"میں نے تعلیم چھوڑی تو میرے والد صاحب حیات تھے۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے تو میں نے ایک چھوٹی سی ملازمت کرلی۔ ملازمت سے جب وقت ملتا تو فٹ بال کھیلتا تھا۔ یہ تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایک دن فٹ بال کھیلنے قطر اور ناروے جاؤں گا اور واپسی پر میرا شاندار استقبال ہوگا۔"
یہ کہنا ہے کراچی کے محمد علی کا جو پاکستان چائلڈ سٹریٹ فٹ بال ٹیم کےکھلاڑی ہیں۔ اس ٹیم نے گزشتہ سال قطر میں منعقدہ عالمی ورلڈ کپ سے پہلے سٹریٹ فٹ بال ورلڈ کپ میں شرکت کی اور پھر حال ہی میں ناروے میں منعقدہ عالمی سٹریٹ فٹ بال ٹورنامنٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
محمد علی فٹ بال کے لیے مخصوص جوتوں کے بغیر کھیلا کرتے تھے۔
"میرے پاس عام جوگر ہوتے تھے جنہیں پہن کر میں فٹ بال کھیلا کرتا تھا۔ مجھے ساتھی کھلاڑی کہتے کہ یہ جوتے پہن کر فٹ بال نہیں کھیلا جا سکتا۔ ان سے پاؤں زخمی کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ میں ان کی بات سن کر چپ ہوجاتا مگر گراؤنڈ میں جانا نہیں چھوڑتا تھا۔"
شامیر شریف کا تعلق ضلع بھکر سے ہے جو قطر اور ناروے میں عالمی سٹریٹ فٹ بال مقابلوں میں ٹیم کے فل بیک کی حیثیت سے شرکت کر چکے ہیں۔ جب وہ ٹیم کا حصہ بنے تو اس وقت درزی کا کام کررہے تھے۔
شامیر بتاتے ہیں کہ ان کے والد سیکورٹی گارڈ کے طور پر نوکری کرتے تھے۔ گھر میں مالی مسائل کے باعث انہوں نے نویں کلاس میں سکول چھوڑ کر درزی کا کام سیکھنا شروع کردیا۔
"مجھے فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ یہاں تک کہ میرے پاؤں میں جوگر یا فٹ بال والے جوتے بھی نہیں ہوتے تھے۔ عام چپل پہن کر گراونڈ میں فٹ بال کھیلا نہیں جاسکتا تھاِ، اس لیے ننگے پاؤں کھیلتا تھا جو بھاگنے سے زخمی بھی ہو جاتے تھے۔ میں عموماً صبح کے وقت جلدی کام پر پہنچ جاتا تھا تاکہ اپنا کام ختم کرکے شام کے وقت کھیل سکوں۔
اب یہ دونوں کھلاڑی محنت مزدوری کرنے کے بجائے اپنے کھیل سے پیسے کماتے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کو بہتر بنا لیا ہے۔
2018 میں روس میں منعقدہ سٹریٹ فٹ بال ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم کی قیادت کرنے والے عبداللہ اس وقت ترکیہ میں سکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
عبداللہ کا تعلق لاہور سے ہے۔ 2022 میں قطر میں منعقدہ چائلڈ سٹریٹ بال ورلڈ کپ میں انھیں ان مقابلوں کے سفیر کا درجہ دیا گیا تھا۔
محمد علی اور شامیر کی طرح ان کا بچپن بھی مشکلات میں گزرا۔ تاہم فٹ بال کے میدان میں کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد انہیں مسلم ہینڈ نامی ادارے نے ترکی میں تعلیمی سکالرشپ دلا دی۔ مسلم ہینڈ ہی وہ ادارہ ہے جو پاکستان میں سٹریٹ چائلڈ فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے کھلاڑیوں کو تیار کرتا ہے۔ عبداللہ ترکی میں پڑھائی کے ساتھ فٹ بال بھی کھیلتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ جلد وہ ترکی کے کلب میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔
مسلم ہینڈ میں کھلاڑیوں کو تربیت دینے والے ریحان طاہر نے بتایا کہ کسی بھی کھیل کی سٹریٹ ٹیم بنانے کی پہلی تجویز برطانیہ کے ایک غیر سرکاری ادارے سٹریٹ چائلڈ یونائٹیڈ نے دی تھی۔ اس کے بعد جب مختلف کھیلوں کے ورلڈ کپ منعقد ہوتے ہیں تو ان سے پہلے سٹریٹ ورلڈ کپ منعقد کروایا جاتا ہے جس میں دنیا کے بہت سے ممالک کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔
ریحان طاہر نے بتایا کہ ان کا ادارہ آخری تین ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کی سٹریٹ فٹ بال ٹیم کو شرکت کروا چکا ہے۔ اس سے پہلے وہ ٹیم کو صرف سپانسر کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ کرکٹ بہت مقبول ہے مگر حقیقت میں پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ابھی بھی فٹ بال بہت شوق سے کھیلا جاتا ہے کیونکہ یہ کھیل ایک گیند سے کھیلا جاسکتا ہے جس میں شرکت کے لیے کھلاڑیوں کا زیادہ خرچہ نہیں ہوتا۔ تاہم سٹریٹ فٹ بال کےکھلاڑی عام طور پر اس قدر پسماندہ ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کھیل کے لیے معمولی سامان بھی نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک سےٹیلنٹ کو تلاش کرتے ہیں اور اس میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ ان بچوں ہی کو موقع دیا جائے جن سے کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع چھن چکے ہیں۔ یا جو کم عمری میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ریحان طاہر کہتے ہیں کہ جو بچے میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں اور ٹیم کا حصہ بنتے ہیں ان کی زندگی میں تبدیلی آجاتی ہے۔ عبداللہ کی طرح چند اور بھی ایسے بچے ہیں جو اب اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سٹریٹ فٹ بال ٹیم نے اپنی صلاحتیوں سے دنیا کو ششدر کر رکھا ہے۔
فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے گزشتہ سال قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ کے موقع پر پاکستان سٹریٹ فٹ بال ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔
فیفا کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فٹ بال ٹیم کبھی بھی ورلڈ کپ کے مقابلوں میں شرکت نہیں کرسکی جبکہ ملک کی سٹریٹ ٹیم ہر بین الاقوامی مقابلے میں متاثر کن کارگردگی دکھاتی ہے۔ یہ ایسے ملک کے کھلاڑی ہیں جہاں غربت عام ہے، بچوں کو ان کے تمام حقوق میسر نہیں ہیں، ان کی بہت بڑی تعداد خستہ حال گھروں اور آبادیوں میں رہتی ہے اور انہیں جسمانی اور جنسی استحصال کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
فٹ بال کا نوحہ: لیاری کے ایک نوجوان رول ماڈل کی موت جو خبر نہ بن سکی
فیفا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 3.3 ملین بچے نوعمری میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پندرہ لاکھ بچے سڑک کنارے رہتے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی سٹریٹ فٹ بال ٹیم تمام بچوں کے لیے امید کی کرن بن گئی ہے۔
فیفا کی جانب سے پاکستان میں ایک نگران کمیٹی مقرر کی گی ہے۔ اس کمیٹی کے ممبر محمد شاہد نیاز کہتے ہیں کہ سٹریٹ فٹ بال ٹیم کی کارکردگی پاکستان میں فٹ بال کے مستقبل کے لیے امید کی کرن ہے۔ ٹیم کے بعض کھلاڑیوں نے قومی انڈر 16 ٹیم کے لیے ٹرائل دیا ہے اور ان میں چند کھلاڑی منتخب بھی ہو گئے ہیں۔
وہ توقع کرتے ہیں کہ یہ کھلاڑی مستقبل میں پاکستان فٹ بال کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور امکان ہے کہ آنے والے وقت میں یہ کھلاڑی ملک میں فٹ بال کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے۔
تاریخ اشاعت 26 اگست 2023