یکساں قومی تعلیمی نصاب: 'اقلیتی طلبا مسلمان طلبا سے بالکل کٹ جائیں گے'۔

postImg

فاطمہ رزاق

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

یکساں قومی تعلیمی نصاب: 'اقلیتی طلبا مسلمان طلبا سے بالکل کٹ جائیں گے'۔

فاطمہ رزاق

loop

انگریزی میں پڑھیں

کچھ عرصہ پہلے صوبہ سندھ کے شہر شہداد کوٹ کے ایک سکول میں دن کا آغاز اسی طرح طلبا کی اسمبلی سے ہوا جیسے پاکستان میں ہر جگہ ہوتا ہے۔ سکول کی یونیفارم پہنے بچے کھیل کے میدان میں قطاریں بنا کر کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے تلاوتِ قرآن کی اور دوسرے نے پیغمبرِ اسلام کی شان میں نعت پڑھی۔ اس کے بعد تیسری جماعت کے ایک طالب علم نے حب الوطنی کے موضوع پر ایک پرجوش تقریر کی۔ 

جب مقرر نے زور دے کر کہا کہ "اگر قراردادِ پاکستان نہ ہوتی تو ہندو ہمیں کچا چبا جاتے" تو  تقریر سننے والے طلبا نے اپنے اساتذہ کی قیادت میں تالیاں بجائیں۔ تاہم قطاروں میں کھڑے کچھ طلبا نے اس بات پر بے چینی سے پہلو بدلا ۔ یہ ہندو طلبا تھے۔  

یہ واقعہ شہداد کوٹ سے تعلق رکھنے والی ایک 24 سالہ سماجی کارکن نے سنایا ہے جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "سکول انتظامیہ میں کسی کو یہ پروا نہیں تھی کہ اس وقت ان کے سامنے کھڑے طلبا میں بہت سے ہندو اور مسیحی بھی شامل تھے"۔ 

وہ کہتی ہیں جب وہ خود سکول میں پڑھتی تھیں تو انہیں بھی اپنے مذہب کی بنیاد پر کئی مرتبہ معاندانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے بقول "دوسرے طلبا ایک ہندو لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتے تھے حتیٰ کہ وہ میرے سامنے کھانے پینے سے بھی گریز کرتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر میں نے غلطی سے بھی ان کے لنچ باکس کو ہاتھ لگا لیا تو ان کا کھانا ناپاک ہو جائے گا"۔ 

پاکستانی طلبا میں اس طرح کی عدم روداری بڑی حد تک ان باتوں سے جنم لیتی ہے جو انہیں سکول میں پڑھائی جاتی ہیں۔ حکومت کی منظور شدہ نصابی کتابیں ایسے مواد سے بھری پڑی ہیں جو نا صرف غیر مسلم پاکستانیوں کے حوالے سے متعصبانہ ہے بلکہ بعض اوقات تو اس سے ان کے خلاف نفرت بھی جنم لیتی ہے۔"مکار ہندوؤں نے مسلم لیگ کے خلاف سازش کی" جیسے فقرے کئی نصابی کتابوں میں عام ملتے ہیں۔

یکساں قومی نصاب نامی حکومتی اقدام نے اس صورت حال کو اور بھی خراب کر دیا ہے۔ 

وفاقی حکومت کے اس اقدام کے تحت چھاپی گئی نصابی کتابوں پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نصاب میں غیر مسلم پاکستانیوں کے خدشات زیرِ غور نہیں لائے گئے۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے لاہور کے ادارے 'سنٹر فار سوشل جسٹس' کے ایک جائزے میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ان کتابوں میں بہت سا مواد مذہبی اقلیتوں کو نا صرف امتیازی نکتہِ نظر سے پیش کرتا ہے بلکہ اس میں ان کے حوالے سے متعصبانہ باتیں بھی لکھی ہیں اور ان سے نفرت پر مبنی بیانیہ بھی شامل ہے۔ 

'معیاری تعلیم بمقابلہ متعصبانہ خواندگی' نامی اس جائزے میں بتایا گیا ہے کہ دوسری جماعت کی اردو کی کتاب کے سات میں سے چار ابواب میں اسلام کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ اس کتاب میں مضمون نویسی اور فقروں کی بناوٹ جیسے موضوعات میں دی جانے والی مثالیں بھی مسلم مذہبی تاریخ سے لی گئی ہیں۔ اس میں تواتر سے یہ بات بھی درج ہے کہ پاکستانی ہونے کا مطلب دراصل مسلمان ہونا ہی ہے۔

اس طرح کی مثالوں کی بنیاد پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیات اور بہت سے تعلیمی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یکساں قومی نصاب غیر مسلم پاکستانیوں کو تعلیمی اعتبار سے تنہا کرنے کا باعث بنے گا۔ ایسے لوگوں میں لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف استاد اور جوہری توانائی کے فوجی استعمال کے معروف مخالف ڈاکٹر اے ایچ نیئر کا نام نمایاں ہے۔ 

وہ کہتے ہیں: "انگریزی، اردو اور مطالعہ پاکستان جیسے لازمی مضامین میں اسلامی احکامات سمیت بڑی مقدار میں مذہبی مواد شامل کیا گیا ہے۔ اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس طرح کی تمام چیزیں بھی پڑھیں"۔

تعلیمی موضوعات پر اخبارات میں لکھنے والی محقق عائشہ رزاق بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "یکساں نصابِ تعلیم کے تحت چھاپی جانے والی نئی کتب غیر مسلم طلبا کے لیے اجنبی ہوں گی کیونکہ ان میں جن شخصیات کا تذکرہ ہے ان میں شاید ہی کوئی غیر مسلم لکھاری یا کوئی نمایاں غیر مسلم شخصیت موجود ہو"۔ وہ یہ سوال بھی اٹھاتی ہیں کہ آیا اردو زبان کی نصابی کتاب میں 'اچھا مسلمان کیسے بنا جا سکتا ہے' جیسے مذہبی سوالات پوچھنا مناسب ہے؟

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ڈین ڈاکٹر فیصل باری کو بھی ان کتابوں میں کسی غیر مسلم 'مثالی شخصیت' کا تذکرہ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نئی نصابی کتب میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف کھلم کھلا تعصب کا اظہار اسی طرح موجود ہے جس طرح پہلے سے موجود کتابوں میں ہے۔  

حقوق نسواں کی حامی تنظیموں نے بھی انہی وجوہات کی بنا پر نئے نصاب میں مذہبی مواد کی شمولیت کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی سب سے پرانی تنظیم 'ویمن ایکشن فورم' نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں نیلم حسین اور روبینہ سہگل جیسی ممتاز ماہرین تعلیم نے حکومت کی یکساں قومی نصاب تشکیل دینے کی کوششوں کو مذہبی اقلیتوں کے لیے امتیازی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کوششوں میں تمام مذاہب کے ماننے والے طلبا کی ضرورتوں کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔  

قومی وحدت یا قومی انتشار 

یکساں قومی نصاب کی تشکیل کی بنیاد پاکستان مسلم لیگ نواز کے گزشتہ دورِ حکومت (2013 تا 2018) میں رکھی گئی۔ 2014 میں اس حکومت نے ایک قومی نصاب کونسل قائم کی جس کا مقصد ایک ایسا نصاب تیار کرنا تھا جس میں تمام مضامین ایک ایسے قومی تعلیمی معیار پر پورا اترتے ہوں جو کم از کم ملک کے ہر علاقے میں ایک جیسا ہو اور  جس میں قومی شناخت اور سماجی ضروریات پر زور دیا گیا ہو۔

اس کونسل میں وفاقی اور چاروں صوبائی وزرائے تعلیم، دو علاقائی وزرائے تعلیم، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین، تمام صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈز کے سربراہ، بری، بحری اور ہوائی فوجوں کے زیرِ اہتمام چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کے نمائندے، نمایاں ماہرین علم و تعلیم اور اسلامی مدارس کی نمائندہ انجمنوں کے سربراہوں سمیت 46 لوگ شامل تھے۔ 

اس کونسل نے اپنے پہلا فریضہ پورا کرتے ہوئے قومی نصاب کی تشکیل کے لئے ایک دائرہِ کار بنایا جس میں مندرجہ ذیل پانچ ایسے کاموں کی نشاندہی  کی گئی جو یکساں قومی نصاب بنانے کے لیے ضروری خیال کئے گئے:

•  نظریہ پاکستان کا تحفظ اور فروغ

•  قومی سالمیت، یک جہتی اور ربطِ باہمی کو یقینی بنانا

•  پڑھائی اور تعلیمی کارکردگی کے جائزے میں یکساں معیارات کو برقرار رکھنا

•  کثرت میں واحدت کی ترویج کرنا

•  اور بنیادی حقوق کے حوالے سے قومی اور عالمی ذمہ داریوں کا پاس رکھنا

یہ دائرہِ کار بنانے والوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "اسلامی یک جہتی قائم رکھتے ہوئے قومی ہم آہنگی، ربط اور مذہبی رواداری کا فروغ" ان کے لیے سب سے اہم چیز ہے۔بعد ازاں قومی نصاب کونسل کی ایک ذیلی کمیٹی نے اہمیت کے حامل معاملات میں "مسلم امہ کا اتحاد" بھی شامل کر لیا۔ 

قومی نصاب کے دائرہِ کار سے متعلق ایک دستاویز سے حاصل کردہ یہ اقتباسات یہ بات بالکل واضح کر دیتے ہیں کہ کس طرح اس سارے عمل کا آغاز ملک بھر میں تعلیم کی حالت بہتر بنانے کے لیے ایک کم از کم قومی معیار طے کرنے سے ہوا مگر آخر میں یہ پاکستان کی اسلامی شناخت کو مزید مضبوط کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ 

اگست 2018 میں جب پاکستان تحریکِ انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اس نے فوری طور پر اس قومی نصابی دائرہِ کار کو قبول کر لیا حالانکہ اسے ایک ایسی جماعت نے بنایا تھا جو سیاسی میدان میں حکمران جماعت کی سخت ترین مخالف ہے۔ بعدازاں 2019 میں وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے ایک قومی نصابی کمیٹی قائم کی جس نے یکساں قومی نصاب تشکیل دینے کا کام شروع کر دیا۔

مصنوعی اتفاقِ رائے

2020  کے وسط میں اس نصاب کا پہلا مسودہ سامنے آیا تو اسے بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں ملک بھر کے ماہرین تعلیم نے اس مسودے کی تیاری کے عمل کی شفافیت پر اعتراضات اٹھائے۔ جواب میں حکومت نے ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے 400 ماہرین کی ایک فہرست جاری کی اور کہا کہ نیا نصاب بنانے کے عمل میں ان سے مشاورت کی گئی تھی۔

نئے نصاب کی تیاری میں حکومت کو مدد دینے والی ماہرِ تعلیم مریم چغتائی اس الزام کو رد کرتی ہیں کہ یہ نصاب بند کمروں میں بیٹھ کر بنایا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں: "ہم نے اس مقصد کے لیے ایک چار روزہ تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں 400 ماہرین کے خیالات سنے گئے اور انہیں اعتماد میں لیا گیا"۔ 

لیکن کم ازم دو افراد کے حوالے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر لاہور سے تعلق رکھنے والے مورخ ڈاکٹر یعقوب بنگش نے گزشتہ برس اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: "میرے لیے فخریہ لمحہ: مجھے علم ہی نہیں اور میرا نام ان '400' ماہرین میں شامل ہے جنہوں نے یکساں قومی نصاب کی منظوری دی ہے ۔۔۔۔''

سجاگ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کا نام ایسے ماہرین کی فہرست میں کیسے اور کیوں ڈالا گیا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ناشر اور انسانی حقوق کے کارکن عامر ریاض کو بھی اپنا نام ان ماہرین کی فہرست میں دیکھ کر حیرت ہے۔ حکومت کے مطابق انہیں نئے یکساں قومی نصاب کی تیاری کے حوالے سے پنجاب کا فوکل پرسن نامزد کیا گیا ہے۔ اگرچہ وہ گزشتہ دس سال سے نصابی کتب کی اشاعت کے لیے مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کرتے چلے آئے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ یکساں قومی نصاب کی تیاری کے سلسلے میں کسی نے بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ 

بعض صوبائی اور علاقائی حکومتوں نے بھی اس عمل میں ان سے رائے نہ لیے جانے پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کی حکومتوں نے کہا ہے کہ نئے نصاب کی تیاری میں ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن پیٹر جیکب، جو سنٹر فار سوشل جسٹس کے سربراہ اور ہمہ گیر تعلیمی نظام کے حق میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں اور محققین کے ایک ورکنگ گروپ کے چیئرمین بھی ہیں، اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ''ملک کے تین حصوں نے نئے نصاب پر خدشات کا اظہار کیا ہے اور ان میں سے دو نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اسے اختیار نہیں کریں گے"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "یکساں قومی نصاب کے معاملے پر ملک بھر کی مذہبی اقلیتوں اور ماہرین تعلیم کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیا اسے ہی اتفاق رائے کہتے ہیں؟"

پیٹر جیکب نئے نصاب کی تیاری میں غیر سرکاری کنسلٹس کی شمولیت پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''حکومت نے یہ کام تعلیمی ماہرین اور سینئر سرکاری افسران کو دینے کے بجائے اپنے طور پر کام کرنے والے ایسے کنسلٹس کے ذمے لگا دیا ہے جو کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں"۔

اس کام میں شامل بعض لوگوں کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نصابی جائزہ کمیٹی کے ایک رکن نے ایک کتاب میں مشہور سائنس دان آئزک نیوٹن کو ان کے لمبے بالوں کی وجہ سے خاتون سمجھ لیا اور  اعتراض کیا کہ ان کی تصویر میں ان کا سر ڈھکا ہوا کیوں نہیں ہے۔  

نفرت کی تعلیم

ماریا رچرڈز (فرضی نام) لاہور میں چرچ کے زیرِ اہتمام چلائے جانے والے اعلیٰ تعلیم کے ایک ادارے میں ایم اے کر رہی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں کورونا کی وبا کی وجہ سے سکول بند ہونے کے بعد وہ اپنی سات سالہ بھتیجی کو گھر میں پڑھا رہی تھیں۔ اس دوران انہوں نے بچی سے پوچھا "ہم کہاں رہتے ہیں؟" 

اس نے جواب دیا: "ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں"۔ 

ماریا نے سوال کیا: "ہم کون ہیں؟" 

بچی نے جواب دیا: "ہم مسلمان ہیں"۔ 

یہ سن کر ماریا کو دھچکا سا لگا۔ انہوں نے اپنی بھتیجی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ دونوں مسلمان نہیں بلکہ مسیحی ہیں مگر بچی کا اصرار جاری رہا کہ اس کی استاد نے اسے بتایا ہے کہ پاکستان صرف مسلمانوں کا ملک ہے۔ ماریا کو معلوم نہیں کہ وہ اپنی بھیتجی کو یہ بات کیسے سمجھائیں کہ تمام پاکستانی مسلمان نہیں ہیں اور یہاں رہنے والے مسیحی بھی مسلمانوں جتنے ہی پاکستانی ہیں۔

مزید کریدنے پر ماریا کو اندازہ ہوا کہ ان کی بھتیجی کو سکول میں کچھ اس طرح سے پڑھایا لکھایا جاتا ہے کہ وہ مسیحیت کو سچا مذہب ہی نہیں سمجھتی۔ اساتذہ نے بچی کو بتا رکھا ہے کہ مسیحیوں نے اپنے مذہب کو توڑ موڑ دیا ہے اور اسلام ہی دنیا میں واحد سچا مذہب ہے۔ ماریا کہتی ہیں کہ "اگر یہ نفرت پر مبنی بیانیہ نہیں تو پھر کیا ہے؟" 

یہ بھی پڑھیں

postImg

پنجاب میں غیر مسلم قیدیوں سے امتیازی سلوک: 'مذہبی تعلیم کے حصول پر ہمیں قید میں رعائت نہیں ملتی'۔

ڈاکٹر فیصل باری سجھتے ہیں کہ پاکستان میں غیرمسلموں کے خلاف ایسا معاندانہ رویہ عام ہے۔اس کی ایک مثال دیتے ہوئے وہ گزشتہ برس پنجاب اسمبلی میں منظور کیے جانے والے تحفظ بنیاد اسلام بل کا ذکر کرتے ہیں جس کا مقصد مذہبی بنیادوں پر کتابوں کو بڑے پیمانے پر سنسر کرنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ: "میں نہیں سمجھتا کہ ایسے ماحول میں کسی طرح کی ترقی پسندانہ نصاب سازی ممکن ہے"۔ 

عدالتی جنگ

مذہبی عدم رواداری کا یہ ماحول ہی ایک وجہ بنا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے یکساں قومی نصاب کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا ہے۔ کمیشن نے عدالت کو بتایا ہے کہ نیا نصاب آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 22 سے مطابقت نہیں رکھتا جس میں کہا گیا ہے کہ "ہر شہری کو اپنی مرضی کا عقیدہ اپنانے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہے"۔ 

کمیشن نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کے نام سے موسوم فیصلے کا حوالہ بھی دیا جو جولائی 2014 میں جاری کیا گیا۔ اس فیصلے کو غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کے حوالے سے انتہائی اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔ اس میں بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ "مذہبی اور سماجی رواداری کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے سکول اور کالج کی سطح پر مناسب نصاب تشکیل دیا جائے"۔

تاہم جب حکومتِ پاکستان نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست کا جواب جمع کرایا تو ایسے لگا کہ حکومتی اہل کار حقائق سے نظر چرا رہے ہیں۔ نصاب کی امتیازی اور متعصبانہ نوعیت پر اٹھائے گئے اعتراضات کا براہِ راست جواب دینے کے بجائے حکومت نے خود کو ایک ایسے کام پر مبارک دے ڈالی جس کا کمیشن کی درخواست میں تذکرہ ہی نہیں تھا۔ چنانچہ وفاقی وزارت تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ "یہ پہلا موقع ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 22 (1) کے مطابق حکومت نے مسیحی، ہندو، سکھ، بہائی اور کیلاش برادریوں کے لیے 'مذہبی تعلیم' کا مضمون متعارف کرایا ہے۔ اس سے پہلے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبا کو 'اخلاقیات' پڑھائی جاتی تھی"۔ 

نئے نصاب کے خلاف تنقید کے حوالے سے حکومت نے محض گھِسی پِٹی باتیں کیں اور کہا کہ حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ نئی نصابی کتب میں نہ تو کسی شخص اور کسی مذہبی اقلیت کی توہین ہو اور نہ ہی کسی کے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔ اس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ کسی طالب علم کو اس کے مذہب سے ہٹ کر کسی اور مذہب کی تعلیمات حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ وفاقی وزارتِ تعلیم کے ایک عہدیدار نے عدالت میں وضاحت کی کہ اگر کوئی سبق کسی طالب علم کے مذہب سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے یہ سبق پڑھنا لازم نہیں ہو گا۔

اے ایچ نیئر اس طریقہِ کار کو انتہائی ناقص تصور کرتے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے: "پہلی بات تو  یہ ہے کہ نئے نصاب کی رو سے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو لازمی مضامین کی تعلیم کے دوران بھی اکثر کلاس سے باہر بیٹھنا پڑے گا کیونکہ یہ مضامین بھی اسلامی مواد سے لبریز ہیں اس طرح ان کی علم حاصل کرنے کی صلاحیتوں پر منفی اثر پڑے گا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبا دوسرے طلبا سے اور بھی کٹ جائیں گے حالانکہ پہلے ہی اس حوالے سے کچھ اچھے حالات نہیں"۔ 

سپریم کورٹ نے بھی ایک حالیہ سماعت میں وزارت تعلیم کا جواب مسترد کرتے ہوئے  اسے ہدایت کی ہے کہ وہ درخواست گزار کے اعتراضات پر جامع جواب داخل کرے۔ 
وزیر بمقابلہ مشیر اسی دوران اس سارے معاملے پر عدالت کے باہر ایک بھر پور مہم شروع ہو گئی ہے جس کے تحت سوشل میڈیا پر ایسے انتباہی اشتہار گردش کرنے لگے ہیں جن میں مذہبی حلقوں کو بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کسی 'الٹے فیصلے' کے نتیجے میں سیکولر اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کو نصاب سے اسلامی اور مذہبی تصورات نکال باہر کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ایسی ہی ایک پوسٹ لکھنے والے صاحب نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں خود فریق بنے اور آئین پاکستان، نظریہ پاکستان اور اسلامی طرزِ زندگی کی روشنی میں بھرپور انداز میں اپنا نکتہِ نظر پیش کرے۔ 

اسی طرح پاکستان کی سب سے پرانی مذہبی سیاسی پارٹی 'جماعت اسلامی' کے سربراہ سراج الحق نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان انسانی حقوق کمیشن کی درخواست کو "پاکستان کو لبرل اور مغربی طرز زندگی کی راہ پر ڈالنے کی عالمی سازش" قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جماعت یکساں قومی نصاب کی آڑ میں "لبرلزم کے فروغ" اور "تعلیم کو مغربی رنگ میں رنگنے" کے اقدامات قبول نہیں کرے گی۔ 

قومی نصاب کو تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے قابل قبول بنانے کے مطالبے کی یوں کھلے عام مخالفت کے باوجود پنجاب کابینہ کے مسیحی رکن اعجاز آگسٹین عالم مایوس نہیں۔ وہ بدستور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تعلیمی شعبے میں غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کو لاحق خطرات دور کرنے کے لیے حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے مطابق حکومت کے پاس ان حقوق کی حفاظت کے لیے پہلے ہی خاطرخواہ اختیارات موجود ہیں۔ 

پنجاب کے وزیر برائے انسانی حقوق، بین المذاہب ہم آہنگی و اقلیتی امور کی حیثیت سے انہوں نے خود بھی اس معاملے میں کچھ اقدامات اٹھائے ہیں جن پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: "ہم نے پنجاب میں 180 سے زیادہ نصابی کتب میں قابل اعتراض مواد ختم کرانے کے لیے ٹیکسٹ بک بورڈ کے ساتھ کام کیا ہے"۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صوبے میں ہر نصابی کتاب شائع کرنے کی حتمی اجازت ان کی وزارت سے جانچ پڑتال کے بعد ہی دی جاتی ہے۔ 

تاہم انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اسلامی مدارس کی تنظیم اور وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی امور طاہر اشرفی دونوں نے ان کی کوششوں پر سخت اعتراض کیا ہے اور حکومت کو کھلم کھلا کہا ہے کہ وہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو اعجاز آگسٹین عالم کی وزارت کی جانب سے بھیجی جانے والی ہدایات واپس لے۔ 

صوبائی حکومت نے ان شکایات پر من و عن عمل کرتے ہوئے 26 اپریل 2021 کو اسلامیات کے علاوہ دیگر نصابی کتابوں میں موجود اسلامی مواد کو خارج کرنے کی سفارشات پر مبنی نوٹیفکیشن واپس لے لیے ہیں۔ یہ قدم مسلم مذہبی رہنماؤں کی گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے ساتھ ملاقات کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ اس ملاقات میں گورنر کو بتایا گیا کہ اس معاملے پر عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 22 مئی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 20 اپریل 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فاطمہ رزاق مذہبی اقلیتوں، خواتین اور بچوں کے انسانی حقوق سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.