محمد ظفراللہ خان میانوالی کے علاقے چکڑالہ میں اپنی تین ایکڑ زرعی اراضی پر کاشت کاری کرتے ہیں۔ ان کی زمین ڈھوک پیڑا نامی گاؤں میں ہے جہاں وہ خود بھی رہتے ہیں۔ یہی زمین ان کا واحد ذریعہ معاش ہے جس سے ان کے گھریلو اخراجات ہی بمشکل پورے ہوتے ہیں لیکن ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو پڑھائیں لکھائیں۔
ڈھوک پیڑا میانوالی شہر سے 55کلومیڑ دور شمال مشرق میں ایک پہاڑ کے دامن میں واقع ہے جس کی آبادی تقریباً ڈھائی ہزار ہے۔ طفراللہ خان کا بیٹا ابھی چھوٹا ہے تاہم دو بیٹیاں عائشہ اور مریم گھر کے قریب ہی سرکاری گرلز پرائمری سکول میں پہلی اورتیسری کلاس میں پڑھ رہی ہیں۔
طفراللہ خان کی پریشانی یہ ہے کہ اس سکول میں کوئی بھی مستقل استاد نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب بچے ایک استانی سے کچھ سیکھنے لگتے ہیں تو اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے اور نئی استانی آ جاتی ہے۔ آئے روز استاد کی تبدیلی سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں چھوٹی ہیں جنہیں وہ کسی اورعلاقے کے سکول میں بھی نہیں بھیج سکتے۔ دوسرا گرلز سکول اس جگہ سے کم سے کم چار کلو میٹر دور ہے۔
عبدالولی خان میانوالی کی تحصیل عیسٰی خیل کے گاؤں ونجاری کے رہائشی ہیں۔وہ مزدوری کرتے ہیں مگر ظفراللہ کی طرح اپنی بیٹی کو پڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ ان کی بیٹی سکینہ بی بی یہیں گرلز ایلیمنٹری سکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ چار ہزار آبادی کے گاؤں میں 2017ء میں ایلیمنٹری سکول قائم ہوا۔یہاں آٹھویں جماعت تک 298 بچیاں زیر تعلیم ہیں لیکن یہاں 2018ء سے ایک بھی مستقل استانی تعینات نہیں کی گئی ۔اب بھی ساتوں عارضی ٹیچر پڑھا رہی ہیں اور ہر ماہ بچوں کی ٹیچر بدل دی جاتی ہیں۔
ضلع میانوالی تعلیم میں صنفی تفاوت کے حوالے سےصوبے میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں مردوں میں شرح خواندگی 75 اور خواتین میں 36 فیصد ہے۔ یوں 39فیصد کا فرق پہلے ہی موجود ہے۔ ایسے میں یہاں بچیوں کے نو سرکاری سکول ایسے ہیں جہاں کوئی مستقل ٹیچر تعینات نہیں گئی ہیں۔ان میں بیشتر تحصیل عیسیٰ خیل کی 'خٹک بیلٹ' کے سکول شامل ہیں۔
محکمہ تعلیم کی دستاویزات کے مطابق میانانوالہ، ڈیرہ اسماعیل والا، ڈھوک پیڑا چکڑالہ، امداد خیل اور ذیلدار کالونی کے پرائمری سکولوں میں کوئی مستقل ٹیچر نہیں ہے۔یہاں طالبات کی تعداد بالترتیب 68،40، 20، 14 اور12ہے۔
یہی حال گورنمنٹ گرلز ایلیمنٹری سکول ونجاری کا ہے جہاں 298 بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ ڈھوک اچڑ، شیرے خیل اور ڈھوک گروڑی کے تین گرلز پرائمری سکولوں میں نہ تو کوئی ٹیچر ہے نہ ہی کوئی طالبہ۔ محکمہ تعلیم کے حکام بھی ان حقائق کی تصدیق کرتے ہیں۔
حمیرا یاسمین میانوالی میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ایلیمنڑی) خواتین ونگ ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مذکورہ سکول 'ہارڈ ایریاز' یعنی پہاڑوں میں ہیں۔اور وہاں تعیناتی ہوتے ہی اکثر اساتذہ تبادلہ کرا لیتے ہیں اور سیٹ خالی ہو جاتی ہے۔
"ایسی صورتحال میں ہمارے پاس یہی آپشن رہ جاتا ہےکہ قریبی سکول میں سے کسی ٹیچر کی چند ماہ کے لیے وہاں عارضی ڈیوٹی لگا دیں تاکہ سکول چلتا رہے۔"
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ملک طارق عباس بھی اس صورتحال کا ذمہ دار تبادلوں کے نظام کو سمجھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تبادلوں کے آن لائن سسٹم کے تحت کسی ٹرانسفر میں ایجوکیشن افسر کردار شامل نہیں ہوتا۔
"ہمارے پاس کسی دوسرے سکول سے اساتذہ کو صرف عارضی طور پر بھیجنے کا اختیار ہے۔ وہ اختیار ہم استعمال کر رہے ہیں ۔"
میانوالی ایجوکیشن اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو افسر شیر علی سمور بتاتے ہیں کہ دو گرلز پرائمری سکولوں ڈھوک اچڑ اور ڈیرہ اسماعیل والا کو کم داخلوں کی وجہ سے پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن(پی ای ایف) کے سپرد کر دیا گیا تھا اور یہاں کی پوسٹیں دوسرے سکولوں میں منتقل کر دی گئی تھیں۔مگر اہل علاقہ نے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں
محکمہ تعلیم یا اساتذہ: چاغی میں بند پڑے سکولوں کا ذمہ دار کون ہے؟
انہوں نے بتایا کہ تقریباً ایک سال بعد دونوں سکولوں کو عدالتی حکم پر دوبارہ محکمہ تعلیم کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے سیکرٹری سکول ایجوکیشن کو ان سکولوں کے اساتذہ کی پوسٹیں بحال کرنے کےلیے مراسلہ لکھا ہوا ہے۔بہت جلد یہاں نئی بھرتی یا تبادلے کے ذریعے اساتذہ واپس آ جائیں گے۔
38سالہ کلیم اللہ خان ڈیرہ اسماعیل والا کے رہائشی ہیں ۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں کا سکول عدالتی کاروائی کے دوران محکمہ تعلیم کے پاس تھا اور نہ ہی ایجوکیشن فاونڈیشن کےپاس۔ یہاں سات سال سے کوئی سرکای ٹیچر نہیں ہے اور گاؤں والے یہ سکول 'اپنی مدد آپ' کے تحت ہی چلا رہے ہیں۔
ونجاری کے سماجی کارکن عبد الحفیظ خان بتاتے ہیں کہ 'خٹک بیلٹ' کیونکہ شہر سے دور پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔اس لیے باہر کا کوئی مرد ٹیچر ہو یا خاتون یہاں طویل عرصہ نہیں رہتے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں زیادہ پڑھی لکھی خواتین نہیں ہیں۔ اگر محکمہ تعلیم ان علاقوں کے لیے بھرتی کی شرائط میں نرمی کرے تو شاید مقامی بچیاں ان سکولوں میں بطور ٹیچر تعینات ہو جائیں۔ بصورت دیگر باہر سے آنے والی اساتذہ کی تعیناتی ہو بھی جائے تو تبادلے کھلتے ہی یہ سکول خالی ہو جائیں گے۔
تاریخ اشاعت 23 ستمبر 2023