شیخوپورہ سے پنڈی بھٹیاں جانے والی سڑک گرد کی ایک بھاری تہہ کے نیچے چھپی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ بنے گھر اور ان میں رہنے والے لوگ بھی مٹی کی ایک تہہ میں لپٹے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی حال اس علاقے میں لگی فصلوں کا ہے جو سراسر دھول میں اٹی دکھائی دیتی ہیں۔
اس گرد آلود منظر میں سلطان احمد بھٹی کا نام روشنی کی ایک کرن معلوم ہوتا ہے۔
سکھیکی منڈی نامی قصبے کے جنوب میں واقع ان کا گاؤں عمدہ چاول کی کاشت کے لئے مشہور ضلعے حافظ آباد کا حصہ ہے۔ یہ ضلع اس سال چاول کی فصل کی باقیات جلانے میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری اہل کاروں نے نو نومبر تک حافظ آباد میں کھیتوں میں آگ لگانے کے 1415 واقعات کی نشان دہی کی۔
لیکن سلطان احمد بھٹی اپنی فصل کی باقیات بالکل نہیں جلاتے۔
وہ چاول کی کٹائی کے بعد بچ جانے والے مڈھوں اور ڈنٹھلوں کو زمین میں ہی ملا دیتے ہیں اور پھر اسی میں ہل چلائے بغیر گندم کا بیج ڈال دیتے ہیں۔ وہ اپنے کھیتوں میں کیمیائی کھادیں بھی استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی فصلی کیڑوں کو مارنے اور جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنی فصلوں میں زہروں کا چھڑکاؤ کرتے ہیں۔
اہلیانِ علاقہ اکثر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن وہ مستقل مزاجی سے اپنے خاص طریقہِ کاشت کی پیروی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: 'پانچ سال پہلے میں بھی دوسرے کسانوں کی طرح اپنی فصل کی باقیات کو جلاتا تھا'۔
ان کے مطابق چاول کے مڈھوں اور ڈنٹھلوں کو جلانے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چاول کی فصل اٹھانے کے بعد گندم بونے کے لئے کسانوں کو صرف پندرہ سے بیس دن دستیاب ہوتے ہیں۔ اگر گندم کی بوائی میں تاخیر ہو جائے تو نا صرف اس کی پیداوار کم ہو جاتی ہے بلکہ اس پر کھاد وغیرہ کا خرچہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے کسان چاول کی باقیات سے نجات حاصل کرنے کے لئے کسی تیز اور سستے حل کی تلاش میں ہوتے ہیں جو پچھلے کچھ سالوں سے انہوں نے کھیتوں میں آگ لگانے کی شکل میں ڈھونڈ رکھا ہے۔
لیکن 2015-16 میں سلطان احمد بھٹی نے اس کے متبادل طریقے ڈھونڈنا شروع کر دیے۔ اگرچہ انہوں نے ایف ایس سی تک ہی تعلیم حاصل کی ہے لیکن وہ زمین کی زرخیزی کے بارے میں ماہرین کی لکھی ہوئی تحقیقی رپورٹوں کا مطالعہ کرنے لگے اور مختلف یونیورسٹیوں میں زرعی معاشیات کے استادوں سے بھی رابطے بنانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں اپنی سو ایکڑ خاندانی زمین کے ایک چوتھائی حصے پر بغیر ہل چلائے اور کیمیائی مادوں سے پرہیز کر کے فصل کاشت کرنے کے تجربات شروع کئے۔
پہلے تین سال ان کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا لیکن اگلے دو سالوں میں ان کی پیداوار دیگر کسانوں کی پیداوار سے بڑھ گئی۔ اب انہوں نے اپنی تمام زمین پر اپنے مخصوص طریقے سے کاشت کاری شروع کر دی ہے۔
سلطان احمد بھٹی گندم کاشت کرنے کے اپنے طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'یہ طریقہ کار بہت سادہ ہے۔ جب ایک دفعہ دھان کی فصل کی کٹائی ہو جاتی ہے تو میں کھیت میں ایک ملچ (mulch) مشین استعمال کرتا ہوں جو ٖفصل کی باقیات کو زمین پر لٹا دیتی ہے۔ اس کے بعد ایک دوسری مشین (no till seeder) کی مدد سے کھیت میں بغیر ہل چلائے گندم کی بوائی کر دیتا ہوں'۔
ان کے مطابق اس طریقہ کار کے ذریعے فصل بونے پر فی ایکڑ صرف ایک ہزار روپے خرچہ آتا ہے جبکہ دیگر کسانوں کے ہاں مروجہ طریقہ کار سے ایک ایکڑ گندم کی بوائی کرنے پر سات ہزار سے آٹھ ہزار روپے لگتے ہیں۔ 'اس طریقہِ کاشت سے ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچا سکتا ہے اور یہ زمین کے اندر موجود قدرتی نامیاتی مادوں کو بھی پروان چڑھاتا ہے جس سے زمین کی زرخیزی برقرار رہتی ہے'۔
سلطان احمد بھٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ نا صرف چاول اور گندم کی فصلیں اپنے مخصوص طریقہِ کار سے اگاتے ہیں بلکہ وہ اس سے چارہ بھی کاشت کرتے ہیں۔ وہ زمین کو روائتی طریقے سے پانی لگانے کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کھیتوں میں پانی کھڑا کرنے (جسے انگریزی میں puddling کہا جاتا ہے) سے زمین میں موجود ایسے بیکٹیریا اور کیڑے مکوڑے ختم ہو جاتے ہیں جو فصلوں کی بڑھوتری کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔
دوسرے کسانوں کو بھی کاشت کاری کا یہی طریقہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'اگر کسان آہستہ آہستہ اپنی زمین پر ہل کے استعمال میں کمی لے آئیں تو اسکے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک تو ایسا کرنے سے ان کی توانائی پر لاگت میں کمی آئے گی اور دوسرے ان کی زمین کی قدرتی ساخت کو پروان چڑھنے کا موقع ملے گا'۔
لیکن انہیں احساس ہے کہ مروجہ طریقے کو چھوڑ کر ان کے اپنائے ہوئے طریقے پر آنا ان جیسے بڑے زمینداروں کے لئے نسبتاً آسان ہے کیونکہ وہ اس کے لئے درکار مشینری یا تو درآمد کر سکتے ہیں یا مقامی طور پر بنوا سکتے ہیں۔ وہ اس کے ابتدائی سالوں میں ہونے والا مالی خسارہ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔
لیکن ایسے کسانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ چھوٹے کسان – جن کے پاس پانچ ایکڑ یا اس سے کم زمین ہے – اس وقت پنجاب کی زرعی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں۔ ان کے لئے یہ طریقہِ کار اختیار کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک حکومت ان کی بھرپور مالی اور تکنیکی معاونت نہ کرے۔
سلطان احمد بھٹی کا کہنا ہے: 'حکومت کو چاہیے کہ وہ چھوٹے کسانوں کو مشینری کی خریداری یا اس کو کرائے پر لینے کے لئے نقد رقوم یا دوسری مالی ترغیبات فراہم کرے'۔
ماہرانہ رائے
فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں زرعی معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر تسنیم خالق سلطان احمد بھٹی کے طرزِ کاشت سے متفق ہیں۔ چاول کی باقیات کی تلفی کے بارے میں خاص طور پر ان کا کہنا ہے کہ 'اب ایسی مشینری موجود ہے جس سے آپ ان باقیات کو کھیت سے ختم کئے بغیر گندم کاشت کر سکتے ہیں'۔
ان کے مطابق ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چاول کی باقیات کو زمین میں دبا دیا جائے تا کہ یہ زمین کے لئے نامیاتی کھاد کا کام دے سکیں۔ 'اس سے نا صرف گندم کی پیداوار اچھی ہو گی بلکہ اس کی کاشت کے اخراجات میں بھی بچت ہو گی'۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'چاول کے پودے میں ایسے بہت سے نامیاتی مادے موجود ہوتے ہیں جو نائٹروجن کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اس میں پوٹاشیم ، فاسفورس، زنک اور کوبالٹ بھی موجود ہوتے ہیں جو زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی زمین میں موجودگی کے باعث فصل کو مصنوعی کیمیائی کھادوں کی ضرورت نہیں رہتی جس سے پیدوارای اخراجات کم ہو جاتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں
چاول کی فصل کے ڈنٹھل غلط طریقے سے تلف کرنے کے ماحولیاتی اثرات: کھیتوں میں لگی آگ کو کون روکے گا؟
لیکن جب ہم چاول کی باقیات کو جلاتے ہیں تو 'یہ سارے قیمتی نامیاتی مادے جل جاتے ہیں اورہمیں صرف راکھ حاصل ہوتی ہے'۔ مزید برآں 'کھیت میں لگائی جانے والی آگ سے پیدا ہونے والے درجہ حرارت کی وجہ سے بہت سے ایسے ماحول دوست کیڑے بھی مر جاتے ہیں جو فضا سے براہ راست نائٹروجن جذب کر کے زمین کی زرخیزی کو بحال رکھتے ہیں'۔
پانچ سال پہلے میں بھی دوسرے کسانوں کی طرح اپنی فصل کی باقیات کو جلاتا تھا۔ پہلے تین سال خاصا نقصان اٹھانا پڑا لیکن اگلے دو سالوں میں میری فصل کی پیداوار دیگر کسانوں کی پیداوار سے بڑھ گئی۔
دھان کی فصل کی کٹائی کے بعد میں کھیت میں ایک ملچ (mulch) مشین استعمال کرتا ہوں جو ٖفصل کی باقیات کو زمین پر لٹا دیتی ہے۔ پھر ایک دوسری مشین (no till seeder) کی مدد سے کھیت میں بغیر ہل چلائے گندم کی بوائی کر دیتا ہوں۔
میرے طریقہ کار کے ذریعے فصل بونے پر فی ایکڑ صرف ایک ہزار روپے خرچہ آتا ہے جبکہ روائتی طریقہ کار سے ایک ایکڑ گندم کی بوائی کرنے پر سات ہزار سے آٹھ ہزار روپے لگتے ہیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 10 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 28 فروری 2022