تھرپارکر کے سراج سمیجو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس مٹھی میں بطور ڈیٹا پروسیسنگ افسر کام کرتے ہیں۔ وہ سجاکڑی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور نوکری کے لیے انہیں ہر ماہ کے پہلے ہفتے 85 کلومیٹر سفر کر کے عمرکوٹ آنا ہوتا ہے۔ ان کے 14 سالہ بیٹے اعظم سمیجو قوت سماعت و گویائی سے محروم ہیں جو عمرکوٹ میں خصوصی بچوں کے سکول (گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن سنٹر) میں زیر تعلیم ہیں۔
چونکہ اس سکول کا ہاسٹل نہیں ہے اس لیے چھ سال سے ان کا پورا گھرانہ عمر کوٹ میں ہی مقیم ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ اگر ہاسٹل کی سہولت میسر ہوتی تو گھر دیگر لوگ سجاکڑی میں ہی مقیم رہتے۔
تاہم اب انہیں یہ پریشانی لاحق ہے کہ ان کا بیٹا آٹھویں کے بعد تعلیم کیسے جاری رکھ پائے گا۔ عمرکوٹ میں خصوصی بچوں کا یہ ادارہ آٹھویں جماعت تک ہی تعلیم دیتا ہے اور میٹرک کرانے کے لیے انہیں بیٹے کو اپنے گاؤں سے 162 کلومیٹر دور میرپورخاص بھیجنا پڑے گا۔
سراج سمیجو بتاتے ہیں کہ ان کا بچہ انتہائی ذہین ہے۔خاندان کو عمر کوٹ میں رکھنے کے باعث انہیں ہر ماہ پچاس ہزار روپے اضافی اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔ میرپورخاص میں ان کے لیے بچے کی تعلیم جاری رکھنا آسان نہیں ہو گا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب 30 کروڑ یعنی کل عالمی آبادی کا 16 فیصد افراد معذور ہیں۔ پاکستان کے شماریاتی بیورو کے سماجی اور معیار زندگی (پی ایس ایل ایم ) سے متعلق 20-2019ء کے جائزے کے مطابق ملکی آبادی میں معذور افراد کی شرح 6.2 فیصد ہے۔ تاہم اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ شرح زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
سندھ میں خصوصی بچوں کی تعلیم کے ادارے پہلے محکمہ سماجی بہبود کے تحت ہوا کرتے تھے۔ 2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق کے زیر انتظام 12 خصوصی ادارے صوبے کے سپرد کیے جانا تھے تو یہاں بھی 2011ء میں محکمہ خصوصی تعلیم قائم کر دیا گیا۔
سندھ میں اس وقت خصوصی بچوں کی تعلیم کے 54 ادارے کام کر رہے ہیں۔عمرکوٹ میں خصوصی بچوں کا سکول 2012ء میں قائم ہوا تھا۔ اس سکول میں پڑھانے والے بھرت کمار اسی سکول میں ٹیچر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے یہ ادارہ پولیس لائنز کے قریب ایک سرکاری سکول کی ایک کمرے کی عمارت میں شروع کیا گیا۔پھر اسے شہر سے پانچ کلومیٹر دور بوائز ہائی سکول وھرو شریف کے دو کمروں میں شفٹ کر دیا گیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے چند سال سے اس ادارے کو شوانی محلے کے خالی گرلز پرائمری سکول میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ موجودہ عمارت میں پانچ کمروں میں سے چار کو بطور کلاس روم اور ایک کو دفتر کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔یہاں پینے کا پانی، بجلی اور واش روم بھی موجود ہیں۔
میرپورخاص ڈویژن میں خصوصی بچوں کے لیے کل چھ ادارے ہیں۔ ان میں تین میرپورخاص شہر ہی میں ہیں جہاں دو اداروں میں آٹھویں اور ایک میں میٹرک تک تعلیم دی جاتی ہے۔باقی تین میں سے ایک ڈگری شہر ، ایک مٹھی اور ایک عمرکوٹ میں ہے۔ ان تینوں میں آٹھویں تک پڑھایا جاتا ہے۔
خصوصی ادارے (سکول) کی انتظامیہ کے مطابق 11 لاکھ 59 ہزار آبادی کے ضلع عمر کوٹ میں خصوصی بچوں کی تعداد تقریباً 1200 ہے۔ لیکن سہولیات کی کمی اور والدین کی عدم دلچسپی کے سبب ایسے بیشتر بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
اس سکول کے آفس اسسٹنٹ عبدالرزاق خاصخیلی بتاتے ہیں کہ 2020ء میں سکول کے اساتذہ نے عمر کوٹ کا سروے کیا تو پتہ چلا کہ شہر میں لگ بھگ 200 بچے سپیشل (معذور) درجے میں آتے ہیں۔لیکن بہت کوشش کے باوجود تاحال صرف 55 بچے ہی سکول میں داخل ہو سکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کو پاکستان سائن لینگویج (پی ایس ایل)کے تحت تعلیم دی جاتی ہے اور ووکیشنل ٹریننگ یعنی ٹیلرنگ وغیرہ کا کام بھی سکھایا جاتا ہے جبکہ بصارت سے محروم بچوں کو بریل لینگویج میں تربیت دی جاتی ہے۔
خاصخیلی نے بتایا کہ سکول میں جسمانی معذور15، بصارت سے محروم پانچ ،سماعت وگویائی سے محروم 21 اور ذہنی پسماندگی اور ایک سے زیادہ مسائل کا شکار 14بچے زیرتعلیم ہیں۔ لڑکیوں کی کل تعداد صرف نو ہے جبکہ یہاں کے تربیت یافتہ کچھ بچے شہر میں کام بھی کر رہے ہیں۔
عبداللہ کھوسو عمرکوٹ میں سندھ ہیومن رائیٹس ڈیفینڈر فورم کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سکول میں بچوں کی کم تعداد کی بڑی وجہ آگاہی کی کمی اور منفی سماجی رویہ ہے۔ بیشتر لوگ معذور بچوں کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور بچیوں کو 'عدم تحفظ' کے نام پر سکول بھیجنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
عمرکوٹ میں اس ادارے کا سالانہ بجٹ دو کروڑ 30 لاکھ روپے ہے۔ اس میں دو کروڑ دس لاکھ روپے سٹاف کی تنخواہوں کے لیے مختص ہیں۔باقی رقم سے بچوں کو سٹیشنری، جوتے، سکول یونیفارم اور روزانہ ایک وقت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی فی بچہ دو ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔
ادارے کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہاں سپیچ تھراپسٹ، فزیو تھراپسٹ اور سائیکالوجسٹ کی پوسٹیں 2012ء سے خالی پڑی ہیں ۔اسی طرح سپیشل ایجوکیشن ٹیچر گریڈ 17 کی دو اور جونیئر سپیشل ایجوکیشن ٹیچر گریڈ 16کی ایک پوسٹ بھی خالی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
زنجیریں توڑ کر اولمپکس مشعل اٹھانے والی ثنا کپری: جھڈو کی سپیشل ایتھلیٹ نے علاقے کی پہچان بدل دی
چوالیس سالہ وین ڈرائیور شوکت راجڑ بتاتے ہیں کہ وہ سکول کے 55 بچوں کو گھروں سے لے کر آتے ہیں اور ڈراپ بھی کرتے ہیں۔ انہیں صبح لینے اور سہ پہر کو واپس پہنچانے کے لیے چار چار چکر لگانا پڑتے ہیں کیوںکہ سکول وین میں چھ نشستیں ہیں اور اس میں زیادہ سے زیادہ 15 بچوں کو بٹھانے کی گنجائش ہے۔
محکمہ سپیشل ایجوکیشن سندھ نے گیارہ برس بعد بالآخر عمرکوٹ کے خصوصی بچوں کے ادارے کی نئی عمارت کے لیے چھ کروڑ روپے کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کا ٹینڈر بھی ہو چکا ہے لیکن ابھی کام کا آغاز نہیں ہوا ہے۔تاہم یہاں بچوں کے والدین کے لیے آٹھویں کے بعد تعلیم سنگین مسئلہ ہے۔
خصوصی بچوں کے اداروں کے ریجنل ڈائریکٹر منیر احمد بھٹی بتاتے ہیں کہ عمرکوٹ میں ادارے کی نئی بلڈنگ ایک سال میں مکمل ہو گی۔جیسے ہی عمارت محکمے کو ملے گی وہاں میٹرک کی کلاسز شروع کر دی جائیں گی۔
انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ آئندہ ماہ تک عمر کوٹ سپیشل سکول کو نئی وین بھی مل جائے گی۔اس کے بعد دیہات کے بچے بھی سکول آئیں گے اور ان کی رہائش کے لیے ہاسٹل بھی قائم ہو جائے گا۔
تاریخ اشاعت 4 اکتوبر 2023