عبد الحفیظ پنجاب فٹ بال بورڈ میں کوچ ہیں۔ وہ پہلے قومی فٹ بال ٹیم میں کھیلتے رہے تھے اور کئی ملکوں میں ہونے والی سپورٹس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ پنجاب فٹ بال بورڈ کے تحت دو ماہ بعد (جنوری 2024ء)میں صوبے کا انٹر ڈسٹرکٹ فٹ بال ٹورنا منٹ کرایا جا رہا ہے اور اس ایوںٹ کی میزبانی کے لیے گوجرانوالہ کا انتخاب کیا گیا ہے۔
مگر عبد الحفیظ لاہور سے جب ٹورنامنٹ کی مجوزہ سائیٹ یعنی گوجرانوالہ کے منی سٹیڈیم پہنچے تو سخت پریشان ہوگئے۔ گراؤنڈ میں گٹر ابل رہے تھے، ہر طرف سیوریج کا پانی اور کوڑے کے ڈھیر تھے۔ بدبو اور تعفن سے یہاں کھڑے ہونا محال تھا۔ یوں محسوس ہوا جیسے سٹیڈیم نہ ہو بلکہ فلتھ ڈپو ہو۔
انہوں نے فوری طور پر ڈپٹی کمشنر کو صوررت حال سے آگاہ کیا۔ جس پر واسا اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی ٹیمیں وہاں پہنچ گئیں۔ ہفتے بھر میں سٹیڈیم سے گندہ پانی نکال لیا گیا اور کوڑا بھی اٹھا لیا گیا ہے۔
عبد الحفیظ کہتے ہیں کہ ماضی میں اس منی سٹیڈیم میں قومی سطح کے سپورٹس بھی ہوتے رہے ہیں۔ اب عارضی طور پر تو صفائی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ لیکن جب تک سٹیڈیم سے ملحقہ آبادی کے سیوریج اور بارش کا پانی نکالنے کا مستقل انتظام نہیں ہوتا یہاں سپورٹس سرگرمیاں بحال نہیں ہو سکیں گی۔
پنجاب فٹ بال بورڈ نے پیپلز کالونی میں واقع فٹ بال گراؤنڈ کو متبادل کے طور پر تجویز کر رکھا ہے۔ یہ گراؤنڈ منی سٹیڈیم سے چھوٹا ہے مگر یہاں سیوریج کا مسئلہ نہیں ہے۔
گوجرانوالہ(بشمول وزیر آباد) 59 لاکھ 59 ہزار 750 نفوس کی آبادی کا ضلع ہے۔ جہاں صرف میٹروپولیٹن کارپوریشن کی حدود میں 24 لاکھ 15 ہزار 416 لوگ رہتے ہیں۔ ملک کی ایک تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ گوجرانوالہ 'پہلوانوں کا شہر' اور یہ ضلع کھیلوں کا گھر مانا جاتا ہے۔
اس ضلع میں کہنے کو تو کھیلنے کے لیے سات بڑے گراؤنڈ ہیں۔ ان میں سے جناح انٹر نیشنل سٹیڈیم گوجرانوالہ، منی سٹیڈیم، گوجرانوالہ ایجوکیشن بورڈ کمپلیکس، ڈی سی کالونی گراؤنڈ اور پیپلز کالونی گراؤنڈ شہر کے اندر واقع ہیں۔
لیکن صورتحال یہ ہے کہ گوجرانوالہ کے 52 رجسٹرڈ کرکٹ کلبز کے کھلاڑیوں کو کوئی ایک ایسی سرکاری جگہ میسر نہیں ۔جہاں وہ فیس ادا کیے بغیر باقاعدگی سے پریکٹس کر سکیں۔ ایجوکیشن بورڈ کمپلیکس اور ڈی سی کالونی گراؤنڈ میں ٹورنامنٹس کے لیے بھاری فیسیں مقرر کی گئی ہیں۔
گوجرانوالہ کا جناح سٹیڈم برسوں انٹرنیشنل کرکٹ میچز کی میزبانی کرتا رہا ہے۔ بھارتی کرکٹ لیجنڈ سچن ٹنڈولکر نے 1989ء میں انٹرنیشنل ون ڈے کیریئر کا آغاز اسی سٹیڈیم میں میچ سے کیا تھا۔ لیکن 2000ء کے بعد یہاں کوئی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا گیا۔
پی سی بی کی پالیسی کے تحت گوجرانوالہ میں فائیو سٹار ہوٹل بننے تک یہاں کوئی انٹر نیشنل کرکٹ میچ نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے شہر کے عین وسط میں واقع جناح سٹیڈیم پچھلے 23 سال سے سفید ہاتھی بن کر رہ گیا ہے۔
جناح سٹیڈیم اب عام کھلاڑیوں کی پہنچ سے دور ہے۔ یہاں اگر مقامی ٹیم نے میچ کھیلنا ہو تو اسے بیس ہزار روپے فیس دینا پڑتی ہے۔ البتہ یہ سٹیڈیم کبھی کبھی اجتماعات اور تفریحی پروگرام کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے جیسا کہ میوزک کنسرٹس وغیرہ ۔
سٹیڈیم میں پہلے دیسی کشتی کے مقابلے ہوا کرتے تھے لیکن محکمہ سپورٹس کو دنگل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے سٹیڈیم تو بند پڑا ہے مگر رنگ و روغن، معمول کا مرمتی کام، بجلی گیس کے بل اور ملازمین کی تنخواہوں کے اخراجات تو جاری ہیں۔
ریاض پہلوان 'ستارہ پاکستان' کا ٹائٹل جیت چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گوجرانوالہ ملک کا 'سپورٹس سٹی' ہے۔ یہاں کے پہلوان اور ویٹ لفٹرز وسائل نہ ہونے کے باوجود عالمی مقابلوں میں میڈل جیت رہے ہیں۔ اگر جناح سٹیڈیم کشتی اور ویٹ لفٹنگ کےلیے مختص کر دیا جائے تو یہ کھلاڑی تمغوں کی بھرمار کر سکتے ہیں۔
گوجرانوالہ شہر کے باہر کامونکی میں عبد الوکیل خان سٹیڈیم ہے۔ جہاں میونسپل کارپوریشن کامونکی سٹیڈیم میں کھیلوں کے لیے روزانہ کا دس سے پندرہ ہزار روپے کرایہ وصول کرتی ہے۔ دوسرا گکھڑ کا سپورٹس کمپلیکس ہے۔
دو عشروں میں ضلع کا واحد سپورٹس کمپلیکس سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے مارچ 2020ءمیں اپنے آبائی علاقے میں بنوایا تھا۔ 60 ہزار آبادی کے شہر گکھڑ میں یہ کمپلیکس ان کے والد کرنل اقبال باجوہ کے نام سےمنسوب ہے۔ جس پر ساڑھے 36 کروڑ روپے لاگت آئی تھی۔
کرنل باجوہ سپورٹس کمپلیکس میں کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال کے لیے الگ لگ گراؤنڈز ہیں۔ جبکہ باسکٹ بال، بیڈ منٹن اور لان ٹینس کورٹس سمیت مختلف کھیلوں کی سہولیات میسر ہیں۔ یہ سب سے جدید سپورٹس کمپلیکس ہے جہاں آسٹروٹرف بھی بچھائی گئی ہے۔
گوجرانوالہ سے 16 کلو میٹر دور یہ کمپلیکس اڑھائی سال سے صوبائی حکومت کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ یہاں بھی کسی ٹورنامنٹ کے انعقاد کےلیے سرکاری فیس ادا کرنا پڑتی ہے اور اس کی مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں۔
گوجرانوالہ شہر کے مختلف سرکاری کالجز اور سکولوں میں بھی گراؤنڈ موجود ہیں لیکن وہاں سکیورٹی ایشوز کے باعث سپورٹس سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ منی سٹیڈیم کی حالت ویسے ہی خراب ہے۔ یوں شہریوں کے لیےصرف پیپلز کالونی گراؤنڈ ہی رہ گیا ہے جہاں کھیلنے کی کوئی فیس نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کندیاں میں کھیلوں کا واحد میدان جہاں گائے بکریاں اور کتے بھی کھیلتے ہیں
پیپلز کالونی کا گراؤنڈ تو بہت وسیع ہے لیکن اسے کبھی اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔ اب یہاں بھی ارد گرد کوڑے کی بھرمار ہے۔ کالونی کے رہائشی مجاہد بٹ بتاتے ہیں کہ ایک تو لوگ یہیں کوڑا پھینک جاتے ہیں، دوسرا محکمے والوں نے بھی گراؤنڈ کے باہر کوڑا کنٹینرز رکھے ہوئے ہیں۔ جن کی وجہ سے ہر طرف تعفن ہوتا ہے۔
ڈپٹی کمشنر فیاض احمد موہل نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ منی سٹیڈیم سے بارش کا پانی نکالا جا چکا ہے اور اس کی حالت بہتر بنانے کے لیے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ جبکہ شہر کے دیگر گراؤنڈز اور باغات کی صفائی و بہتری کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نگار چوک پر سٹیٹ آف دی آرٹ سپورٹس کمپلیکس بنانے کی منظوری دے چکی ہے اور اس منصوبے پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا۔
ڈویژنل سپورٹس افسر فیصل امیر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہوں نے دو روز قبل ہی اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے۔ وہ ابھی منی سٹیڈیم سمیت مختلف گراؤنڈز کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 1 نومبر 2023