'ہمیں پینے کا پانی میسر نہیں جبکہ بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنائے جا رہے ہیں'۔

postImg

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'ہمیں پینے کا پانی میسر نہیں جبکہ بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنائے جا رہے ہیں'۔

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

سومرہ کالونی کے 60 سالہ رہائشی تاج محمد سومرہ ستمبر 2021 کی ایک دوپہر کو ایک ایسے قدرتی تالاب سے پانی پی رہے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "جب کبھی بارش ہوتی ہے تو ہم اس تالاب کا پانی استعمال کرتے ہیں ورنہ ہمیں صاف پانی کی تلاش میں روزانہ تین چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے"۔ 

اس کالونی کے ساتھ ہی دو بڑے بڑے مصنوعی تالاب موجود ہیں لیکن مقامی باشندے ان میں جمع ہونے والا پانی استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی تعمیر کا واحد مقصد قریب ہی واقع کوئلے سے چلنے والے دو بجلی گھروں کو پانی فراہم کرنا ہے تاکہ ان کی مشینری کو ٹھنڈا رکھا جا سکے۔  

سومرہ کالونی ویجےہار نامی گاؤں کا حصہ ہے۔ لگ بھگ تین ہزار گھروں پر مشتمل یہ گاؤں سندھ کے صحرائی ضلعے تھرپارکر میں اسلام کوٹ نامی قصبے سے 30 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے۔ یہاں راجپوت، سومرہ، بھیل اور کولہی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں جن کا ذریعہ آمدن کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔

سندھ کی صوبائی حکومت نے اس کالونی کے مغرب میں 80 ایکڑ لمبا اور دو ایکڑ چوڑا پہلا تالاب 2014 میں بنانا شروع کیا جبکہ اس کے جنوب میں دو سو ایکڑ لمبے اور دو ایکڑ چوڑے دوسرے تالاب کی تعمیر دو سال پہلے شروع ہوئی۔ 

پہلے تالاب میں ابھی کچھ بارشی پانی جمع ہے جبکہ دوسرا تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ ان کے لیے درکار پانی تھرپارکر کے شمال میں واقع ضلع عمرکوٹ کے مقام فرش-مکھی سے لایا جائے گا۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں یہ پانی ایک نہر کے ذریعے نبی سر نامی جگہ پر بنائے گئے ایک تالاب تک لایا جائے گا جہاں سے دوسرے مرحلے میں اسے 65 کلومیٹر لمبی پائپ لائن کے ذریعے ویجےہار کے تالابوں تک پہنچایا جائے گا۔ 

تالابوں کے متاثرین کیا چاہتے ہیں؟

مقامی لوگ ان تالابوں کی تعمیر سے خوش نہیں۔

ان کی ناخوشی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہ تالاب گاؤں کے بیچوں بیچ تعمیر کیے گئے ہیں جس سے ان کے روایتی راستے منقطع ہو گئے ہیں۔ تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے ماہرِ ماحولیات صدیق راہیموں کہتے ہیں کہ تالابوں نے مقامی لوگوں کی زندگی اس قدر مشکل بنا دی ہے کہ انہیں "اپنے قبرستانوں، چراگاہوں اور کھیتوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بھی پہلے کی نسبت کہیں لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے"۔ 

دوسرے تالاب کی تعمیر سے ان کے لیے یہ اضافی مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ ویجےہار کو اسلام کوٹ سے جوڑنے والا واحد براہِ راست راستہ بھی بند ہو گیا ہے۔ 

تاج محمد سومرہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں نے متعدد بار حکومتی اہل کاروں کو ان مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ ان کے مطابق صوبائی محکمہ مال کے عہدیداروں نے خود بھی 2014 کے اوائل میں ویجےہار کا دورہ کیا جس میں "گاؤں والوں نے انہیں اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تالابوں سے نہ صرف گاؤں کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی بلکہ اس کے روایتی راستے بھی ختم ہو جائیں گے اور اس کے استعمال شدہ پانی کی نکاسی رک جائے گی"۔

مقامی باشندوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ تالابوں کی تعمیر کے لیے ان کی زمینیں ان کی رضامندی کے بغیر ہی لے لی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014 سے لے کر اب تک  حکومت نے 840 ایکڑ مقامی زمین اپنے قبضے میں لی ہے جس میں 700 ایکڑ ایسی اراضی بھی شامل ہے جسے یہاں کے رہنے والے لوگ مشترکہ چراگاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

تاج محمد سومرہ کہتے ہیں کہ "زمینوں کے جبری اور غیر منصفانہ حصول کے خلاف مقامی باشندوں نے کئی احتجاج کیے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے اسلام کوٹ میں احتجاجی کیمپ بھی لگایا اور پریس کانفرنس کا اہتمام بھی کیا لیکن آج تک ہمارا ایک مطالبہ بھی نہیں مانا گیا"۔  

جب محکمہ مال اور تھرپارکر کی ضلعی انتظامیہ نے ان کے کسی مطالبے پر کان نہ دھرے تو تاج محمد سومرہ نے اندر سنگھ ٹھاکر نامی مقامی باشندے سے مل کر پہلے تالاب کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار کے خلاف مٹھی کی سیشن کورٹ میں ایک مقدمہ بھی دائر کیا۔ اس مقدمے کی کارروائی کے دوران عدالت نے کمپنی کو نوٹس جاری کیا جس کے بعد، تاج محمد سومرہ کے مطابق، اس کے مینیجر نے دونوں درخواست گزاروں سے ملاقات کی اور انہیں مقدمہ واپس لینے کےلیے ڈرایا دھمکایا۔

نتیجتاً، وہ کہتے ہیں کہ مئی 2014 میں یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا اور گاؤں کے لوگوں نے بادلِ ناخواستہ اپنی زمین کمپنی کے حوالے کر دی۔ 

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار: 'ہماری زمینیں زبردستی لی جا رہی ہیں اور ہمارا رہن سہن بدلا جا رہا ہے'۔

تاہم اب ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں اس زمین کا منصفانہ معاوضہ دیا جائے۔ تاج محمد سومرہ کا کہنا ہے کہ فی الحال حکومت نے ملکیتی زمین کا معاوضہ ایک لاکھ روپے فی ایکڑ جبکہ غیر ملکیتی زمین کا معاوضہ 50 ہزار روپے فی ایکڑ دیا ہے جبکہ تھرپارکر ہی کے دوسرے حصوں میں اسی طرح کے منصوبوں کے لیے لی گئی زمینوں کا معاوضہ بالترتیب دو لاکھ 50 ہزار روپے اور ایک لاکھ 80 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے دیا گیا ہے۔  

لیکن اس مطالبے پر عمل درآمد تو دور کی بات، 2019 میں حکومت نے دوسرا تالاب بھی بنانا شروع کر دیا چنانچہ اس کے لیے درکار زمین کے حصول کو روکنے کے لیے ویجےہار کے لوگوں نے احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔

انہوں نے اس چینی کمپنی کے دفاتر کے باہر دھرنا دیا جس کے بجلی بنانے کے کارخانے میں اس تالاب کا پانی استعمال ہو گا اور مختلف منتخب نمائندوں سے رابطہ کر کے ان سے کہا کہ تالاب کو ان کی بستی سے دور منتقل کیا جائے۔ انہوں نے 13 جولائی 2020 کو تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر سے بھی یہی مطالبہ کیا اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ انہیں ان کی روایتی گزرگاہوں سے محروم نہ کیا جائے۔

اس وقت کے ڈپٹی کمشنر عبداللہ سوہو اور محکمہ آبپاشی کے سب ڈویژنل آفیسر سلیم مہر نے ان مطالبات کے جواب میں تالاب کی جائے تعمیر کا دورہ کیا اور 18 دسمبر 2020 کو ویجےہار میں ایک کھلی کچہری منعقد کی جس میں مقامی دیہاتیوں نے ایک بار پھر اپنے مطالبات پر زور دیا۔ ڈپٹی کمشنر نے انہیں یقین دلایا کہ دوسرا تالاب ان کے تحفظات دور کرنے کے بعد ہی تعمیر کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گاؤں والوں کو اس کے آر پار گزرنے کے لیے راستہ بھی فراہم کیا جائے گا۔  

اس کھلی کچہری کو ہوئے دس ماہ گزر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ضلعی انتظامیہ نے اب تک اس ضمن میں کوئی عملی اقدامات نہیں کیے۔ اس دوران دوسرے تالاب کی تعمیر تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔  

صحرا میں سیلاب کا خطرہ 

تاج محمد سومرہ کو یہ بھی شکایت ہے کہ دونوں تالابوں کی تعمیر ناقص طریقے سے کی گئی ہے جو مقامی آبادی کے لیے ایک بڑے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
ان کے مطابق تالابوں کی دیواروں میں ابھی سے دراڑیں پڑ چکی ہیں جن کے ذریعے بارشی پانی زمین میں رستا رہتا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے تالابوں کی بنیادیں کمزور ہو جائیں گی اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا جس کے نتیجے میں ان میں جمع شدہ پانی سیلاب کی صورت میں قریبی آبادیوں میں پھیل سکتا ہے۔ 

تاج محمد سومرہ کہتے ہیں کہ بھیل اور ٹھاکر برادریوں کے 40 خاندان اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ وہ تالابوں کی بیرونی دیوار سے محض 20 میٹر جنوب میں آباد ہیں۔ اسی طرح کا مسئلہ سومرہ پیرو محلے کے تقریباً 70 خاندانوں کو بھی درپیش ہے کیونکہ وہ ایک تالاب کی بیرونی دیوار سے صرف 50 میٹر شمال میں رہتے ہیں۔

صدیق راہیموں بھی ان خدشات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "مون سون کے موسم میں جب بارشوں کی وجہ سے ان تالابوں میں کافی مقدار میں پانی جمع ہو جاتا ہے تو ویجےہار کے باسی بدترین خوف کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کہیں یہ پانی تالابوں کی دیواریں توڑ کر باہر نہ نکل آئے اور ان کے گھروں کو بہا نہ لے جائے"۔ 

تاریخ اشاعت 13 اکتوبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

زاہد علی ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور متعلقہ موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارسی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ارسا (ترمیمی) آرڈیننس 2024 اور اس کے اثرات: نور کاتیار

ارسا ترمیم 2024: مسئلے کا ایک حصہ: محمود نواز شاہ

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.