حالانکہ ان میں سے صرف تین کو آن لائن کھولا جا سکتا ہے)۔
صرف ایک جریدہ، گلوبل سوشل سائنسز ریویو، ایسا ہے جس کے بارہ کے بارہ شائع شدہ شمارے آن لائن کھولے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے ایڈوائزری ادارتی بورڈ میں دیے گئے پہلے شخص کا نام یا تو غلط لکھا گیا ہے یا اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔
اگرچہ اس بورڈ میں شامل لوگوں کی اکثریت برِاعظم افریقہ کے مختلف حصوں اور دیگر بیرونی ممالک میں رہتی ہے لیکن اس میں کچھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ سجاگ نے ان میں سے دو پاکستانیوں، ڈاکٹر اعجاز احمد خان اور ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی، سے رابطہ کیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہِ بین الاقوامی تعلقات کے سابقہ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد خان کا کہنا ہے کہ وہ ہیومینیٹی پبلیکیشنز کا نام پہلی بار سن رہے ہیں جبکہ گلوبل سوشل سائنسز ریویو کا نام تو انہوں نے سن رکھا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ اس کو چھاپنے والے لوگ کون ہیں اور نہ ہی کبھی کسی نے انہیں اس کے ایڈوائزری ادارتی بورڈ میں شامل ہونے کو کہا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے ہی شعبہِ سیاسیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کا کہنا ہے کہ ان سے اس بورڈ میں ان کا نام شامل کرنے کی اجازت تو لی گئی لیکن ان کے پاس کوئی طریقہِ کار نہیں جس سے وہ معلوم کر سکیں کہ آیا یہ جریدہ صحیح طور سے کام کر رہا ہے یا نہیں۔ ان کے مطابق 'یہ کام ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ہے'۔
ڈاکٹر فیصل باری، جو لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) میں معاشیات پڑھاتے ہیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بورڈ کے رکن بھی ہیں، مانتے ہیں کہ تحقیقی جریدوں کی منظوری اور درجہ بندی میں بہت سے مسائل موجود ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لئے وہ تجویز کرتے ہیں کہ جرائد کی منظوری اور درجہ بندی کا 'طریقہِ کار ڈھکا چھپا نہ ہو بلکہ ہر کسی کو معلوم ہو تا کہ لوگ اس پر اعتماد کر سکیں'۔
ذاتی ترقی یا اجتماعی بہتری
ڈاکٹر عطا الرحمان وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے سائنس اور ٹیکنالوجی پر بنائی گئی ٹاسک فورس کے چیئرمین ہیں۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی قومی ٹاسک فورس کے شریک چیئرمین اور نالج اکانومی ٹاسک فورس کے نائب چیئرمین بھی ہیں۔ اس سے پہلے 2000 کی دہائی میں وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پہلے چیئرمین بھی رہے ہیں۔
ان کا پہلا تحقیقی مضمون 1976 میں چھپا۔ اس وقت سے لے کر اب تک وہ 1207 تحقیقی کام مکمل کر چکے ہیں -- گویا پچھلے 44 سال میں اوسطاً ہر 13 دن بعد ان کی کوئی تحقیق سامنے آئی ہے۔
دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ ماہرِ لسانیات و سیاسیات نوم چومسکی نے 1953 سے لے کر اب تک 311 تحقیقی تصانیف شائع کی ہیں – یعنی لگ بھگ 78 دنوں میں ایک تصنیف۔ ( اس ڈیٹا کی میم)
یہ تقابلی جائزہ واضح کرتا ہے کہ ڈاکٹر عطا الرحمان نے اپنی تحقیق میں معیار سے زیادہ مقدار پر زور دیا ہے۔ ان کی سرپرستی میں بننے والے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا زور بھی تحقیق کے معیار سے زیادہ اس کی مقدار پر ہی رہا ہے۔
اس کا ایک ثبوت اس وقت سامنے آیا جب کلیریویٹ اینالِٹکس (Clarivate Analytics) نامی ایک امریکی تحقیقی کمپنی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 2018 میں پاکستانیوں کی شائع کردہ تحقیقی تصانیف میں پچھلے سال کی نسبت 21 فیصد اضافہ ہوا جو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ تھا۔
یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرجلیل اختر کہتے ہیں کہ اس اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی پیشہ وارانہ ترقی کو تحقیقی تصانیف کی اشاعت سے مشروط کیا ہوا ہے جس کے باعث اساتذہ 'غیرمعیاری جریدوں میں پیسے دے کر یا بہتر معیار کے جریدوں میں اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنا تحقیقی کام چھپوا لیتے ہیں'۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ضوابط کی رو سے کوئی لیکچرار اس وقت تک اسسٹنٹ پروفیسر نہیں بن سکتا جب تک اس کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری نہ ہو جبکہ اسسٹنٹ پروفیسر سے ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کے لیے دس تحقیقی مضامین کی اشاعت اور ایسوسی ایٹ پروفیسر سے پروفیسر بننے کے لیے 15 تحقیقی مظامین کا چھپوانا ضروری ہے۔
ڈاکٹر جلیل اختر کہتے ہیں کہ اساتذہ کی ترقی کو ان کی شائع کردہ تحقیق کی تعداد سے جوڑ کر انہیں 'ایک ایسی اندھی دوڑ میں لگا دیا گیا ہے جس کے باعث تخلیقی صلاحیت، تحقیقی سوال اٹھانے کا ہنر، تصورات کا اچھوتا پن، لکھنے کی مہارت اور تحقیق کی سائنسی، سماجی اور معاشی اہمیت جیسے اہم عناصر بالکل پسِ پردہ چلے گئے ہیں'۔
ان کے بقول نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بہت سے استاد طلبہ کے تحقیقی مقالوں کی نگرانی کا کام ہی اسی نیت سے اپنے ذمے لیتے ہیں کہ وہ ان مقالوں کے شریک مصنف بن کر اپنی ترقی کی شرائط پوری کر سکیں۔
ڈاکٹر جلیل اختر کا ایک تحقیقی مضمون پچھلے تین سال سے امریکی ریاست لوئزیانا کی نارتھ ویسٹرن سٹیٹ یونیورسٹی کے ایک جریدے میں اشاعت کے مختلف مراحل سے گزر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک معیاری تحقیقی مضمون لکھنے اور شائع کرنے میں کم از کم پانچ ماہ لگتے ہیں۔
گویا ایک اسسٹنٹ پروفیسر کو ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کے لئے کم از کم پچاس ماہ کا عرصہ چاہیئے لیکن اگر اس کی تحقیق اس رفتار سے شائع ہو جس رفتار سے ڈاکٹر عطا الرحمان کی تحقیق منظرِ عام پر آتی ہے تو اسے یہ ترقی حاصل کرنے کے لئے محض چار مہینے اور دس دن درکار ہیں۔
لمز کی استاد ڈاکٹر تانیہ سعید کا خیال ہے کہ اساتذہ پر تحقیقی مضامین شائع کرانے کا دباؤ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہی موجود ہے۔ انہوں نے خود برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے شعبہِ تعلیم میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'تحقیق شائع کریں یا تعلیمی میدان سے باہر ہو جائیں' کا رواج پوری دنیا میں پڑ چکا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے علمی اور تحقیقی کام کے معیار پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
تحقیق کا ادنیٰ معیار
چند ہفتے سے پاکستانی نیوز میڈیا میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی نے دنیا بھر کے تحققیق کاروں کی فہرست میں سب سے اوپر موجود دو فیصد افراد میں 81 پاکستانیوں کو بھی شامل کیا ہے۔ اس فہرست میں شامل کچھ پاکستانی تحقیق کاروں کے حالاتِ زندگی اور حالاتِ کار کے بارے میں کئی خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں۔
لیکن ابھی تک ایک آدھ مضمون کو چھوڑ کر کہِیں بھی اس فہرست کا کوئی تنقیدی جائزہ نہیں لیا گیا۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آیا ان دو فیصد افراد کی تحقیق کے معیار کو جانچا گیا یا محض اس کی مقدار کو۔ اسی طرح یہ سوال بھی نہیں اٹھایا گیا کہ اس فہرست میں شامل لوگوں کا تعلق سائنس، آرٹس اور سوشل سائنس میں سے کس شعبے سے ہے اور کیا سائنس کے میدان میں ہونے والی تحقیق کا معیاری موازنہ لسانیات اور ادب کے شعبے میں ہونے والی تحقیق سے کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ہائر ایجوکیشن کمیشن یا صوبائی حکومتیں: اعلیٰ تعلیم کے غیرقانونی اداروں کی بھرمار کا ذمہ دار کون؟
یہ سوال بھی خبروں سے غائب ہے کہ اخر دو فیصد تحقیق کاروں کی اس فہرست میں کل کتنے لوگ شامل ہیں۔ اگر تو ان کی تعداد دس ہزار ہے تو اس میں پاکستانیوں کی شرح 0.81 فیصد بنتی ہے جو ایک طرح سے مناسب ہے لیکن اگر ان کی تعداد ایک لاکھ ہے تو اس میں سے پاکستانی محض 0.081 فیصد ہی ہیں جو کسی صورت ایک مناسب شرح نہیں۔
پرویز ہود بھائی نے ڈان اخبار میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ سٹینفورڈ یونیورسٹی نے سرے سے ایسی کوئی فہرست شائع ہی نہیں کی بلکہ در حقیقت اس کے چار مرتبین میں سے صرف ایک سٹینفورڈ یونیورسٹی میں طبی اعداد و شمار کے پروفیسر ہیں۔
پرویز ہود بھائی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ فہرست تحقیقی کام کے معیار یا اس کی افادیت کی بنا پر نہیں بنائی گئی بلکہ اس کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی ہے کہ کس تحقیق کار کی تصانیف کا حوالہ کتنی بار دوسرے تحققیق کاروں کی تصانیف میں دیا گیا ہے۔
یعنی آپ ایک مضمون چھپوائیں اور دوسرے اساتذہ، آپ کے شاگرد، آپ کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اور اپ کے دوست احباب اس کا حوالہ اپنے اپنے مضامین میں دے دیں تو آپ کا نام بھی اس فہرست میں آ سکتا ہے چاہے آپ کے کام کا حوالہ آپ کی تحقیق کو غلط ثابت کرنے کے لئے ہی دیا گیا ہو۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 15 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 13 جنوری 2022