راجن پور کا ریلوے سٹیشن جہاں تین سال سے سیٹی نہیں بجی

postImg

ونیزہ خان

postImg

راجن پور کا ریلوے سٹیشن جہاں تین سال سے سیٹی نہیں بجی

ونیزہ خان

"راجن پور میں ریل گاڑی کیا بند ہوئی میرا تو کاروبار ہی ختم ہو گیا"۔ یہ کہنا تھا شہر کے نواحی علاقے شکار پور کے رہائشی پیریں ڈتہ کا۔ وہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں عمارتیں رنگ و روغن کرنے کا کام کرتے تھے۔

کورونا کی وبا کے دوران ہونے والے لاک ڈاؤن سے وہ اور ان کے ہمراہ کام کرنے والے سات مزدور بے روزگار ہو گئے۔

یہ سب خوشحال خان خٹک ایکسپریس کے ذریعے کراچی جایا اور آیا کرتے تھے۔ راجن پور سے صرف یہی ریل گاڑی کراچی جاتی تھی۔

لاک ڈاؤن کے خاتمے پر کراچی جانے کے لیے وہ ان مزدوروں کو ساتھ لے کر ریلوے سٹیشن پہنچے۔وہاں انہیں بتایا گیا کہ یہ ٹرین بند کر دی گئی ہے۔

پیریں ڈتہ کا کہنا ہے کہ بس والے ٹرین کی نسبت بہت زیادہ کرایہ لے رہے تھے جو ان کے پاس نہیں تھا۔ اس لیے وہ کراچی نہ جا سکے۔

2021ء سے راجن پور ریلوے سٹیشن بالکل بند پڑا ہے۔

پیریں ڈتہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جن دنوں وہ ریل گاڑی سے سفر کیا کرتے تھے راجن پور سے کراچی کا کرایہ 950 روپے تھا جو ان کے لیے قابل برداشت تھا۔تاہم وہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں بس کا کرایہ زیادہ تھا۔

"آج راجن پور سے کراچی جانے والی بس کا کرایہ تین ہزار روپے ہے"۔

پاکستان ریلوے کے کرایوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج راجن پور سے کراچی ٹرین چل رہی ہوتی تو اس کی اکانومی کلاس کا کرایہ بس کی نسبت تقریباً نصف ہوتا۔

ضلع راجن پور کی آبادی 20 لاکھ کے قریب نفوس پر مشتمل ہے۔ زرعی علاقہ ہونے کے باوجود یہاں کے بیشتر لوگ دیگر شہروں میں جاکر روز گار کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

1997ء سے اب تک چار ٹرینیں بند ہوئیں

راجن پور ریلوے سٹیشن 1973ء میں قائم ہوا۔ 1997ء تک اس سٹیشن سے چار ریل گاڑیاں چلتن ایکسپریس (فیصل آباد تا کوئٹہ)، اباسین ایکسپریس (پشاور تا کوئٹہ)، خوشحال خان خٹک ایکسپریس (پشاور تا کراچی) اور پسنجر ایکسپریس (ملتان تا جیکب آباد) گزرتی تھیں۔

1997ء میں اباسین اور پسنجر بند کر دی گئیں۔ انتہائی کامیاب سروس ہونے کے باوجود 20 جولائی 2010ء کو چلتن ایکسپریس بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر بند ہو گئی۔ اس طرح راجن پور ریلوے سٹیشن ویرانی کی طرف بڑھنے لگا۔

سٹیشن ماسٹر مہتاب شاہین کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے تحت 22 مارچ 2020ء کو خوشحال خان خٹک ٹرین بند کر دی گئی تھی۔

اس سٹیشن سے ہر ماہ کم و بیش 15 سو مسافر اس ٹرین میں سفر کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے علاوہ راجن پور سٹیشن پر پانچ افراد پر مشتمل عملہ تعینات ہے۔ جب ٹرینیں زیادہ گزرتی تھیں تو عملہ بھی زیادہ تھا۔

انتیس سالہ عبدالجبار راجن پور ریلوے سٹیشن پر خوانچہ لگاتے تھے۔اس سے وہ ہزار سے 15 سو روپے تک روزانہ کما لیتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ روزگار چھن جانے کے بعد بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے۔

ریلوے سٹیشن پر قلی کا کام کرنے والے محمد کاشف کے مطابق ان کی ایک ہزار روپے دیہاڑی لگ جاتی تھی مگر اب وہ بے روزگار ہیں۔

مہتاب شاہین کے مطابق 25 اگست 2022ء  میں سیلاب سے راجن پور کے قصبے فاضل پور میں دھندی سٹیشن کی 2.7 کلومیٹر پٹڑی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی مرمت تین ماہ قبل مکمل ہوئی ہے۔

ڈی ایس ریلوے ملتان حماد حسن نے لوک سجاگ کو بتایا کہ خوشحال خان خٹک کوویڈ 19 کی وجہ سے بند ہوئی تھی۔ بعدازاں کوچز کی کمی ہو گئی جس کی وجہ سے ٹرین بحال نہ ہوسکی۔

"ٹوٹے ہوئے ٹریک کی مرمت میں بھی تاخیر ہوئی۔ چونکہ ٹریک مکمل ہو چکا ہے اس لیے امید ہے کہ خوشحال خان خٹک ٹرین جلد بحال کر دی جائے گی"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ریلوے بد انتظامی اور خسارے کا شکار کیوں ہے؟

راجن پور کے گاؤں سکھانی والا کے فرید بخش خان لاشاری زمیندار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں چار سال پہلے تک اپنی فصل کی بوائی اور کٹائی کے لیے مزدور ملنا مشکل ہوتے تھے۔ ٹرین بند ہونے سے بہت سے مزدور کراچی نہیں جا سکتے۔ یہی سبب ہے کہ اب وہ زیادہ تعداد میں دستیاب ہیں۔

ٹرکوں کی نسبت کم کرایہ ہونے کے باعث بہت سے لوگ ٹرینوں کے ذریعے سامان بھجواتے تھے۔ ٹرین کی بندش نے افرادی قوت کے ساتھ سامان کی نقل و حمل کو بھی متاثر کیا ہے۔

راجن پور کی بستی کوٹلہ عیسن کے رہائشی 65 سالہ بزرگ اللہ ڈتہ ذیابیطس کے مریض  ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برس سے وہ کراچی اپنی بیٹی سے ملنے نہیں جا سکے۔

"میں کراچی کا سفر بس میں نہیں کر سکتا۔ بس کا کرایہ زیادہ اور سفر دشوار ہے۔ بیماری کے باعث مجھے بار بار واش روم جانے کی ضرورت ہوتی ہے"۔

پیریں ڈتہ اب راجن پور میں تندور لگا کر روزی کماتے اور مشکل سے اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے راجن پور میں تعمیراتی کام بہت کم ہے لہٰذا رنگ و روغن کا کام نہیں ملتا۔

"اس لیے کراچی ہی اچھی آپشن ہے"۔

تاریخ اشاعت 27 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ونیزہ خان کا تعلق راجن پور سے ہے۔ ونیزہ ایم ایس سی کی طالبہ ہیں اور اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.