پنجاب کے وسطی ضلع حافظ آباد کے گاؤں سیرے تارڑ کے کاشت کار عابد علی پھلروان نے مقامی اور عالمی مارکیٹ میں چاول کی بڑھتی ہوئی طلب اور قیمت کو دیکھتے ہوئے اپنے چار ایکڑ زرعی رقبے میں سے تین ایکڑ پر دھان کاشت کرلی۔ انہیں امید تھی کہ وہ اس بار بہتر آمدن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اس طرح ان کے لیے اپنے بیٹے کو کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ دلوانا ممکن ہو جائے گا۔
لیکن ان کی یہ امید پوری نہ ہوسکی کیوں کہ ایک تو ان کی پیداوار بہت کم رہی ہے اور دوسرا انہیں توقعات کے مطابق منڈی میں اس کا ریٹ بھی نہیں ملا۔ اس لیے انھوں نے اپنے انٹرمیڈیٹ پاس بیٹے کو کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخل کرانے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔
فصل کی پیداوار کیوں کم رہی ہے اس حوالے سے عابد علی بتاتے ہیں کہ جب ان کی فصل دانہ بنانے کے مرحلے میں داخل ہوئی تو اس کے پتے اور شاخیں پیلے پڑنے لگے تھے جس سے مطلوبہ مقدار اور سائز کا دانہ نہیں بن سکا یوں ان کی پیداوار جو 60 من ہوسکتی تھی 35 من تک رہ گئی۔ اس کے علاوہ انہیں منڈی میں فصل کی قیمت چار ہزار فی من ملی۔
" کسانوں کو امید تھی کہ اس بار انہیں چھ سے آٹھ ہزار روپے فی من قیمت ضرور ملے گی لیکن قسمت نے یاوری نہیں کی۔ میری فصل پر 'پتےجھلساؤ' نامی بیماری کا حملہ ہوگیا تھا جو کسی بھی زرعی دوا سے دور نہیں ہوئی اور نہ ہی اس وقت محکمے زراعت کے کسی افسر کی طرف سے کوئی رہنمائی ملی۔"
عابد علی کا کنبہ پانچ افراد پر مشتمل ہے۔ ان کے بڑے بیٹے کے علاوہ دو اور بچے بھی ہیں جنہوں نے ابھی سکول جانا شروع نہیں کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ گھر کا ایک ماہ کا خرچ 60 سے 70 ہزار روپے ہے۔ چاول کی فصل سے انھوں نے چھ ماہ میں دو لاکھ دس ہزار اور اس سے پہلے گندم کی تین ایکڑ فصل سے ڈیڑھ لاکھ روپے آمدن حاصل کی تھی۔
ان کے بقول سال بھر کے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے انہیں 10 لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں جبکہ اس سال انہیں کھیتی باڑی سے تین لاکھ 60 ہزار روپے آمدن ہوئی ہے۔ اب وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلائیں۔
عابد علی اپنے بیٹے کو کسی فیکٹری میں نوکری کے لیے بھیج دیں گے تاکہ گھر میں اضافی آمدنی آئے کیونکہ اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث گھریلو اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور ان کا بجلی کا بل بھی کم از کم 15 ہزار روپے آنے لگا ہے۔
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے زیر انتظام لاہور کے قریب کالا شاہ کاکو کے مقام پر قائم رائس ریسرچ پروگرام کے ادارے کے پروگرام لیڈر ڈاکٹر شہباز حسین کے بقول پتوں کے جھلساؤ کی اس بیماری کو سائنس کی زبان میں بیکٹیریل لیف بلائٹ کہا جاتا ہے۔ جو ایک خاص بیکٹیریا سیوڈوموناس سیرنج پی وی- سیرنج کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ان کے مطابق بیماری سے متاثرہ پودوں کے پتوں کی اوپری سطح پر چاروں طرف پیلے دائرے کے ساتھ چھوٹے سیاہ دھبے نظر آتے ہیں۔ یہ بیماری پورے کھیت کے بجائے اسے کے مختلف حصوں میں رونما ہوتی ہے اور اگر اس کا حملہ اس وقت ہوجائے جب پودا ابتدائی مرحلے میں پھل پھول رہا ہوتا ہے تو یہ زیادہ نقصان کرتی ہے اور اگر اس کا حملہ دانہ بنانے کے مرحلے میں ہوجائے تو بھی یہ فصل کی پیداوار کو دس فیصد تک متاثر کرسکتی ہے۔
ڈاکٹر شہباز کہتے ہیں کہ یہ بیماری پچھلے سالوں میں بھی آتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ یہ زیادہ ہے اور چاول کی باسمتی اقسام کے بھی اس بیماری سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
ضلع حافظ آباد کے کسان آصف کمبوہ کا شمار علاقے کے جدت پسند کاشت کاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اس بار اپنے 12 ایکڑ رقبے پر چاول کی فصل کاشت کر رکھی ہے اور ان کو بھی یہ خدشہ لاحق ہے کہ اس بار ان کی فصل کی پیداوار مایوس کن رہے گی۔
انھوں نے ابھی تک فصل کی کٹائی نہیں کی لیکن ان کے بقول جھلساؤ کی بیماری نے ان کے کھیت کو بھی کافی حد تک متاثر کیا ہے۔
آصف کمبوہ کہتے ہیں کہ یہ بیماری ان کے پورے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ جس سے ناصرف کسانوں کو نقصان ہوگا بلکہ یہاں پر کاشت کار اور زرعی مزدور کا تو روزگار متاثر ہو گا لیکن اس کے ساتھ ملک کو بھی نقصان ہو گا کیونکہ چاول کی برآمد سے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
ان کے مطابق چاول کی بوائی اور کٹائی پر جتنا خرچہ ہو ا ہے اس لحاظ سے غلہ منڈی میں قیمت نہیں مل رہی جس کی وجہ سے کاشتکاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس بار فصل کو جس حد تک نقصان پہنچ چکا ہے اس سے آئندہ سال وہ چاول کم مقدار میں کاشت کریں گے۔
پاکستان میں چاول کا شعبہ برآمدی آمدنی، گھریلو روزگار، دیہی ترقی اور غربت میں کمی کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ چاول پاکستان میں ایک اہم خوراک کے ساتھ ساتھ نقد آور فصل بھی ہے۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اٹھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی ) کی سالانہ امپورٹ ایکسپورٹ رپورٹ 2023 کے مطابق چاول، کپاس کے بعد دوسری بڑی برآمدی جنس ہے اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ 0.4 کا حصہ ہے۔
چاول کے شہر کی مشکلات
لاہور سے موٹر وے پر اسلام آبا کی طرف سفر کرتے ہوئے 80 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا بل بورڈ نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے جس پر THE CITY OF RICE لکھا ہوا ہے جسے پڑھنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ضلع حافظ آباد چاول کی ایک بڑی منڈی ہے۔
حافط آباد کو 1992میں ضلع کا درجہ دیا گیا جبکہ اس سے پہلے وہ گوجرانوالہ کی ایک تحصیل تھی۔
صوبائی محکمہ زراعت کے مطابق خریف کے موسم میں ضلع حافظ آباد کے 94 فیصد رقبے پر چاول کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ اس ضلع میں کل زیر کاشت رقبہ چار لاکھ 67 ہزار 939 ایکڑ ہے اور پچھلے سال یہاں پر تین لاکھ 73 ہزار ایکڑ رقبے پر چاول اگائے گئے تھے۔
حافظ آباد کو ضلع کا درجہ ملنے کے بعد سے یہاں پر چاول کی کاشت میں تقریبا دو گنا تک اضافہ ہوا ہے۔ 1992 میں یہاں دو لاکھ 11 ہزار ایکڑ رقبے پر چاول لگے تھے جو پچھلے سال تک تین لاکھ 73 ہزار ایکڑ تک پہنچ چکے ہیں۔
اس ضلع کا باسمتی چاول دنیا بھر میں اپنے ذائقے اور خوشبو کے لحاظ سے شہرت رکھتا ہے۔
نئی مردم شماری کے مطابق ضلع حافظ آباد کی آباد 13 لاکھ 20 ہزار ہے جبکہ لیبر فورس سروے 2020-21 کے مطابق اس ضلع میں 3 لاکھ 77 ہزار 400 افراد محنت مزدوری کرتے ہیں جن میں سے 39 فیصد کا روزگار زراعت اور 28 فیصد کا انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ اس ضلع میں زیادہ تر انڈسٹری چاول سے منسلک ہے۔
ضلع حافظ آباد میں 40 سے زیادہ بڑی اور چھوٹی رائس ملیں ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں مزدور کام کرتے ہیں۔
کسانوں کی ایک غیر سرکاری تنظیم 'کسان بورڈ' کے نائب صدر امان اللہ چٹھہ کا تعلق بھی حافظ آباد سے ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس بیماری سے پورے صوبے میں چاول کی فصل متاثر ہوگی۔ تاہم ان کے ضلعے کے کاشت کاروں اور بیشتر مزدوروں کے لیے یہ فصل بہت اہم ہے اس لیے ان کا سب سے زیادہ نقصان ہو گا۔
ان کے خیال میں جب یہ بیماری شروع ہوئی تو اس وقت محکمہ زراعت کو موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں تھے لیکن مشکل وقت میں محکمے نے کسانوں کو تنہا چھوڑ دیا۔
امان اللہ کہتے ہیں کہ جب فصل تیار نہیں تھی تو اس وقت چاول کی موٹی اقسام کے نرخ پانچ ہزار روپے فی من تھے لیکن جیسے ہی فصل منڈی میں آنا شروع ہوئی ہے تو اس کے نرخ 3500 روپے فی من تک گر گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
چاول کی فصل کے ڈنٹھل غلط طریقے سے تلف کرنے کے ماحولیاتی اثرات: کھیتوں میں لگی آگ کو کون روکے گا؟
ان کا کہنا ہے کہ چاول ایک ایسی جنس ہے جسے کاشتکار مناسب قیمت ملنے کے انتظار میں زیادہ دیر تک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اسے سٹور کرنے کے لئے پہلے خشک کرنا پڑتا ہے ۔ دھان خشک کرنے والی مشین عام کاشتکار کی پہنچ سے باہر ہے اور پاسکو بھی دھان کی خریداری پر توجہ نہیں دیتا جس کی وجہ سے کاشتکار کو چند دن کے اندر اندر دھان کو سرمایہ داروں اور رائس ڈیلروں کے پاس فروخت کرنا پڑتا ہے وہ بتاتے ہیں کہ آڑھتی یا ایکسپورٹرز فصل کی ادائیگیوں میں بھی تاخیر کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ دار ملز مالکان اپنی مرضی کے نرخوں پر دھان خریدتے ہیں اور چند ماہ بعد اپنی مرضی سے مارکیٹ میں فروخت کرنے ہیں۔ کاشتکار کی مشقت کا بہت زیادہ فائدہ سرمایہ دار لے جاتا ہے۔
امریکی محکمہ زراعت کی غیرملکی زرعی سروس کے ادارے کی طرف سے 28 سمتبر 2023 کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں سیزن کی فصل مارکیٹ میں آںا شروع ہوگئی ہے اور رواں سال پاکستان میں 9.0 ملین میٹرک ٹن پیداوار متوقع ہے۔ کسانوں کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کی قیمت کافی اچھی ہے اور دوسرا بھارت نے اپنی ایکسپورٹ پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور اس طرح پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
اگلے مالی سال پاکستان سے 4.8 ملین میٹرک ٹن چاول کی برآمد کا تخمینہ ہے جو سال 2021-22 سے لگ بھگ قریب ہے جب ملک میں ریکارڈ 9.3 ملین ٹن چاول کی فصل ہوئی تھی۔
تاریخ اشاعت 14 اکتوبر 2023