بدین کے عثمان ناڈیھ تحصیل گولاڑچی میں سیلاب متاثرہ یونین کونسل خانانی جت میں اپنی آٹھ ایکڑ آبائی زمین پر کاشتکاری کرتے ہیں۔ گزشتہ سال شدید بارشوں کے بعد گونگڑو سیم نالے میں پڑنے والے شگاف سے ان کا پورا گاؤں ڈوب گیا تھا جس کے ساتھ ان کی دھان کی فصل بھی سیلاب برد ہو گئی۔
گاؤں کے تمام لوگوں کی طرح عثمان بھی گھر چھوڑ کر سڑک کنارے اونچی اور محفوظ جگہ پر آ گئے تھے۔ اس برس بارشوں نے وقفہ دیا تو تبھی ان کے لیے دوبارہ کاشت ممکن ہوئی۔ چونکہ امسال فصل بھی اچھی ہوئی اس لیے وہ بہت خوش تھے۔ مگر اچانک دھان کی قیمتوں میں کمی نے انہیں ایک بار پھر پریشان کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک تو مِلوں نے دام گرا دیے ہیں اور اوپر سے کٹوتی کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس سال بھی کچھ بچت نہیں ہوگی، اگر بچت نہ ہوئی تو بارش میں گرے ہوئے گھر کی مرمت کیسے ہوگی۔ انہیں افسوس ہے کہ وہ اس سال بھی اپنی بیٹی کا بیاہ نہیں کر پائیں گے۔
زیریں سندھ میں ضلع بدین کی تحصیل گولاڑچی نہ صرف دھان کی ریکارڈ پیدوار کے حوالے سے مشہور ہے بلکہ اسے ضلع لاڑکانہ کے بعد صوبہ سندھ میں چاولوں کی دوسری بڑی منڈی بھی مانا جاتا ہے۔
عثمان بتاتے ہیں کہ رواں سال نہری پانی کی فراہمی میں دیر کی وجہ سے فصل کی بوائی میں بھی تاخیر ہو گئی تھی، جس کے باعث فصل بھی دیر سے تیار ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فصل کی کٹائی جو اکتوبر کے پہلے ہفتے شروع ہو جاتی تھی اب پندرہ دن کی تاخیر سے اکتوبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوئی ہے۔ دھان کے فصل کی کٹائی کا عمل شروع ہوتے ہی یہاں کے رائس ملز مالکان نے ایک طرف بڑے پیمانے ریٹ میں نہ صرف کمی کر دی بلکہ فی من دھان پر تین کلو کٹوتی بھی شروع کر دی ہے جس سے مقامی کاشتکاروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
عثمان ہی نہیں بلکہ یہاں کے بہت سارے کاشت کار ان بے جا کٹوتیوں سے پریشان ہیں اور انھوں نے اس کے خلاف احتجاج بھی شروع کر دیے ہیں۔
اس سلسلے میں قومی عوامی تحریک کی کال پر 23 اکتوبر 2023 کو کاشتکاروں نے گولاڑچی میں شہید فاضل راہو چوک سے ایک احتجاجی ریلی نکالی اور بعد میں پریس کلب کے سامنے دھرنا دے کر ایک گھنٹہ تک احمد راجو روڈ بھی بلاک کر دیا تھا۔
احتجاج میں شریک کاشتکار رہنما اصغر نوتکانی نے بتایا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی دھان کی فصل مارکیٹ میں آتے ہی تمام رائس ملز مالکان نے غیر قانونی طور پر فی من نرخ میں 1500 روپے کمی کردی ہے۔ دھان کا فی من ریٹ 4500 روپے تھا، جو ان لوگوں نے آپس میں ملی بھگت کرکے فی من 3000 کردیا ہے۔ جبکہ کراچی کی مارکیٹ میں فی من 5000 اور لاڑکانہ ریجن میں 3200 روپیہ فی من ریٹ مقرر ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دھان کی پیدوار میں نمی (موائسچر)کا بہانا بنا کر ان لوگوں نے غیر قانونی طور فی من پر تین کلو کٹوتی بھی شروع کر دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر قانونی طور پر کٹوتی کرنے اور قیمتوں میں کمی کرنے والی رائس ملز مافیا کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو وہ پورے زیریں سندھ میں احتجاجی تحریک چلائیں گے۔
بیشتر اوقات زرعی پانی کے بحران کا شکار رہنے والے زیریں سندھ کے چار اضلاع بدین، ٹھٹہ، ٹنڈو محمد خان اور سجاول میں مجموعی طور پر تقریباً 8 لاکھ ایکڑ پر دھان کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ ان میں سے بدین ضلع کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
گزشتہ سال شدید بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال میں تیں لاکھ ایکڑ پر دھان کی فصل ہوئی تھی۔ زیریں سندھ میں سرکاری طور دھان کا نہ تو ریٹ مقرر کیا جاتا ہے اور نہ ہی کاشتکاروں سے دھان خریدنے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی مراکز قائم کئے جاتے ہیں۔جس کے باعث یہاں پر دھان کی تمام خرید و فروخت رائس ملز مالکان کرتے ہیں جو کہ با اثر ہوتے ہیں۔ مل مالکان ملی بھگت کرکے ریٹ بھی مقرر کرتے ہیں اور کٹوتی بھی کرتے ہیں جس سے کاشتکاروں کو معاشی طور پر ہر سال بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
زیریں سندھ کے اضلاع بدین ، ٹنڈو محمد خان، ٹھٹہ اور سجاول میں مجموعی طور پر 240 رائس ملز ہیں جہاں پر ہرسال بڑے پیمانے پر دھان کی خریداری کی جاتی ہے
صرف تحصیل گولاڑچی میں 105 بڑی رائس ملیں قائم ہیں، جن میں سے گولاڑچی شہر میں 80 جبکہ 20 کڑیو گھنور میں اور پانچ کھورواہ نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں ہیں۔ مجموعی طور پر ہر رائس ملز دو لاکھ من دھان کی خریداری کا ہدف ملتا ہے۔
محمد سعید جت کا تعلق گولاڑچی سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود خانانی جت گاؤں سے ہے۔ وہ چھوٹے کاشتکار ہیں جنہوں نے اپنی 80 ایکڑ زمین پر دھان کی فصل کاشت کی ہے۔ سعید جت نے بتایا کہ ماضی کی نسبت ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہونے والی مہنگائی کے نتیجے میں اس سال فصل پر دگنا خرچ آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کیش پر فصل نہیں اگاتے بلکہ سارا خرچہ رائس ملز والوں سے لیتے ہیں جو کہ فصل اترنے پر دوگنا سود کے ساتھ وصول کرتے ہیں، نتیجے میں ہر سال پیداوار کا ایک بڑا حصہ وہ خرچے کی مد میں لے جاتے ہیں اور کسان کو کچھ نہیں بچتا۔
انہوں نے بتایا کہ مہنگائی کے باعث تیل، زرعی ادویات اور کھاد نہ صرف دو گنا قمیت پر مل رہی ہے بلکہ اس پر سود الگ دے رہے ہیں۔
مجموعی طور پر فی ایکڑ دھان کی کاشت پر اس سال ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ خرچہ آیا ہے، اب یہ عالم ہے کے ملز مالکان نے دھان کی قمیت کم کرلی ہے اور کٹوتی بھی کر رہے ہیں جس سے کاشتکاروں کو بڑا معاشی نقصان ہو رہا ہے۔
دوسری جانب رائس ملز ایسوسی ایشن گولاڑچی کے صدر سیٹھ کیشومل اکرانی کا موقف ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اچانک کمی سے عالمی مارکیٹ میں چاول کی قیمتیں گر گئی ہیں جس کا اثر مقامی مارکیٹ پر بھی ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مہینہ پہلے کراچی میں ایکسپورٹر ان سے فی کلو 160 روپے کے حساب سے چاول خریدتے تھے۔ اس وقت دھان کی فی من قیمت 4500 روپے تک تھی۔ اس کے بعد اچانک چاول کی قیمت گر کر فی کلو 125 روپے ہوگئی ہے جس کے باعث دھان کا ریٹ بھی نیچے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پتے جھلساؤ: کاشت کاروں اور زرعی مزدوروں کی محنت بھسم، 'چاول کے شہر' میں مایوسی کے ڈیرے
ان کا کہنا ہے کہ وہ کاشتکاروں سے 3000 روپیہ فی من دھان خرید رہے ہیں جو اچھا ریٹ ہے اور اس سے کاشتکاروں کو نقصان نہیں بلکہ منافع ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ یہاں پر کاشت کار گیلا مال مارکیٹ میں لے آتے ہیں جس کو وہ سُکھا کر پھر چاول نکالتے ہیں۔ 20 فیصد تک موائسچر فری ہے جبکہ اس سے زیادہ نمی پر وہ فی من پر ایک سے دو کلو کٹوتی کرتے ہیں۔
محکمہ زراعت ضلع بدین کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایگریکلچر امتیاز علی بھٹو نے بتایا کہ زرعی اجناس کا ریٹ مقرر کرنا ہمارا کام نہیں ہے، جبکہ مارکیٹ میں کٹوتی کرنے یا ریٹ کم کرنے والے مل مالکان کے خلاف کاروائی کا اختیار بھی محکمے کےپاس نہیں بلکہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے۔
اس معاملے میں ڈپٹی کمشنر بدین فتاح ھلیو کا کہنا ہے کہ زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور حکومت کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ کاشتکار کو نقصان ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال رائس مل مالکان اور کاشتکاروں کی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چالیس کلوگرام پر کوئی بھی کٹوتی نہیں کی جائے گی، موائسچر 18 سے 22 فیصد فری ہوگا، اگر اس پر کوئی عمل نہیں کرتا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا اور دیگر قانونی کارروائی بھی کریں گے۔
تاریخ اشاعت 28 اکتوبر 2023