سیالکوٹ کے محمد نبیل بارہویں جماعت میں پڑھتے ہیں۔ پچھلے سال مارچ میں وہ موٹرسائیکل پر جا رہے تھے کہ خواجہ صفدر روڈ پر ایک گڑھے سے بچتے ہوئے انہوں ںے توازن کھو دیا اور سڑک پر گر گئے۔ نبیل کی بہن بھی ان کے ساتھ تھیں جو دسویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ اس حادثے میں نبیل کی ٹانگ اور ان کے بہن کے بازو کی ہڈی دو جگہ سے ٹوٹ گئی۔
حادثے کے بعد دونوں کو مہینوں زیرعلاج رہنا پڑا جس کے باعث ان کا تعلیمی سال ضائع ہو گیا۔ اب وہ صحت یاب تو ہو گئے ہیں لیکن ان کی والدہ کو مستقل خوف نے آ لیا ہے اور جب بھی نبیل موٹرسائیکل پر کہیں جائیں تو انہیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں انہیں کوئی اور حادثہ پیش نہ آ جائے۔
چار بہنوں کے بھائی محمد سلمان کے ساتھ بھی ایسا ہی حادثہ پیش آیا جس کے اثرات وہ ابھی تک محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ سال وہ اپنی چھوٹی بہن کو کالج چھوڑنے جا رہے تھے کہ کشمیر روڈ پر ان کی موٹرسائیکل ایک کار سے ٹکرا گئی۔
حادثے میں ان کے سر پر گہری چوٹ آئی۔ سیالکوٹ کے ہسپتالوں میں ان کا علاج ممکن نہیں تھا اس لیے انہیں لاہور کے جنرل ہسپتال ریفر کیا گیا جہاں تین ہفتے علاج کے بعد وہ بظاہر صحت یاب ہو گئے لیکن ان کے سر میں اب بھی درد رہتا ہے۔
سلمان کی والدہ کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ 25 سال کی عمر میں ان کے بیٹے کو ایک اور آپریشن کروانا پڑے گا اور تبھی وہ مکمل صحت یاب ہو سکیں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس حادثے کی وجہ ٹوٹی پھوٹی سڑک اور اس پر ایک غیرمتوازن یو ٹرن تھا۔
سیالکوٹ میں خواجہ صفدر روڈ یا کشمیر روڈ ہی نہیں بلکہ بیشتر سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے جہاں حادثات روزانہ کا معمول ہیں۔
ریسکیو 1122کے مطابق پچھلے 8 ماہ کے دوران شہر میں 6062 ٹریفک حادثات میں 16 ہزار 711 زخمی افراد ہو چکے ہیں۔
اس شہر کے سب سے بڑے سرکاری طبی مرکز علامہ اقبال میموریل ہسپتال کی ایمرجنسی میں بطور نیورو سرجن کام کرنے والے ڈاکٹر منظور احمد کے بقول ان کے پاس روزانہ ٹریفک حادثات کے 25 سے 30 کیس آتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفس کے مطابق پچھلے آٹھ ماہ میں 87 ٹریفک حادثات کی رپورٹ درج ہوئی ہے جن کے 123 ذمہ داروں میں سے 88 گرفتار ہوچکے اور ان کے خلاف عدالت میں کیس چل رہے ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں شہر میں ہونے والے حادثات میں سے صرف 10 فیصد ہی ان کے محکمے کو رپورٹ ہوتے ہوں گے۔ باقی 90 فیصد لوگ معاملات آپس میں ہی حل کرلیتے ہیں۔
سیالکوٹ میں رواں ہفتے پنجاب حکومت کی طرف سے ضلعی حدود میں ان حادثات کے اسباب دور کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ایکسیڈنٹ ریویو کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں اسسٹنٹ کمشنر کے علاوہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر( ڈی پی او)، ڈسٹرکٹ آفیسر ایمرجنسی، ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس پی) ٹریفک اور روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکریٹری شامل ہیں۔
ریسکیو 1122 کے اہلکار محمد وسیم کے خیال میں سڑکوں کی خراب حالت ہی ان حادثات کی بڑی وجہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے ادارے میں زیادہ تر حادثات کشمیر روڈ، کچہری روڈ اور خواجہ صفدر روڈ سے رپورٹ ہوتے ہیں جن پر غیرمتوازن یوٹرن، کٹ، موڑ اور جا بجا گڑھے بنے ہیں۔
جیل روڈ پر گاڑیوں کا شو روم چلانے والے محمد اسلم رانا تصدیق کرتے ہیں کہ شہر کی بیشتر شاہراہیں یا تو زیادہ کشادہ نہیں یا پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ جیل روڑ شہر کی مصروف ترین شاہراہ ہے جہاں سیالکوٹ کی سب سے بڑی یونیورسٹی، کچہری، سکول اور کالج بھی واقع ہیں۔
پانچ سال پہلے اس سڑک کی حالت بہت زیادہ خراب تھی۔ پھر اسے مرمت کیا گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد واٹر سپلائی پائپ لائن ڈالنے کے لیے اکھاڑ دیا گیا۔ اس مقصد کے لیےچھ فٹ کھدائی کردی گئی جس کے بعد اس کی مرمت ہوئی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے اسے دوبارہ اکھاڑ دیا گیا۔ یہی کچھ کشمیر روڈ اور بعض دوسری شاہراہوں کے ساتھ بھی ہوا ہے ان میں سے چند سڑکیں مرمت ہوئی ہیں لیکن بیشتر کی حالت بدستور خراب ہی ہے۔
2015 میں ایشیائی ترقیاتی بنک نے سیالکوٹ میں ٹریفک مسائل کے حوالے سے ایک تحقیق میں شہر کی اہم شاہراہوں کے ڈھانچے میں نقائص کی نشاندہی کی تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیشتر شاہراہوں کی تعمیر کے وقت روڈ جنکشن کی بہتری کے لیے ڈیزائن کے معیارات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ پیدل راستوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے کراسنگ کی سہولیات نہیں ہیں، فٹ پاتھوں کی چوڑائی ناکافی ہے، سڑکوں سے پانی کے نکاس کے کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے اور سڑکوں پر بلاوجہ موڑ اور غیر ضروری یوٹرن آتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سڑک کنارے پارکنگ اور تجارتی سرگرمیوں کی صورت میں تجاوزات بھی حادثات کا سبب بنتی ہیں۔
نوشاد پارک کے رہائشی محمد بلال شہاب پورہ کے ایک کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ کسی کے لیے پیدل سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں۔
"میری فیکٹری گھر سے موٹر سائیکل پر پندرہ منٹ کی دوری پر ہے لیکن ٹریفک کی بدترین صورتحال کی وجہ سے مجھے 40 منٹ پہلے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود اکثر میں کہیں نہ کہیں ٹریفک میں پھنس کر لیٹ ہو جاتا ہوں۔"
پنجاب کے ادراہ شماریات کی پنجاب ڈویلمپنٹ سٹیٹیکس رپورٹ 2022 بتاتی ہے کہ سیالکوٹ میں 30 جون 2021 تک رجسٹرڈ گاڑیوں (فور ویلر، تھری ویلر اور ٹو ویلر) کی تعداد سات لاکھ 87 ہزار 663 ہے۔ ان میں سے سات لاکھ تین ہزار 223 موٹر سائیکلیں، 33 ہزار 709 آٹو رکشے 27 ہزار 569 موٹر کاریں، جیپیں اور سٹیشن ویگنیں ہیں۔ باقی گاڑیوں میں پک اپ ڈلیوری وین، بسیں، منی بسیں، ٹرک اور ٹریکٹر شامل ہیں۔
سیالکوٹ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کی 2022 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2021 میں اس شہر میں 41 ہزار 37 گاڑیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں اور یہ اعداد لاہور اور فیصل آباد کے بعد صوبے میں سب سے زیادہ ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ میں 10 لاکھ لوگ روزانہ کی بنیاد پر سفر کرتے ہیں جن میں سے 61 فیصد موٹر سائیکل، 13 فیصد کار یا دوسری چھوٹی گاڑیوں اور 24 فیصد پبلک ٹرانسپورٹ پر ایک سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی لوگوں کو نجی گاڑیاں یا موٹر سائیکل رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہاں اورنج لائن اور میٹرو جیسی سہولیات نہ ہونے سے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
سیالکوٹ میں سیکرٹری روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی مظفر حیات ان تمام مسائل کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ میں وہ پر امید ہیں کہ اب جو ایکسیڈنٹ ریویو کمیٹی بنائی گئی ہے وہ ان مسائل پر کافی حد تک قابو پالے گی۔
ان کے بقول چونکہ اس کمیٹی میں وہ تمام ہی ادارے شامل ہیں جو سڑکوں کی جیومیٹری میں تبدیلی، کشادگی، تجاویزات کے خاتمے اور قوانین پر عملدر آمد کے ذمہ دار ہیں اس لیے مسئلے کے حل کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
محمد سرفراز ٹریفک پولیس میں وارڈن ہیں اور آج کل خواجہ صفدر روڑ پر ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ حادثات کی ایک وجہ ڈرائیوروں کی لاپرواہی اور کوتاہی بھی ہوتی ہے۔ بہت سے حادثات تیز رفتاری کے باعث ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
6 ہزار حادثات، 680 ہلاکتیں، میانوالی تا مظفرگڑھ روڈ ڈیڑھ سال میں 'خونی سڑک' کیسے بنی؟
موٹر سائیکل حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے کم عمر بچوں کو گاڑی یا موٹر سائیکل وغیرہ لے دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور خاص طور پر ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنے سے صورتحال مزید بدتر ہو گئی ہے۔
روڈ سیفٹی کے ماہر ناصر محمود شیخ اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان ٹریفک حادثات کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بدترین ملک ہے۔ صوبہ پنجاب میں روزانہ اوسطاً ایک ہزار حادثات میں 14 لوگ جاں بحق جبکہ سات سے آٹھ سو زخمی ہوجاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان حادثات میں سے نوے فیصد موٹر سائیکلوں اور موٹر سائیکل رکشوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں پورے ملک، صوبے اور سیالکوٹ میں حادثات کی کمی کے لیے روڈ انفراسٹرکچر کی بہتر اور پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے علاوہ جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ قوانین پر سختی سے عمل کرانا ہے۔
ریسکیو اہلکار محمد وسیم کے خیال میں حکومت کو چاہیے کہ روڈ سیفٹی کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا ادارہ موجود نہیں جو صرف روڈ سیفٹی پر کام کر رہا ہو، حکومت کو ایسا محکمہ بنانا ہو گا جو سڑکوں پر حادثات کی روک تھام کے لیے کام کرے۔ اس کے ساتھ حکومت کو قوانین پر عملدرآمد کرنے کے ساتھ پرانے ٹریفک قوانین میں ترمیم بھی کرنا ہو گی۔
تاریخ اشاعت 20 ستمبر 2023