راجن پور کی زراعت کا زیادہ تر انحصار نہری پانی پر ہے۔ ضلع کو دو نہریں داجل اور جام پور لنک 3 سیراب کرتی ہیں۔ یہ دونوں تونسہ بیراج سے نکلنے والی ڈیرہ غازی خان کینال کی شاخیں ہیں۔ راجن پور میں ان دو نہروں سے مزید 17 رابطہ نہریں نکلتی ہیں۔
رودکوہی سے آنے والے سیلاب راجن پور کی نہروں سے بھی ٹکراتے رہتے ہیں جس کے باعث انہیں مرمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ علاقے کے کسانوں کو شکایت ہے کہ گزشتہ چند برس سے خستہ حال نہروں کی مرمت نہیں کی جا رہی اور پانی کم مقدار میں فراہم کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں نہری پانی بروقت نہیں ملتا۔
قطب کینال انہی میں سے ایک ہے جس کے قریب رہنے والے کسان عبدالغفار نے بتایا کہ وہ ہر سال چاول اور گندم اگاتے ہیں۔ وہ اسے نہری پانی سے سیراب کیا کرتے تھے لیکن اب نہری پانی نہ ہونے کے سبب انہیں ٹیوب ویل سے اپنی فصل کو پانی دینا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فاضل نہر، قادرا نہر، چھاچھڑ نہر، حضوری نہر، میراں پور نہر اور قطب کینال میں گزشتہ تین سال سے ضرورت کے عرصہ میں پانی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
"میں غریب کسان ہوں۔ ٹیوب ویل کے استعمال سے میرے اخراجات اور معاشی مسائل بڑھ گئے ہیں۔ جب فصل تیار ہو جاتی ہے اور پانی کی ضرورت نہیں رہتی تو نہر میں پانی آ جاتا ہے۔ نہر کے بند کمزور ہونے کی وجہ سے پانی فصلوں میں داخل ہو کر انہیں خراب کر دیتا ہے۔ نقصان سے بچنے کے لیے اس بار میں نے کوئی فصل کاشت نہیں کی۔"
شعبہ زراعت پنجاب کی ایک رپورٹ کے مطابق 18 لاکھ 69 ہزار 337 ایکڑ رقبے پر مشتمل ضلع راجن پور میں نو لاکھ 53 ہزار 105 ایکڑ اراضی زیر کاشت ہے۔ بیشتر رقبے پر گندم، کپاس، گنا اور چاول کاشت ہوتے ہیں۔ ان فصلوں کو نہری پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔
فاضل نہر کے قریب بستی بھٹہ کے عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ نومبر سے اپریل تک گندم کی فصل ہوتی ہے اور انہی مہینوں میں بعض علاقوں میں کینولا کاشت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مئی سے اکتوبر تک کپاس کی فصل کاشت کی جاتی ہے اور گنا، مکئی اور جوار بھی اگائے جاتے ہیں۔
وہ نہری پانی کی کم یابی اور فصلوں کے سیزن میں پانی نہ ملنے سے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہر فاضل کی صورت حال بھی قطب کینال جیسی ہے ۔ "جب کسان کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تو پانی نہر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بروقت نہری پانی نہ ملنے سے علاقے میں فصلوں کی پیداوار بہت کم ہوئی ہے۔"
نہری پانی کی کمی سے زیادہ تر فاضل پور، میراں پور، بمبلِی اور روجھان متاثر ہوئے ہیں۔ داجل، کوٹلہ مغلاں، کوٹلہ دیوان اور محمد پور میں بھی کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ملک کی طویل ترین نہر میں پانی کی قلت سے سندھ کی زراعت متاثر، کاشت کار زمینیں بیچنے لگے
ڈپٹی کمشنر آفس راجن پور کے ایک متعلقہ افسر محمد عقیل نے بتایا کہ محکمہ انہار کو احکامات دیے گئے ہیں کہ ایسی نہریں جن کے پشتے کمزور ہیں ان کی مرمت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اکثر نہریں جو سیلاب کے دوران ٹوٹ گئی تھیں ان کی مرمت کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور جلد ہی نہری نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔
اس سلسلے میں محکمہ آب پاشی کے ایکسیئن عبدالرؤف نے کہا کہ محکمہ آبپاشی کو نہروں کی دیکھ بھال کے لیے 17 کروڑ روپے ملتے ہیں۔ البتہ سیاسی بے یقینی کے باعث اس مرتبہ فنڈ نہیں ملے جس سے نہروں کی مرمت کے کام میں مشکل پیش آئی۔ اب انہیں فنڈ مہیا کر دیے گئے ہیں اور وہ نہروں کی خستہ حالی کو دور کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ماہر زراعت توقیر قادر کے مطابق اس عرصے میں نہری پانی میں 60 فیصد تک کمی ہوئی۔ نہروں کی ٹوٹ پھوٹ اور پانی کی کمی نے کسانوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے جنہیں شکایت ہے کہ پانی گھٹ جانے کی وجہ سے کسان ٹیوب ویل سے اپنی زمینیں سیراب کرنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح ان کی لاگت بڑھ گئی ہے اور منافع کم ہو گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 13 اکتوبر 2023