پولیس کی کوتاہی یا سماجی دباؤ؟ نارووال میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں سزاؤں کا تناسب صرف ایک فیصد

postImg

صبا چوہدری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پولیس کی کوتاہی یا سماجی دباؤ؟ نارووال میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں سزاؤں کا تناسب صرف ایک فیصد

صبا چوہدری

loop

انگریزی میں پڑھیں

جولائی میں نارووال کے تھانہ سٹی میں ایک ایف آئی آر درج ہوئی جس میں ایک خاتون نے الزام عائد کیا کہ وہ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے شہر میں نادرا آفس کے دفتر میں گئیں تو وہاں دو اہلکاروں نے انہیں بہانے سے باہر بھیج کر ان کی بیس سالہ بیٹی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

خاتون نے اپنی درخواست میں پولیس سے کہا کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کر کے انصاف دلایا جائے۔ تاہم دو مہینے کے بعد انہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی۔ مبینہ طور پر چند مقامی لوگوں نے 12 لاکھ روپے کے عوض ملزموں کے ساتھ ان کی صلح کرا دی تھی۔

جنوری 2021 میں شکرگڑھ کی پینتیس سالہ شاکرہ (فرضی نام) رکشے پر کہیں جا رہی تھیں کہ ڈرائیور نے انہیں ویرانے میں جنسی زیادتی یا ریپ کا نشانہ بنایا۔ شاکرہ نے اس کی رپورٹ سٹی پولیس سٹیشن میں درج کروائی تاہم  اس واقعے میں بھی فریقین نے نامعلوم شرائط یا وجوہات کی بنا پر صلح کر لی۔

نادیہ (فرضی نام) حصول تعلیم کے لیے شکرگڑھ میں قیام پذیر ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں ایک رشتہ دار نے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کا مقدمہ شکرگڑھ پولیس سٹیشن میں درج ہوا۔

نادیہ کے والد کا کہنا ہے کہ ملزم نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی تو وہ پورے گھرانے کو قتل کر دےگا۔ ملزم نے ان پر صلح کے لیے بھی دباؤ ڈالا لیکن اس کے باوجود انہوں نے مقدمہ واپس نہیں لیا تاہم کیس پر کارروائی کی رفتار مایوس کن حد تک سست ہے۔
شکرگڑھ پولیس مطابق یہاں 2020ء میں جنسی زیادتی کے آٹھ واقعات، 2021ء میں 10، 2022ء میں بھجی10 اور 2023ء میں ستمبر کے اوائل تک پانچ واقعات رپورٹ ہوئے۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نارووال کے مطابق ضلع میں اس سال جنسی زیادتی و ہراسانی کے 262 کیس آئے ہیں جن میں 156 انڈر ٹرائل ہیں۔43 مقدمات میں راضی نامہ ہوا ہے اور 46 ملزم بری ہو چکے ہیں اور صرف ایک کیس میں ہی سزا سنائی گئی۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے رکن فیاض احمد سمجھتے ہیں کہ ایسے بہت سے مقدمات جھوٹے ہوتے ہیں اور لوگ انہیں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے درج کراتے ہیں۔

تاہم مقامی کونسلر پروین مالک ایسے تصورات کو تشویش ناک قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تھانوں اور عدالتوں میں ایسے لوگ عام ہیں جو پہلے سے فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں کہ کون غلط ہے اور کون ٹھیک۔ جہاں ایسی سوچ ہو وہاں انصاف کیسے ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین تھانوں اور کورٹ کچہری جانے سے گھبراتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پالیسی سازوں کو چھوٹے شہروں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں عورتوں پر ظلم کو عام سی بات سمجھا جاتا ہے اور ان کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملی ہیں: 'جنسی زیادتی کا شکار خواتین اپنے مخالفین کا مقابلہ نہیں کر پاتیں'۔

نارووال کی سماجی رہنما مہوش حیات کا کہنا ہے کہ بہت سے کیس پولیس تک پہنچنے سے پہلے یا بعد میں ختم ہو جاتے ہیں۔ بعض واقعات میں گاؤں کی پنچایت یا گاؤں کا نمبردار فریقین میں صلح کروا دیتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ پولیس کا رویہ دیکھ کر اکثر والدین اپنا کیس واپس لے لیتے ہیں۔ ان پر یہ کہہ کر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ کب تک عدالتوں کے چکر کاٹتے رہیں گے، اپنی بیٹی کو کہاں کہاں لیے پھریں گے، لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیتے رہیں گے، اس سے بہتر ہے کہ چپ ہو جائیں۔ یہی وجہ ہےکہ ایسے تقریباً ایک فیصد مقدموں میں ہی ملزموں کو سزا ہو پاتی ہے۔

شکرگڑھ پولیس کے ڈی ایس پی احسن اس معاملے میں اپنے محکمے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس پوری کوشش کرتی ہے کہ مجرم کو سزا ملے۔ تاہم زیادہ تر لوگ معاشرے میں بدنامی کے خوف سے اپنے کیس واپس لے لیتے ہیں اور نام پولیس کا بدنام ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں خاندان پر پڑنے والا نفسیاتی دباؤ بھی کیس واپس لینے کا سبب بنتا ہے۔ بعض لوگ کیس جاری رکھنے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور ملزموں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقدموں کا فیصلہ ہونے میں ہی اتنا زیادہ عرصہ لگتا ہے کہ بہت سے لوگ تنگ آ کر خود ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 2 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

صبا چوہدری نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ قومی اور بین الاقوامی اشاعتی اداروں کے لیے صنفی موضوعات، انسانی حقوق اور سیاست پر رپورٹ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

حلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.