اپوزیشن کی متعدد سیاسی جماعتوں کے مقامی نمائندے گذشتہ روز گوادر شہر میں جمع ہوئے۔ اس اجتماع کے دوران انہوں نے گوادر کے گرد بنائی جانے والی باڑ کی شدید مخالفت کی، اسے مقامی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ مقامی لوگ اس کی تعمیر کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔
لوہے کے ڈنڈوں اور خاردار تار سے بنی اس باڑ کی تعمیر کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ لیکن نیوز میڈیا میں اس کا ذکر اس وقت آیا جب اس کی مخالفت کرنے والی جماعتوں، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور جمیعت علمائے اسلام (فضل)، نے رواں ماہ کے اوائل میں ضلع گوادر کی مختلف تحصیلوں میں اس کے بارے میں عوامی اجتماعات کرنا شروع کیے۔
اتوار (27 دسمبر 2020) کو ہونے والے اجتماع سے بھی جمیعت علمائے اسلام (فضل) کے ضلعی امیر عبدالحمید انقلابی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ضلعی صدر کہدہ علی، نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر فیض نگوری، پاکستان پیپلز پارٹی مکران ڈویژن کے سیکرٹری اطلاعات یوسف فریادی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے ضلعی صدر عثمان کلمتی سمیت کئی سیاسی اور سماجی تنظیموں سے وابستہ افراد نے خطاب کیا۔ ان جماعتوں اور تنظیموں نے اس اجتماع میں مقامی شہریوں کی شرکت یقینی بنانے کے لئے کافی کوشش کی۔ شہر بھر میں اس کے بارے میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے اور لاؤڈ سپیکر پر اعلانات بھی کیے گئے۔ تاہم اس میں لوگوں کی شرکت منتظمین کی توقع سے کافی کم رہی۔
باڑ کی مخالف جماعتوں اور تنظیموں کا موقف ہے کہ اس کی تعمیر سے گوادر شہر گوادر ضلع کے باقی علاقوں سے کٹ جائے گا اور اس میں آنے جانے کے لئے چند مخصوص راستے ہی باقی رہ جائیں گے جنہیں ضرورت پڑنے پر بند بھی کیا جا سکے گا جس سے مقامی لوگوں کا آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرنے کا ائینی حق متاثر ہو گا۔
ان خدشات کا ایک اہم سبب گوادر کا جغرافیہ ہے۔
یہ شہر ایک جزیرہ نما پر واقع ہے جس کے مشرق، مغرب اور جنوب میں سمندر ہے جبکہ شمال میں خشکی ہے۔ متنازعہ باڑ شہر کے مشرق میں مکران کوسٹل ہائی وے کے قریب واقع کوہِ مہدی سے شروع ہوتی ہے اور لگ بھگ 24 کلومیٹر مغرب میں پشکان چیک پوسٹ پر ختم ہوتی ہے جہاں گوادر کی میرین ڈرائیو اور پشکان کی جانب جانے والی سڑک آپس میں ملتے ہیں۔
گوادر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ باڑ صرف کھلے مقامات پر سکیورٹی خدشات کی وجہ سے لگائی جارہی ہے اور اس کا مقصد شہر میں آنے جانے والے راستوں کو بند کرنا نہیں۔گوادر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ باڑ صرف کھلے مقامات پر سکیورٹی خدشات کی وجہ سے لگائی جارہی ہے اور اس کا مقصد شہر میں آنے جانے والے راستوں کو بند کرنا نہیں۔
باڑ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد گوادر میں آنے جانے کے لئے صرف دو راستے رہ جائیں گے۔ ان میں سے ایک مکران کوسٹل ہائی وے ہے جو شہر کو ایک طرف کراچی سے ملاتی ہے اور دوسری طرف کوئٹہ اور تربت سے۔ دوسرا راستہ جنوب میں پشکان سے ہوتا ہوا ایرانی سرحد پر واقع علاقے جیونی تک جاتا ہے۔
گوادر کے بیشتر شہری بھی باڑ کے بارے میں کئی خدشات کا شکار ہیں۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے ہی سے اس کے بننے کا ڈر تھا۔ اب انہیں یہ خطرہ ہے کہ اس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد گوادر کی مقامی آبادی کو کہیں شہر سے نکال باہر ہی نہ کیا جائے۔
دوسری طرف گوادر کے ڈپٹی کمشنر میجر (ریٹائرڈ) کبیر زرکون نے گزشتہ دنوں گوادر میں ایک عوامی اجتماع کے دوران کہا کہ باڑ کے متعلق یہ بات غلط فہمی پر مبنی ہے کہ اس کا مقصد شہر کو اس کے ارد گرد کے علاقوں سے الگ تھلگ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باڑ صرف کھلے مقامات پر سکیورٹی خدشات کی وجہ سے لگائی جارہی ہے لیکن اس کا مقصد شہر میں آنے جانے والے راستوں کو بند کرنا نہیں۔
اسی طرح گوادر سے تعلق رکھنے والے سینئٹر کہدہ بابر بلوچ، جن کا تعلق بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے، باڑ لگانے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور شہر کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے اس کی تعمیر کو لازمی قرار دیتے ہیں۔
گوادر چیمبر آف کامرس کے صدر اور 2018 میں بنائی گئی نگران حکومت میں صوبائی وزیر کے طور پر کام کرنے والے میر نوید کلمتی بھی باڑ لگانے کے حق میں ہیں۔ ان کے مطابق شہر میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے سرمایہ کاروں کے سکیورٹی سے متعلق خدشات دور کرنا ہونگے جس کے لئے باڑ لگانا ضروری ہے۔
دعویٰ، جواب دعویٰ
کبیر زرکون کا یہ بھی کہنا ہے کہ باڑ کی تعمیر گوادر کے ماسٹر پلان کا حصہ ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی صوبائی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس کی تعمیر گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت کی جا رہی ہے جو 2000 کی دہائی میں منظور کیا گیا تھا۔
لیکن گوادر پریس کلب کے صدر اسماعیل صابرکہتے ہیں کہ گوادر کا کوئی ایک ماسٹر پلان نہیں بلکہ اب تک اس کے تین ماسٹر پلان بن چکے ہیں اور ان سب کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک میں بھی مقامی سیاسی قیادت اور منتخب نمائندوں کی رضامندی شامل نہیں تھی۔
اسماٰعیل صابر اس ضمن میں بابو گلاب کا ذکر کرتے ہیں جو 2003 سے لے کر 2008 تک گوادر کی ضلعی حکومت کے سربراہ رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'بابو گلاب دو دفعہ مختلف معاہدوں پر دستخط کرنے کے لئے چین گئے۔ میں نے ان سے کئی مرتبہ پوچھا کہ ان معاہدات میں کون کون سے نکات شامل تھے مگر انھوں نے کبھی بھی اس کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی'۔
بابو گلاب اِس وقت صوبائی حکمران جماعت پلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ ہیں لیکن 2000 کی دہائی میں ان کا تعلق نیشنل پارٹی سے تھا جو 2013 سے لیکر 2018 تک صوبائی حکومت میں بھی شامل رہی ہے۔ اس پارٹی کے ضلعی صدر فیض نگوری کا کہنا ہے کہ اگر سیف سٹی پراجیکٹ میں حفاظتی باڑ کی تعمیر شامل تھی بھی تو بابو گلاب نے کبھی نیشنل پارٹی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔
تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ضلعی صدر کہدہ علی باڑ کی تعمیر کی ذمہ داری بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں یہ حکومت گوادر کو وفاق کے حوالے کر رہی ہے اور مقامی لوگوں اور مقامی سیاسی نمائندگان کو اس پورے عمل سے لاعلم رکھا جا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 'باڑ لگانے کا عمل ایک سازش ہے جس کا مقصد گوادر کو بلوچستان سے الگ کرنا ہے'۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 14 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 10 جون 2022