سندھ ہندو میرج ایکٹ: 'شیڈولڈ کاسٹ ہندو عورتوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ قانونی طریقے سے طلاق لے سکتی ہیں'۔

postImg

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سندھ ہندو میرج ایکٹ: 'شیڈولڈ کاسٹ ہندو عورتوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ قانونی طریقے سے طلاق لے سکتی ہیں'۔

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

رادھا کے پاس جوتے نہیں ہیں۔ انہیں ہر روز اپنے گھر سے تپتے راستوں پر ننگے پاؤں چل کر کھیتوں میں کام کے لئے جانا پڑتا ہے۔

15 سالہ رادھا اپنی والدہ پپی بی بی اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ درگاہ راہو مشاق نامی گاؤں میں رہتی ہیں جو ضلع ٹنڈو الہ یار کی تحصیل جھنڈو مری میں واقع ہے۔ ان کا گھر حیدر آباد سے میر پور خاص جانے والی شاہراہ سے دو کلومیٹر مشرق کی جانب مویشیوں کے ایک بہت بڑے باڑے کے اندر واقع ہے۔ کپاس کے لہلہاتے کھیتوں اور کیلے کے باغات میں گھری یہ جگہ بظاہر کافی خوبصورت نظر آتی ہے لیکن یہاں پپی بی بی اور اس کے بہن بھائیوں سمیت 20 کے قریب افراد تین کچے کمروں میں رہتے ہیں جن میں وہ اپنی چارپائیوں، کپڑوں لتوں اور برتنوں کے درمیان ہی کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے ہیں۔

سرکاری حساب سے پپی بی بی محض 31 سال کی ہیں لیکن وہ اپنی عمر سے کافی بڑی لگتی ہیں۔ ان کے گندمی چہرے کی جھریاں اور ہاتھوں کی معدوم ہوتی لکیریں ظاہر کرتی ہیں کہ ان کی زندگی بہت مشکلات کا شکار ہے۔ کیکر کے درخت کی چھاؤں میں ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے جب وہ اپنے شوہر سے علیحدگی کی داستان سناتی ہیں تو ان کے چہرے پر رنج، غصے اور بے بسی کے آثار بیک وقت دیکھے جا سکتے ہیں۔

پپی بی بی کی شادی لگ بھگ 20 سال پہلے موہن نامی شخص سے ہوئی تھی جس کا تعلق ان کی اپنی شیڈولڈ کاسٹ ہندو برادری سے ہے۔ وہ اس وقت انتہائی کم سِن تھیں پھر بھی ان کا شوہر اکثر شراب اور چرس کے نشے میں دھت ہو کر انہیں لکڑی کے ڈنڈے سے پیٹتا تھا۔ اپنی کنپٹی پر زخم کے ایک بڑے سے نشان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ اس مار پیٹ کی وجہ سے انکا سر پھٹ گیا جس کے علاج کے لئے انہیں پانچ ٹانکے لگوانا پڑے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے شوہر کے کچھ دوسری عورتوں سے تعلقات تھے جنہیں وہ اپنے گھر بھی لے آتا تھا۔

جب پپی بی بی کے اندر یہ تشدد اور بے وفائی برداشت کرنے کی ہمت نہ رہی تو ان کی برادری کے بزرگوں نے دونوں میں علیحدگی کرا دی جس کی شرائط کے تحت موہن کو پابند کیا گیا کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کے لئے پپی بی بی کو ہر مہینے تین ہزار روپے دے گا۔ لیکن وہ کہتی ہیں اس نے آج تک انہیں ایک روپیہ بھی نہیں دیا حالانکہ اس دوران وہ کئی بار ان کے ساتھ رہتا بھی رہا ہے جس کے نتیجے میں رادھا کی دس سالہ بہن اور پانچ سالہ بھائی پیدا ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ موہن ٹنڈو الہ یار ہی کے علاقے سلطان آباد میں ایک خوش حال زندگی بسر کر رہا ہے۔ ان کے مطابق "اس کے پاس اڑھائی ایکڑ اپنی زمین ہے اور اسکے علاوہ وہ ایک مقامی زمیندار کی زمینوں پر بھی کام کرتا ہے لیکن یہ سب وسائل ہونے کے باوجود وہ اپنے بچوں کی خبر تک نہیں لیتا"۔

نتیجتأ پپی بی بی پچھلے کئی سال سے کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں لیکن ان کی آمدنی اس قدر محدود ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کھانے پینے اور پہننے کی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتیں۔

ان کے لئے سب سے بڑی پریشانی کی بات رادھا کی شادی ہے۔ چونکہ ان کی برادری میں لڑکیوں کی شادیاں انتہائی کم عمری میں کر دی جاتی ہیں اس لئے ان کے رشتے دار انہیں طعنے دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی ابھی تک کنواری بیٹھی ہوئی ہے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے وہ روہانسی ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں: "میں کس طرح اپنی بیٹی کی شادی کروں جب میرے لئے اسے ایک وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل ہے؟"

وہ چاہتی تو ہیں کہ پولیس یا عدالت کے ذریعے اپنے شوہر کو مجبور کر سکیں کہ وہ انہیں بچوں کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ اس کے لئے انہیں کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ سندھ اسمبلی نے 2016 میں سندھ ہندو میرج ایکٹ کے نام سے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے تحت انہیں ایسا کرنے کا قانونی حق دیا گیا ہے۔

تاہم پولیس یا عدالت سے رجوع کرنے میں پپی بی بی کو درپیش سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ان کے پاس شادی شدہ ہونے کا کوئی دستاویزی ثبوت ہی نہیں۔ ان کے پاس نہ تو نکاح نامہ موجود ہے اور نہ ہی اپنے بچوں کی پیدائش کا کوئی سرٹیفیکیٹ جس کی بنا پر وہ دعویٰ کر سکیں کہ وہ موہن کی بیوی ہیں۔ واحد شناختی دستاویز جو ان کے پاس موجود ہے وہ ایک زائد المیعاد شناختی کارڈ ہے لیکن اس میں بھی ان کے شوہر کے نام کے بجائے ان کے والد کا نام لکھا ہوا ہے۔

جھنڈو مری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن بابو لال کہتے ہیں کہ ان کاغذات کے نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں رہنے والے شیڈولڈ کاسٹ ہندو زیادہ تر اپنی مذہبی روایات کے تحت شادیاں کرتے ہیں جو کسی سرکاری دفتر میں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔ ان کے مطابق "شیڈولڈ کاسٹ سے تعلق رکھنے والی ہندو برادریوں کو معلوم ہی نہیں کہ ملک میں ایسے قوانین بھی موجود ہیں جن کے تحت وہ اپنی شادیوں اور اپنے بچوں کی پیدائش کا اندراج مقامی یونین کونسلوں میں کرا سکتے ہیں"۔

بابو لال کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ان کاغذات کی اہمیت کا احساس تب ہوتا ہے جب ان کے پاس اپنے حقوق کے حصول کے لئے حکومتی اداروں اور عدالتوں سے رجوع کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ لیکن ان کے بقول "جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ شناختی دستاویزات کی عدم موجودگی میں انہیں یہ راستہ اختیار کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تو وہ اپنی جہالت، غربت اور قسمت کو کوسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے"۔

طلاق تو مِل گئی لیکن۔۔۔

نومی بی بی کی عمر 37 سال کے قریب ہے۔ وہ ضلع میرپور خاص کے علاقے عیسیٰ خان موری میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہیں لیکن آج کل وہ میرپور خاص شہر میں واقع مبارک کالونی میں اپنی بہن کے پاس رہائش پذیر ہیں جہاں وہ اور ان کے چار بچے ایک چھوٹے سے کمرے میں گزر بسر کرتے ہیں۔

ان کے کمرے میں بجلی کی سہولت موجود نہیں اس لیے انکے 16 سالہ بیٹے مکیش نے دو چھوٹی برقی بیٹریوں کی مدد سے ایک پنکھا چلا رکھا ہے جو مشکل سے دو افراد کو ہوا مہیا کر سکتا ہے۔ مکیش کے علاوہ نومی کے دو اور بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو عمر میں سب بہن بھائیوں سے بڑی ہے۔

کمزور اور دبلی پتلی نومی بہت ہی دھیمی اور سہمی ہوئی آواز میں بات کرتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ 17 سال کی تھیں جب 2001 میں ان کے والدین نے انکی شادی ان کی اپنی کولہی برادری سے تعلق رکھنے والے ماؤجی نامی شخص سے کر دی۔

وہ کہتی ہیں کہ شادی کے چند ماہ بعد ہی ان کی زندگی شدید مشکلات کا شکار ہو گئی کیونکہ ان کا شوہر کوئی کام نہیں کرتا تھا بلکہ سارا دن شراب اور چرس کا نشہ کر کے پڑا رہتا تھا۔ لیکن جب نومی نے اپنا گھر چلانے کے لئے خود دریاں اور کھیس بنا کر بیچنا شروع کیے تو ان کا شوہر ان سے پیسے مانگنے لگا۔

وہ کہتی ہیں کہ "شروع شروع میں میرا شوہر مجھ سے شراب کے لیے پیسے مانگتا تھا تو میں اپنی جمع کی ہوئی رقم میں سے اسے کچھ نہ کچھ دے دیتی تھی" لیکن آہستہ آہستہ اس کے مطالبات بڑھتے گئے اور جب کبھی نومی اس کا مطالبہ نہ مانتیں وہ انہیں دھمکی دیتا کہ وہ ان کے بنائے ہوئے کھیس اور دریاں جلا دے گا۔

بالآخر اس نے ایسا کر ہی دیا۔ ایک دن شدید نشے کی حالت میں اس نے نہ صرف ساری دریاں اور کھیس صندوقوں سے نکال کر انہیں آگ لگا دی بلکہ نومی پر چھری کے دستے سے وار بھی کیا جس کی وجہ سے انکے سر میں گہرا زخم آیا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماؤجی نہ صرف ان پر تشدد کرتا تھا بلکہ اکثر نشے کی حالت میں کچھ عورتوں کو بھی اپنے ساتھ گھر لے آتا تھا اور نومی کو کہتا تھا کہ وہ ان سب کو گلاسوں میں شراب ڈال کر پیش کریں۔ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ان کا شوہر "یہ سب حرکتیں میرے بچوں کے سامنے کرتا تھا۔ کئی بار نشے کی حالت میں اس نے مجھے بچوں کے سامنے برہنہ بھی کر دیا جس کی وجہ سے میری عزت تار تار ہو کر رہ گئی"۔

وہ کئی سال اس صورتِ حال کو برداشت کرتی رہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے ان کے علاقے کے کچھ سیاسی کارکنوں نے مقامی لوگوں کو سندھ ہندو میرج ایکٹ 2016 کے متعلق ایک دستاویزی فلم دکھائی جس میں بتایا گیا تھا کہ اس قانون کے ذریعے ہندو خواتین اپنے شوہروں سے طلاق لے سکتی ہیں۔ نومی کہتی ہیں کہ "جیسے ہی میں نے یہ بات سنی میں نے وہیں کھڑے ہو کر سب کے سامنے اعلان کیا کہ میں اس قانون کو استعمال کر کے اپنے شوہر سے طلاق حاصل کروں گی"۔

انہوں نے بالآخر 2019 میں میرپور خاص کی ایک عائلی عدالت میں سندھ ہندو میرج ایکٹ کے تحت علیحدگی کے لئے درخواست دائر کر دی۔ ان کی طرف سے ایک ہندو وکیل ست رام داس پیش ہوئے جبکہ ان کی درخواست کی سماعت ایک خاتون جج نے کی جنہوں نے دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ نومی اپنے شوہر سے علیحدہ ہو سکتی ہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ ماؤجی نہ صرف انہیں ان کا سارا جہیز واپس کرے گا بلکہ انہیں ہر مہینے ہر بچے کی پرورش کے لئے پانچ ہزار روپے بھی ادا کرے گا۔

اس فیصلے کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن نومی کہتی ہیں کہ "آج تک میرے شوہر نے بچوں کی کفالت کےلیے ایک روپیہ بھی نہیں دیا اور نہ ہی جہیز کا سامان واپس کیا ہے"۔ اس کے بجائے اس نے دو ہفتے پہلے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے سنیل کو مبارک کالونی کے ایک کھیل کے میدان سے اغوا کر لیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں "ابھی تک اس بچے کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے"۔

لیکن ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ماؤجی کے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "میرا شوہر بے روزگار ہے اور لوگوں سے پیسے مانگ تانگ کر گزر بسر کرتا ہے وہ بچوں کی کفالت کے لئے 20 ہزار روپے ماہانہ کہاں سے دے گا؟"

وہ اسی بات پر خوش ہیں کہ ان کی اپنے شوہر سے جان چھوٹ گئی ہے۔ اب وہ اس سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھنا چاہتیں بلکہ اس کے بجائے کہتی ہیں کہ "میں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال لیتی ہوں تا کہ مجھے اپنے سابقہ شوہر سے پیسے نہ مانگنے پڑیں"۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ یکم جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 17 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

زاہد علی ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور متعلقہ موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارسی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.