ضلع ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی کی یونین کونسل 56 میں سرسبز کھیت کھلیانوں کے بیچ کچے پکّے گھروں میں 25 ہزار کے قریب لوگ آباد ہیں۔اس کونسل میں آباد دیہات میں سیوریج کے پائپ بچھے ہوئے ہیں۔ ہر گھر کا سیوریج گٹر لائین سے جڑا ہوا ہے جو گاؤں سے باہر کھودے گئے کنوئیں سے منسلک ہے اور وہاں سے یہ پانی ڈسپوزل پمپ کے ذریعے نہری پانی والے کھال میں پہنچانے کا بندوبست بھی ہے۔
لیکن اس تمام انتظام کے باوجود کونسل کے ہر گاؤں کی گلیاں ہمہ وقت کیچڑ اور گندے پانی سے بھری رہتی ہیں اور نشیبی علاقوں میں تو جگہ جگہ سیوریج کا پانی گھروں کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔
سیوریج کا انتظام کیوں کام نہیں کر رہا؟
یونین کونسل 56 میں چک نمبر 12/11 ایل، 13/11 ایل، 18/11 ایل ، 176/9 ایل شمالی اور جنوبی ایل 176/9 شامل ہیں۔
چک 12/11 ایل کا سیوریج کا نظام حکومت نے ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی فنڈنگ سے 93-1992 میں تعمیر کیا تھا اور اس پر 25 سے 30 لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔ اس چک کے 42 سالہ عبدالجبار مقامی سماجی کارکن ہیں۔ ان کے خیال میں نظام کی ناکامی کی اصل وجہ منصوبہ سازوں کی زمینی حقائق سے ناواقفیت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گندے پانی کو سیوریج کے کنوئیں سے اس کی آخری منزل یعنی نہری پانی کے کھال تک لے کر جانا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے سرکاری طور پر کوئی راستہ منظور نہیں کیا گیا تھا۔ منصوبہ سازوں کا خیال یہ تھا کہ یہ سارا عمل کاشتکار باہمی مشاورت اور رضا مندی سے طے کر لیں گے اور کسان بخوشی یہ پانی اپنے کھیتوں کو لگائیں گے۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اکثر کاشتکار آلودہ پانی کو اپنے صاف نہری پانی کے کھال میں سے راستہ دینے پر راضی نہیں ہوتے۔ "جب کسانوں کے پاس نہری پانی کی کمی ہوتی وہ اپنے نہری پانی کے کھال میں آلودہ پانی شامل کرنے پر تیار تو ہو جاتے ہیں لیکن پھر انہیں ہر ماہ اپنے کھال کی بھل صفائی کرنا پڑتی تھی جو کافی محنت طلب کام ہوتا ہے اور سب لوگ اس مشقت کے لیے آمادہ نہیں ہوتے" عبدالجبار نے بتایا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ منصوبہ سازوں کی نظروں سے اس لیے اوجھل ہوا کیونکہ منصوبہ سازی کے عمل میں سب سے بڑے سٹیک ہولڈر یعنی مقامی کسان کو شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔
کاشتکار آلودہ پانی اپنے کھیت کو لگانے سے اس لیے بھی ہچکچاتے ہیں کہ جس کھیت کو بھی یہ پانی لگایا جاتا ہے اس کی زمین میں کچھ ہی عرصہ بعد نمکیات کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو فصل کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
عبدالجبار ( یہ اسی نام کے دوسرے صاحب ہیں) محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ساہیوال میں بطور سب ڈویژنل آفیسر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیہات میں سیوریج نظام بچھانے کے اس منصوبے کی انوائرمنٹ اسیسمنٹ رپورٹ نہیں بنائی گئی تھی اور اب سیوریج کا پانی بغیر صفائی (ٹریٹمنٹ) کے ہی نہری پانی کے ساتھ فصلوں کو لگایا جاتا ہے۔
"ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لیے زیادہ بجٹ درکار ہوتا ہے اس لیے حکومت اسے ان منصوبوں کا حصہ نہیں بناتی۔ محکمہ تو ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے بجٹ تو سرکار نے ہی جاری کرنا ہے۔ پورے منصوبے پر اتنی لاگت نہیں آتی جتنی اس ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لیے درکار ہوتی ہے"۔
'سانوں کیہ'
چودھری عمر فاروق گجر اسی کونسل کے گاؤں 13/11 ایل کے رہائشی ہیں۔ وہ وکیل ہیں اور سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان کے گاؤں کی آبادی 10 ہزار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے تحت ان کے گاؤں کی بڑی گلیوں میں پائپ لائنیں بچھائی گئیں جبکہ چھوٹی گلیوں میں نالیاں بنا کر پائپ لائنوں میں ڈالی گئیں۔ گاؤں کے گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول کے قریب ڈسپوزل پمپ نصب کیا گیا جس کا پانی قریبی فصلوں کو لگایا جاتا رہا۔
"یہ نظام 2015-16 تک چلتا رہا اور اب مکمل طور پر بند ہے۔ سڑک بننے کی وجہ سے سیوریج پائپ لائن نیچے چلی گئی تھی۔ اب لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نالیاں بنا لی ہیں جن کے ذریعے گھروں کا سیوریج کا پانی بڑے نالے میں ڈالا جاتا ہے"۔
چودھری عمر فاروق بتاتے ہیں کہ شروع میں سیوریج کے نظام کی دیکھ بھال کے لیے چھ افراد کی کمیٹی بنائی گئی تھی جو بل کی ادائیگی کے لیے لوگوں سے پیسے اکٹھے کرتی تھی۔ ابتدا میں وہ 10 روپے لیتے تھے پھر 20 اور 30 روپے لینے لگے۔ اس کے بعد لوگ اس نظام کے مسائل سے دلبرداشتہ ہو گئے اور انہوں نے پیسے دینا بند کر دیے تو کمیٹی بھی غیر فعال ہوتی گئی جس سے سارا نظام ٹھپ ہو گیا۔
"سیوریج نظام بند ہونے سے گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول کا گیٹ عملی طور پر بند ہو چکا ہے کیونکہ گیٹ کے بالکل سامنے گندے پانی کا جوہڑ بن گیا ہے۔علاقے میں مچھروں کی بہتات ہے اور ملیریا، نزلہ زکام، یرقان اور اسہال کی بیماریاں عام ہیں"۔
یہی کچھ گاؤں 12/11 ایل میں بھی ہوا۔ اس گاؤں کے عبدالجبار بتاتے ہیں کہ نظام کو چلانے کے لیے ڈسپوزل پمپ کے بجلی کے بل، سیوریج لائنوں کی صفائی اور ٹیوب ویل کی موٹر مرمت پر اخراجات آتے ہیں۔ ڈسپوزل پمپ کا ماہانہ بجلی کا بل 50 ہزار سے زیادہ آتا تھا جس کی ادائیگی ناگزیر تھی لیکن کمیٹی لوگوں سے پیسے اکٹھے کرنے میں ناکام رہی۔
مقامی سماجی تنظم ایکتا نے صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے یہ نظام سنبھالا لیکن اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں
وسطی پنجاب کے گاؤں سودھرا میں زیرِ زمیں پانی کی تباہی: 'صنعتی فضلہ ملا پانی پینے سے ہر کوئی بیمار ہو رہا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اب سیوریج لائین بند ہونے پر جب حالات بہت خراب ہو جاتے ہیں تو گاؤں والے چندہ اکٹھا کر کے صفائی والوں کو بلاتے ہیں۔ اس سارے عمل میں ہفتہ، دس دن لگ جاتے ہیں اور گاؤں کی گلیاں گندے پانی سے بھر جاتی ہیں۔
" محکمہ سوائے حوصلہ افزائی کے اور کچھ نہیں کر سکتا "
راؤ زوہیب حسن پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ساہیوال میں بطور کمیونٹی ڈویلپمنٹ آفیسر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ضلع ساہیوال میں ایک سو کے قریب سیوریج سکیمیں لگائی گئی ہیں جن میں سے 55 فعال ہیں جبکہ 45 جزوی طور پر کام کر رہی ہیں۔
زوہیب کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ سیوریج سکیم کی تنصیب کے بعد اسے مقامی کمیونٹی کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس کے بعد تمام تر ذمہ داری مقامی کمیونٹی کی ہوتی ہے۔
"کمیونٹی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کئی دیہات میں ڈسپوزل پمپ بند پڑے ہیں۔ ہمارا محکمہ سوائے ان کی حوصلہ افزائی کے اور کچھ نہیں کر سکتا اور نہ تو محکمے کے پاس بجٹ ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی پالیسی"۔
عبدالجبار سوال کرتے ہیں کہ گاؤں کے سیوریج کے نظام کو چلانے کے لیے حکومت شہروں کی طرح میونسپل خدمات کے انتظامات کو چلانے کی ذمہ داری خود کیوں نہیں لیتی۔
تاریخ اشاعت 20 جنوری 2023