حکومت پنجاب کی جانب سے گزشتہ ہفتے ملتان سمیت صوبہ بھر میں تھیٹروں کے تمام ڈراموں کے موجودہ سکرپٹس کو فحش قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا گیا اور رقص پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
صوبائی وزیراطلاعات و ثقافت عامر میر نے اس کی وجہ سٹیج پروڈکشن کے لیے ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنا بتائی۔ نگران صوبائی وزیر نے پنجاب آرٹس کونسل کو ہدایت کی ہے کہ وہ خصوصی طور پر بہترین اور اعلیٰ معیار کے ڈراموں کے سکرپٹ کی منظوری دیں۔
پنجاب حکومت اس سے قبل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر متعدد اداکاروں اور ہدایت کاروں پر پابندی عائد کر چکی ہے۔
عامر میر نے واضح کیا کہ ترمیم شدہ ڈرامہ سکرپٹ ایکٹ کے تحت رقص کو سٹیج پرفارمنس سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق نئے ڈراموں کی رونمائی ترمیم شدہ ڈرامہ ایکٹ کے نفاذ پر منحصر ہو گی۔
اس پابندی سے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر ملتان کے تمام فنکار، پروڈیوسر، ڈائریکٹر، تھیٹر مالکان، رقاصائیں، سپورٹنگ سٹاف اور دیہاڑی دار ملازم بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
تھیٹر انڈسٹری میں کشش خان کے نام سے مشہور ضلع وہاڑی کی آرٹسٹ، پروڈیوسر اور رقاصہ نورالہٰی نے کہا کہ تھیٹروں میں رقص پر پابندی کا نقصان فنکاروں اور ان سے منسلک لوگوں کو ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ 15 سالہ فنی کیریئر میں ان کی پرفارمنس پر کبھی فحاشی کی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ گوجرانوالا، فیصل آباد یا لاہور کے کسی تھیٹر سے متعلق کوئی نازیبا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہر جگہ رقص پر مکمل پابندی عائد کرنا غیرمناسب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے فن سے روزگار کمانے میں مصروف ایک دیہاڑی دار فنکارہ ہیں جو گھر کے 10 افراد کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ مہنگائی اور بجلی کی بھاری قیمت نے پہلے ہی لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے اور اس پر یہ پابندی ان جیسے فنکاروں کے چولہے ٹھنڈے کر دے گی۔
ناز بھٹی کے نام سے معروف تھیٹر فنکارہ نجمہ بی چند برس سے اس انڈسٹری میں بطور رقاصہ کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومتی پابندی سے فنکار بے روزگار ہونے لگے ہیں۔
"میں گیتوں پر پرفارم کرتی ہوں اور ان کی ریہرسل سنسر بورڈ کی ہدایات کے مطابق ہوتی ہے جن میں نازیبا حرکت کرنے یا ناموزوں لباس پہننے کی ممانعت کی گئی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ان پر عمل درآمد کے باوجود پابندی کیوں لگائی گئی ہے۔ ایک پرفارمنس کا معاوضہ پندرہ سو سے دو ہزار روپے تک ملتا ہے جس سے میں اپنے یتیم بچوں کی کفالت کرتی ہوں۔ اس پابندی سے میرا روزگار ختم ہو جائے گا۔"
آرٹسٹ ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر و سنیئر فنکار رمضان شہزاد نے بتایا کہ ایسوسی ایشن میں 14 سے زیادہ فنکار رجسٹرڈ ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ رقص کے بغیر تھیٹر چلانا ممکن نہیں۔ پابندی کے نتیجے میں ملتان میں پہلے ہی 15 تھیٹر بند ہو چکے ہیں۔ کبھی ملتان میں نوشاب، معراج، سنگم، جہانزیب، گلستان، مقبول، خیام، تاج محل اور ریکس سمیت کل 18 تھیٹر ہوا کرتے تھے۔ اب ان کی تعداد صرف تین رہ گئی ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ سرکاری افسروں کی موجودگی میں گھروں میں ہونے والی رقص کی محفلوں کو تو کوئی نہیں روکتا۔ تمام تر نزلہ فنکاروں ہی پر گرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے فنکار ویلفیئر سپورٹ فنڈ قائم کیا گیا تھا جس کے ذریعے فنکروں کو صرف سات ہزار روپے سالانہ ملتے ہیں اور اس کے حصول بھی بہت مشکل ہے۔
تھیڑ اداکارہ سنبل خان کے مطابق پابندی لگانے کے بجائے قواعد وضوابط بنا کر ان پر عمل کیا جائے تو بہتر ہے ورنہ تھیٹر بالکل ختم ہو جائے گا۔
ڈرامہ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر زوار بلوچ کا تھیٹر انڈسٹری کے ساتھ گزشتہ کئی عشروں سے تعلق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان ڈرامہ ریکس تھیٹر ملتان میں پیش کیا جا رہا تھا جس کے لیے بیرون شہر سے بھی فنکار آئے تھے۔ آرٹس کونسل نے سکروٹنی کے بعد اس کی باقاعدہ منظوری دی اور اجازت نامے کا لیٹر بھی جاری کیا گیا لیکن نگران صوبائی وزیراطلاعات کے احکامات پر راتوں رات سب کچھ منسوخ کر دیا گیا۔ رات تین بجے چھاپہ مار کر ڈیرہ اڈا میں ریکس تھیٹر سیل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کارروائی کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔
"اس اقدام سے مجھے ایک ہفتے کے دوران 20 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ تھیٹر سے وابستہ چھ سے سات سو افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔"
یعقوب سید تھیٹر سے بطور ڈرامہ نگار وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تھیٹر نے کئی حوالوں سے سماج میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر تھیٹروں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کو بیدار کرنے والے ڈرامے بھی پیش کیے گئے۔ بدقسمتی سے چند لوگوں کے غیرمعیاری ڈراموں نے تھیٹر انڈسٹری کو یرغمال بنا لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
نہ والڈ سٹی اتھارٹی بنی، نہ فنڈ ملے: ملتان کے گھنٹہ گھر کا بُرا وقت بدلتے بدلتے پھر رک گیا؟
ان کا خیال ہے کہ جب تک فلم اور تھیٹر انڈسٹری کا گڑھ کراچی تھا یہ صنعت عروج پر تھی۔لاہور منتقلی کے بعد اس میں بدتہذیبی شامل ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کو بے ہودہ اور ذومعنی گانوں پر پابندی لگانی چاہیے لیکن کسی ایک واقعے کی آڑ میں تمام تھیٹروں کے سکرپٹ منسوخ کرنا دانش مندی نہیں۔
ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر سلیم قیصر کہتے ہیں کہ ڈرامہ سکرپٹ ایکٹ 1876 میں ترامیم کی گئی ہیں جن پر ابھی عمل درآمد ہونا ہے۔ اسی لیے تمام تھیٹروں کے ڈرامہ سکرپٹ فی الحال منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے جن تھیٹروں کو سیل کیا ہے انہیں ازسرنو اپنے سکرپٹ آرٹس کونسل جمع کرانا ہوں گے۔ ان کی منظوری کے بعد فل سنسر ریہرسل کرائی جائے گی۔
تھیٹر انڈسٹری سے وابستہ فنکار بلال بپی نے بتایا کہ ملک میں ہونے والی نجی محفلوں میں ڈانس کے حوالے سے کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں ہے۔ نجی محفلوں اور شادی بیاہ کی بعض تقریبات میں نیم برہنہ رقص بھی کروایا جاتا ہے جو قطعاً پنجاب کا کلچر اور تھیٹر کی روایت نہیں ہے۔ اب لوگ تھیٹروں میں بھی اسی طرح کے رقص کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس پابندی کی بدولت آنے والے دنوں میں تھیٹر کے ڈراموں میں بہتری دیکھنے کو ملےگی۔
تاریخ اشاعت 21 ستمبر 2023