'بیج مہنگے ملتے ہیں اور فصل سستی بکتی ہے'، تھرپارکر کے کسان مقامی فصلوں کی امدادی قیمتیں مقرر کرنے کے خواہاں

postImg

جی آر جونیجو

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'بیج مہنگے ملتے ہیں اور فصل سستی بکتی ہے'، تھرپارکر کے کسان مقامی فصلوں کی امدادی قیمتیں مقرر کرنے کے خواہاں

جی آر جونیجو

loop

انگریزی میں پڑھیں

تھرپارکر کے محمد شریف جونیجو پچھلے پینتیس سال سے کھیتی باڑی کر رہے ہیں لیکن کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ان کی فصل اچھے داموں فروخت ہو جائے۔ جب وہ فصل کا بیج خریدنے جاتے ہیں تو اس کے نرخ چڑھے ہوتے ہیں اور جب وہ اپنی پیداوار لے کر منڈی پہنچتے ہیں تو اس کی قیمت گر چکی ہوتی ہے۔

شریف کا تعلق تھرپارکر کے گاؤں ڈابھڑو سے ہے۔ اس پورے علاقے میں زراعت کا دارومدار بارش پر ہوتا ہے۔ بارش بروقت اور اچھی ہو تو فصل اچھی ہو جاتی ہے وگرنہ انہیں اس سے کوئی خاص آمدن نہیں ہوتی۔ اسی لیے انہوں نے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے 25 بکریاں بھی پال رکھی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال انہوں نے گوار کا بیج سات ہزار روپے فی من کے حساب سے خریدا تھا۔

"فصل تیار ہوئی تو منڈی میں اس کا فی من ریٹ دو ہزار 800 سے تین ہزار 200 روپے تک نکلا"۔

اس برس انہیں فی من بیج آٹھ ہزار روپے میں ملا ہے جو ان کے بقول بارشوں کا موسم شروع ہونے کے بعد مزید مہنگا ہو جائے گا۔

یہی حال باجرے کا ہے جس کا بیج انہوں نے پچھلے سال چھ ہزار روپے من میں خریدا تھا مگر ان کی فی من پیداوار دوہزار 900 روپے میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے موٹھ کا بیج آٹھ ہزار روپے من کے حساب سے خریدا جس کی فصل تین ہزار 800 روپے فی من کے ریٹ پر بکی۔

شریف کہتے ہیں کہ اس مرتبہ موٹھ کے بیج کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے لیکن انہیں خدشہ ہے کہ چار ماہ بعد جب فصل تیار ہو گی تو اس کے قیمت گر چکی ہو گی کیونکہ وہ سالہا سال سے یہی دیکھتے چلے آئے ہیں۔

" چار ماہ کی محنت کے بعد فصل سے اتنی آمدن بھی نہیں ہوتی کہ چھ سے آٹھ ماہ گزار سکوں۔ جب پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو اپنی بکریاں بیچ کر گھر چلاتا ہوں۔ گھر میں شادی بیاہ ہو یا کوئی بیمار پڑ جائے تو قرض لینا پڑتا ہے"۔

تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو کے کاشت کار گلاب را کہتے ہیں کہ اس علاقے میں کھیتی باڑی سے اتنی آمدن نہیں ہوتی کہ اس سے گھر کا سالانہ خرچ پورا ہو سکے۔ انہوں نے بھی شریف جونیجو کی طرح چند بھیڑ بکریاں پال رکھی ہیں جو آڑے وقت میں ان کے کام آتی ہیں۔

گلاب کہتے ہیں کہ اگر سرکار ہر سال اس علاقے کی مخصوص فصلوں کی امدادی قیمت مقرر کرے، تبھی یہاں کھیتی باڑی کرنے میں فائدہ ہے۔

"سرکار صرف گندم، گنے اور کپاس کی امدادی قیمتوں کا اعلان کرتی ہے۔ اگرچہ ان پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہوتا لیکن تھوڑا بہت فائدہ ضرور ہو جاتا ہے"۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں زیادہ تر کسان گوار کاشت کرتے ہیں کیوں کہ اس کی فصل سخت گرمی اور بارش میں تاخیر کے باوجود قائم رہتی ہے۔

باجرا نسبتاً کم لوگ کاشت کرتے ہیں کیوں کہ اس پر زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ جب اس کی فصل تیار ہونے لگتی ہے تو ڈھائی ماہ تک اس کی دیکھ بھال کرنا خصوصاً اسے پرندوں سے بچانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اس کی قیمت سب فصلوں سے کم ملتی ہے اور زیادہ تر لوگ اسے گھر میں بطور خوراک استعمال کرنے کے لیے رکھ لیتے ہیں۔

چھاچھرو میں گوار کے کاشت کار بیجل کولہی ٹریکٹر کے ذریعے فصل کی بوائی کرواتے ہیں جس پر فی گھنٹہ ڈھائی ہزار روپے کے حساب سے تقریباً ساڑھے سات ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔

گزشتہ برس انہوں نے پانچ ہزار روپے دے کر بوائی کروائی تھی، بیج کا خرچ الگ تھا اور فصل پر ان کے بیٹے بیٹیوں اور بیوی نے بھی کام کیا۔

جب وہ اپنی فصل لے کر منڈی میں گئے تو وہ 21 ہزار روپے میں بکی۔

بیجل کہتے ہیں کہ گوار پر آمدن نہ ہونےکے برابر ہے۔ اس لیے اکثر وہ اپنی فصل کو بطور سبزی استعمال کرنے کے لیے گھر میں ہی رکھ لیتے ہیں۔

" کھیتی باڑی سے فائدے کی امید نہ ہو تو ہم شہر جا کر مزدوری کرتے ہیں۔یہی حالات رہے تو انہیں کاشت کاری چھوڑنا پڑے گی"۔

مٹھی میں ان دِنوں دکانوں پر گوار آٹھ ہزار روپے فی من، باجرا چار ہزار روپے فی من، مونگ ساڑھے چھ ہزار ، موٹھ چار ہزار 800 روپے اور تل 500 روپے فی کلو مل رہا ہے۔

تھرپارکر کی یہی مخصوص فصلیں ہیں جنہیں تیار ہونے میں تین سے چار ماہ لگتے ہیں۔

تھر پارکر کی تحصیل اسلام کوٹ میں ٹریڈر ایسوسی ایشن کے صدر کلدیپ پاروانی کسانوں کو فصلوں کی کم قیمت ملنے کا ذمہ دار برآمد کنندگان کو ٹھہراتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے علاقے میں اکثر کسان گوار کاشت کرتے ہیں۔ گوار بیرون ملک برآمد ہوتا ہے کیونکہ اس کا پاؤڈر مختلف صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیٹرجنٹ انڈسٹری بھی گوار خرید کر کام میں لاتی ہے۔

کلدیپ کے بقول فصل تیار ہونے کے بعد برآمد کنندگان تھرپار میں آتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ اس مرتبہ فصل کیسی ہوئی ہو گی؟

اگر انہیں محسوس ہو کہ فصل اچھی ہے تو وہ اس کی قیمت میں کمی کر دیتے ہیں۔ اگر فصل اچھی نہ ہو تو کسانوں کو مناسب دام مل جاتے ہیں۔

" موٹھ اور مونگ حیدرآباد اور کراچی کی دال ملوں میں فروخت ہوتی ہے اور ان دونوں کی قیمت بھی وہی فیکٹریاں طے کرتی ہیں۔ باجرا عام مارکیٹ میں بکتا ہے اور اس کی قیمت طے کرنے میں بڑے شہروں کے تاجروں کا نمایاں کردار ہوتا ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سندھ میں سستے آٹے کے حصول کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟

تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر لال ڈنو منگی مقامی فصلوں کی سرکاری قیمت سالانہ بنیادوں پر طے کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے متعلقہ ادارے تو موجود ہیں لیکن وہ اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہے۔

وہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ اس مرتبہ وہ تمام اداروں سے رابطہ کر کے فصلوں کا سرکاری ریٹ مقرر کرنے کے لیے کمیٹی بنائیں گے جس کے فیصلوں پر عمل بھی کروایا جائے گا۔

"پرائس کنٹرول کمیٹی کو ہدایات دی جائیں گی کہ وہ ان فصلوں کی قیمتوں کی موثر نگرانی کرے"۔

کلدیپ تجویز کرتے ہیں کہ حکومت گندم کی طرح تھرپارکر کی مقامی فصلوں کے بھی خریداری پوائنٹ قائم کر کے اپنے مقررہ نرخوں پر فصل خریدے تو کسانوں کو جائز قیمت ملے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت تھرپارکر میں اپنے گودام قائم کر کے ان میں گوار اور دیگر فصلیں خرید کر رکھے تو ناصرف منڈی میں ان کے بیجوں کی قیمت مناسب حدود میں رہے گی بلکہ پیداوار کی قیمتوں میں ناجائز کمی کے مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔

"جب حکومت خود ان فصلوں کو فروخت کرے گی تو ناصرف کسانوں بلکہ مقامی لوگوں اور تاجروں کو بھی فائدہ ہو گا"۔

تاریخ اشاعت 13 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.