ضلع دادو کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ کے ایک خیمہ سکول میں پرائمری سکول کے بچے مشکل حالات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس آنے والے سیلاب کے اثرات نے تاحال اس علاقے کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر ہے۔
عرضی نائچ نامی گاؤں میں واقع اس سکول میں پسینے میں شرابور تیسری اور پانچویں جماعت کے طالب علم فراز اور فیاض بتاتے ہیں کہ خیمے میں گرمی کی شدت اتنی ہے کہ پڑھنا لکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔
گزشتہ برس ایم این وی ڈرین اور سپریو بند سے داخل ہونے والا سیلابی پانی عرضی نائچ کے بوائز پرائمری سکول کے علاوہ مڈل سکول اور گرلز پرائمری سکول میں جا پہنچا تھا۔
عرضی نائچ میں سو سے زیادہ بچوں کو تعلیم دینے والے بوائز سکول کی عمارت شکستہ ہو گئی ہے۔ اسی گاؤں میں واقع مڈل سکول کے استاد عبدالستار نائچ نے بتایا کہ سیلابی پانی سے سکول کی بیرونی دیوار منہدم ہو گئی اور کمرے اور واش روم بھی گر گئے تھے۔
"پانی اترنے پر یونیسف اور سیو دی چلڈرن نامی غیر سرکاری تنظیم نے خیمے لگا کر عارضی سکول قائم کرنے میں مدد دی۔ البتہ گرمیوں میں خیمے کے اندر پڑھنا اور پڑھانا کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ 10 مہینوں سے بچے اسی خیمے میں زیرتعلیم ہیں۔ بارشوں کا موسم لوٹ آیا ہے لیکن سکول کا تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا۔"
انہوں نے بتایا کہ 2010ء میں آنے والے سیلاب کے دوران بھی سکول کی عمارت پانی میں گھس آیا تھا مگر یہ قائم رہی۔
یہاں سے چند کلومیٹر دور گرلز پرائمری سکول لدھاں کی طالبات خستہ حال کمرے کے فرش پر چٹایاں بچھائے بیٹھی ہیں۔
چوتھی جماعت کی طالبہ سلمیٰ کہتی ہیں کہ سیلاب کے بعدچند ماہ تک سکول بند رہا۔ پانی خشک ہونے کے بعد طالبات واپس آئیں تو کرسیاں اور ڈیسک کھڑے پانی میں خراب ہو چکے تھے۔ اب سکول کی ڈیڑھ سو طالبات تین کمروں میں فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
گزشتہ برس آنے والے سیلاب نے خیرپور ناتھن میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ چار لاکھ نفوس پر مشتمل اس تحصیل کے بیشتر علاقوں میں تین ماہ تک پانی کھڑا رہا۔ اس دوران مقامی سماجی کارکن عابد ببر اپنی کشتی میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچاتے رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خیرپور ناتھن شاہ کی 18 میں سے 15 یونین کونسلوں میں پانی ہی پانی تھا۔ صرف سیتا، بورڑی اور ککڑ محفوظ رہیں۔ بیشتر سکولوں کی عمارتیں گر گئیں یا ان کی بنیادیں ہل گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ عرضی نائچ اور لدھاں کے علاوہ کئی گاؤں جیسا کہ محمد بخش لغاری، لولجا، کاتڑی اور ستار ڈنو ڈیپر میں سکول خیموں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سکولوں کی بحالی کا کام شروع نہیں ہوا۔ خیمے بھی تھر دیپ، سیو دی چلڈرن اور دیگر غیر سرکاری تنظیمیں دے رہی ہیں۔
خیرپور ناتھن شاہ میں تعلقہ ایجوکیشن آفیسر پرائمری لطف علی کھوسو نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گزشتہ سیلاب میں اس تحصیل کی 15 یونین کونسلوں کے سارے پرائمری سکول پانی میں ڈوب گئے تھے۔ پٹڑائی بگھیو، ٹھارو آرائیں اور جبل ببر کے پرائمری سکولوں کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی عمارتیں گر چکی ہیں۔
ان کے مطابق پٹڑائی بگھیو نامی گاؤں میں ایک گرلز پرائمری سکول کی طالبات اس گرمی میں درخت کے نیچے پڑھ رہی ہیں۔ واش روم گر چکے ہیں جن کی غیر موجودگی میں لڑکیوں کو بہت دشواری ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تھردیپ اور بعض دیگر غیر سرکاری تنظیمیں واش روم کی تعمیر کے لیے سروے کر رہی ہیں۔ تاہم سکول کی تعمیر کا کوئی شیڈول نہیں دیا گیا۔
لطف علی کھوسو نے بتایا کہ خیرپور ناتھن شاہ میں پرائمری سکولوں کی کل تعداد 335 ہے۔ ان میں 52 گرلز اور 283 بوائز سکول ہیں جن میں کل 32 ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ لڑکیوں کے آٹھ اور لڑکوں کے 30 پرائمری سکول مکمل طور پر خیموں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ: خیرپور کی بستی مہیر ویسر کا سرکاری سکول تین ماہ سے زیر آب، بچوں کی تعلیم چھوٹ گئی
خیرپور ناتھن شاہ میں تعلقہ ایجوکیشں آفیسر سیکنڈری علی بخش چانڈیو نے بتایا کہ تحصیل میں 17 ہائی اور سیکنڈری سکول قائم ہیں جن کا انفراسٹرکچر جزوی یا کلی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
28 مئی کو محتسب اعلیٰ سندھ نے علاقے کا دورہ کیا اور ان سکولوں میں طلبا و طالبات کو درپیش مشکل حالات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے حکام کو سکولوں کی مرمت اور تعمیر کا کام مکمل کر کے رپورٹ دینے کی ہدایت کی۔
ضلع دادو میں محکمہ ایجوکیشن ورکس کے انجنیئر محمد جمن زرداری کا کہنا ہے کہ محکمے نے تحصیل کے تمام سکولوں کی مرمت کے ٹینڈر جاری کر دیے ہیں اور ان کی تعمیر بھی جلد شروع ہو جائے گی۔
تاریخ اشاعت 22 جولائی 2023