سیالکوٹ میں پروبیک نامی نجی فیکٹری میں 10 سال مزدوری کرنے والے ملک محمد سرور کے انتقال کو دو سال گزر چکے ہیں لیکن ان کے اہل خانہ کو تاحال ڈیتھ گرانٹ نہیں ملی۔ محمد سرور کی اہلیہ ساجدہ پروین کے مطابق ان کے شوہر 10 اگست 2021ء کو ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہونے کے چھ روز بعد انتقال کر گئے تھے۔
انہوں نے پسماندگان میں بیوی، تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے۔ انتقال کے وقت ان کے بچے ملازمت کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔
ساجدہ پروین بتاتی ہیں کہ شوہر کے انتقال کے بعد معاشی حالات خراب ہونے کے سبب رشتہ داروں سے قرض لے کر گزارا کرنا پڑا۔ وہ اس آس پر قرض لیتی رہیں کہ ڈیتھ گرانٹ ملنے پر اسے چکا دیں گی۔ اب قرض خواہ اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کر رہے ہیں تو انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ادائیگی کہاں سے کریں۔
شوہر کے انتقال کے بعد وہ فیکٹری اور مختلف سرکاری دفاتر کے چکر لگاتی رہی ہیں۔ اس دوران کسی نے گرانٹ دلانے کے عوض رقم مانگی تو کسی نے ہراساں کیا۔ تنگ آکر ایک کنسلٹنٹ کو 30 ہزار روپے رشوت دی تاکہ ان کا کیس جلد منظور ہو جائے۔
نجی فیکٹری بشیر جمیل سرجیکل میں کام کرنے والے 55 سالہ محمد بوٹا نے دو سال قبل اپنی بیٹی کی شادی کی تھی اور اسی وقت شادی کے لیے گرانٹ حاصل کرنے کی درخواست جمع کرا دی تھی۔
محمد بوٹا کہتے ہیں کہ بیٹی ایک بچے کی ماں بن چکی ہے لیکن اس کے جہیز کے لیے لیا گیا قرض چکانا ابھی باقی ہے۔ نہ حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب آیا ہے اور نہ ہی فیکٹری والے کچھ بتاتے ہیں۔
"پتا نہیں ہمیں مدد فراہم کرنے کے لیے ہمارے ہی فنڈ سے تنخواہ لینے والے افسر کب ہماری طرف دیکھیں گے؟"
سیالکوٹ پاکستان کا ایک اہم صنعتی شہر ہے جہاں سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، چمڑے کی مصنوعات، کپڑا اور دیگر اشیا تیار کی جاتی ہیں۔ پنجاب شماریات بیورو کے مطابق سیالکوٹ میں بڑے صنعتی یونٹوں کی تعداد تین ہزار 314 ہے جبکہ لیبر فورس سروے 21-2020ء کے مطابق اس شہر میں مزدوروں کی کل تعداد 13 لاکھ 26 ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ ان میں 34.2 فیصد صنعت اور 35.8 فیصد خدمات کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
محنت کشوں کی تنظیم پاکستان ورکرز فیڈریشن کے شمالی پنجاب ریجن کے صدر چوہدری محمد اشرف کہتے ہیں کہ اس شہر میں ڈیتھ و میرج گرانٹ اور تعلیمی وظائف کے منتظر لواحقین اور کارکنان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ضلع سیالکوٹ سے وفات پانے والے صنعتی کارکنان کے لواحقین کی جانب سے 248 درخواستیں پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ کے لاہور میں مرکزی دفتر کو ارسال کی جا چکی ہیں جن میں سے صرف 103 کے چیک وصول ہوئے ہیں۔
شادی گرانٹس کی ایک ہزار 470 درخواستوں میں سے 1075 زیر التوا ہیں اور صرف 395 کو ہی گرانٹ ملی ہے۔ اسی طرح تعلیمی وظائف کی 287 درخواستوں پر کئی سال کے بعد صرف 45 خوش نصیبوں کو ہی چیک مل سکے ہیں۔
چوہدری محمد اشرف بتاتے ہیں کہ بہت سی گرانٹس 2018ء سے رکی ہوئی ہیں۔ 18 جون 2021ء کو پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈ نے نئی چیک لسٹ متعارف کرواتے ہوئے تمام زیر التوا درخواستیں متعلقہ اضلاع میں محکمہ لیبر کو واپس بھجوا دی جنہیں نئی چیک لسٹ کے مطابق مکمل کر کے منظوری کے لیے دوبارہ بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد محکمے والے کبھی کبھار ایک آدھ چیک بھجوا دیتے ہیں۔
کارکنان یا ان کے لواحقین یہ امداد مفت میں نہیں لے رہے اور نہ ہی حکومت اپنی جیب سے انہیں رقم دے رہی ہے بلکہ یہ رقم ان فیکٹری مالکان کی جانب سے سرکاری محکمے پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ (پی ڈبلیو ڈبلیو ایف) کو اپنے منافعے میں سے دی جانے والی رقم سے ملتی ہے۔ فیکٹری مالکان ( آجر) اپنے منافعے کا دو فیصد حصہ اس ادارے کو دینے کے پابند ہیں۔
پی ڈبلیو ڈبلیو ایف پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ ایکٹ 2019ء کے تحت قائم کیا گیا کارپوریٹ ادارہ ہے۔ایک گورننگ باڈی ادارے کی قیادت کرتی ہے جس میں حکومتی نمائندے، کارکنان اور آجر شامل ہوتے ہیں۔
یہ ادارہ صنعتی کارکنوں کو ان کی خدمات کے عوض مراعات فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس کی ذمہ داریوں میں میرج گرانٹس، ڈیتھ گرانٹس، ٹیلنٹ سکالرشپس، لیبر کالونیوں کا قیام، ان کی دیکھ بھال اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں ورکرز ویلفیئر سکولوں کا قیام و انتظام شامل ہیں۔
ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق فیکٹریز ایکٹ 1934ء یا مائنز منسیشن رولز 2002ء کے تحت رجسٹرڈ ادارے میں دوران ملازمت فوت ہونے والا اور پنجاب انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2010ء (پیرا) میں دی گئی ورکر کی تعریف پر پورا اترنے والا کارکن ڈیتھ گرانٹ کا اہل ہے۔اس میں مدت ملازمت کی کوئی حد مقرر نہیں ہے البتہ فوت شده کارکن اداره سوشل سکیورٹی یا اولڈ ایج ایمپلائز بینیفٹس انسٹی ٹیوٹ کے تحت تحفظ یافتہ ہونا چاہیے۔ فوت شده کارکن کی بیوه یا والدین یا بچے ڈیتھ گرانٹ کے اہل ہیں۔
حکومت کی طرف سے ڈیتھ گرانٹ میں وقت کے ساتھ اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ 2012ء سے 2020ء کے دوران انتقال کرنے والے کارکن کے لواحقین پانچ لاکھ روپے، 17 اگست 2020ء سے 27 مارچ 2023ء تک چھ لاکھ روپے اور اس کے بعد وفات پانے والوں کےورثا آٹھ لاکھ روپے کے حق دار ہیں۔
وہ کارکن جس کی مدت ملازمت بوقت نکاح کم از کم تین سال ہوبشرطیکہ وہ اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ یا سوشل سکیورٹی سے سے رجسٹرڈ ہو، میرج گرانٹ کا اہل ہے۔ دوران ملازمت وفات پانے والے یا بوجہ معذوری ریٹائرمنٹ لینے والے کارکنان کی بیٹیاں بھی گرانٹ کی اہل ہیں۔
27 دسمبر 2017ء کے بعد ہر ریٹائرڈ کارکن اپنی بچیوں کی شادی گرانٹ لے سکتا۔ خواتین کارکن / دوران ملازمت اپنی شادی کے لیے ایک دفعہ گرانٹ لے سکتی ہیں۔میرج گرانٹ میں بھی وقت کے ساتھ اضافہ کیا گیا ہے جو ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے کی گئی اور 27 مارچ 2023ء کے بعد چار لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔
اسی طرح مذکورہ اہلیت اور معیار پر پورا اترنے والے کارکنان کے بچے تعلیمی گرانٹ کے بھی حق دار ہیں جنہیں داخلہ فیس، ٹیوشن فیس، رجسٹریشن فیس، امتحانی فیس، لائبریری فیس/کمپیوٹر فیس یا لیب فیس کے ساتھ ٹرانسپورٹ چارجز، ہاسٹل /میسنگ چارجز کے مطابق ایک مقررہ وظیفہ دیا جائے گا۔
یہ ادارہ صنعتی کارکنان کے بچوں کے ان اخراجات کے علاوہ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر 3500 روپے ماہانہ، گریجوایشن کی سطح پر 4500 اور پوسٹ گریجوایشن تعلیم کے دوران 5500 روپے وظیفہ دینے کا پابند ہے۔
قانون ماہرین کے مطابق ان گرانٹس کے لیے قانون میں درخواست دینے کی مدت کا تعین تو کیا گیا ہے جو ایک سال کے اندر یا پھر خصوصی سرکاری منظوری کے بعد تین سال ہے، لیکن درخواست جمع ہونے کے بعد چیک ملنے کی معیاد کا تعین نہیں کیا گیا۔
مزدور قوانین کے ماہر اور مقامی وکیل چودھری محمد یوسف کے مطابق ان گرانٹس کے حصول کے لیے ضلعی محکمہ محنت و انسانی وسائل کے پاس مکمل درخواست آ جائے تو وہ ایک ہفتے کے اندر اسے آن لائن کرنے کا پابند ہے۔ اس کے بعد پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈ کو ہر تین مہینے بعد ان درخواستوں پر فیصلے کر کے منظوری دینی چاہیے۔
ان کا خیال ہے کہ درخواستیں ضلعی دفاتر سے نکلنے کے بعد پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈ کے پاس رک جاتی ہیں۔ کارکنان کی درخواست کے تمام لوازمات پورے کرنا فیکٹری مالکان کی ذمہ داری ہےجنہیں اس سلسلے میں کسی اہلکار کی خصوصی ڈیوٹی لگانی چاہیے۔
پچھلے 17 سال تک کیپ اینڈ ٹچ فیکٹری میں مزدوری کرنے والے اظہر اقبال آٹھ جنوری 2023ء کو دوران ڈیوٹی فالج کا حملہ ہونے کے بعد 14 جنوری کو فوت ہو گئے۔ تو ان کی اہلیہ نرگس بی بی کو گرانٹس کے لیے فائل تیار کرنے اور پھر اسے آن لائن اپ لوڈ کرنے میں آٹھ ماہ لگے لیکن انہیں نہیں معلوم کہ چیک کب آئے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور وہ خود گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کے خاوند کو فوت ہوئے چند ہی مہینے ہوئے تھے کہ ان کا سوشل سکیورٹی کارڈ واپس لے لیا گیا جس کی وجہ سے اپنا علاج بھی نہیں کرا پا رہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ محکمہ لیبر کے ایک سکول میں چھٹی جماعت میں پڑھنے والی ان کی چھوٹی بیٹی کو کارڈ نہ ہونے کے باعث کسی دن سکول سے فارغ کر دیا جائے گا۔
بڑی بیٹی بھی شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا "ہم یہ انتظار کر رہے ہیں یہ گرانٹ آئے اور ہم اس کے ہاتھ پیلے کریں"۔
پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ کی سکورٹنی کمیٹی کے ضلعی رکن اور فارورڈ گیئر فیکٹری ورکرز یونین کے صدر محمد علی بٹ کہتے ہیں کہ فنڈز ہونے کے باوجود کارکنان کو ان کے واجبات نہ مل پانا بہت بڑی ناانصافی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سیالکوٹ کی راجکو فیکٹری: 'مزدور اتنے دباؤ میں ہیں کہ وہ اپنے جائز مطالبات پر بھی بات نہیں کرتے'۔
وہ کہتے ہیں کہ درخواست جمع ہونے کے بعد امداد کی ادائیگی کا کوئی وقت مقرر ہونا چاہیے اور میرج گرانٹ بیٹی کی رخصتی سے کم از کم ایک ماہ پہلے مل جانی چاہیے۔
"اس مقصد کے لیے رخصتی سے پہلے نکاح کرنے اور نکاح نامہ پیش کرنے کی شرط رکھی جا سکتی ہے۔ اگر نکاح رخصتی کے وقت ہی انجام پانا ہو تو بھی ایک مہینہ کے اندر یہ گرانٹ مل جانی چاہیے۔ اسی طرح ڈیتھ گرانٹ درخواست ملنے کے ایک مہینہ کے اندر منظور کر کے آن لائن ادائیگی کا نظام بنایا جائے۔"
انہوں نے کہا کہ چیک ملنے میں کئی کئی سال کی تاخیر بدعنوانی کے امکانات بڑھا دیتی ہے جس کا نقصان بیوہ خواتین کو ہراسگی، رشوت یا پھر بلیک میلنگ کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔
محمد علی بٹ کے مطابق بمقابلہ لاہور سیالکوٹ اورپنجاب کے دوسرے شہروں کے مزدوروں کے لیے ان گرانٹس کی ادائیگیوں کی صورت حال زیادہ بری ہے۔ لاہور کے فیکٹری مالکان ورکرز ویلفیئر فنڈ آفس قریب ہونے کی وجہ سے مسلسل رابطے رہ سکتے ہیں اور دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔
ان کہنا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پنجاب بھر میں بیٹیوں کی شادی کی گرانٹس کے لیے 11 ہزار 500 درخواستیں منظوری کی منتظر ہیں۔ اسی طرح 900 بیوائیں شوہر کے انتقال پر ملنے والی گرانٹ کا انتظار کر رہی ہیں اور چھ ہزار 500 طلبہ و طالبات کو تعلیم اخراجات اور وظائف کی ادائیگیاں باقی ہیں۔
سینئر نائب صدر سیالکوٹ ایوان صنعت و تجارت زوہب جہانگیر کہتے ہیں کہ ان گرانٹس میں تاخیر کے باعث جہاں ورکرز پریشان ہوتے ہیں وہاں آجروں کے لیے بھی مشکلات بڑھ جاتی ہیں کیوں کہ جب سال ہا سال ادائیگیاں نہیں ہوں گی تو مزدوروں کا فیکٹری مالکان سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
تاریخ اشاعت 20 ستمبر 2023