جان محمد ملاح کڑی دھوپ میں اپنی کشتی ساحل سے سمندر میں دھکیلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ جب وہ دھکا لگاتے لگاتے تھک جاتے ہیں تو قریب ہی کھڑے ایک دوسرے ملاح کو کہتے ہیں کہ وہ اپنے پاس موجود بانس کی مدد سے کشتی کے ارگرد موجود پانی کو ناپ کر بتائے کہ آخر اس کے حرکت نہ کرنے کی وجہ کیا ہے۔
کراچی کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع لگ بھگ چار سو گھروں پر مشتمل بستی ریڑھی گوٹھ کے رہنے والے جان محمد ملاح کی عمر صرف 40 برس ہے لیکن دھوپ اور کھلے سمندر میں کام کرنے سے ان کی داڑھی اور سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ 18 مارچ 2022 کی دوپہر کو معمول کے مطابق کام پر جانے سے پہلے وہ کہتے ہیں کہ ان کا خاندان گزشتہ چار صدیوں سے اسی جگہ ماہی گیری کر رہا ہے۔ لیکن، ان کے بقول، گزشتہ کچھ عرصے سے نہ صرف ان کے لیے اپنی کشتی گہرے پانیوں میں لے جانا مشکل ہوتا جا رہا ہے بلکہ سمندر میں مچھلیاں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے وہ سمندر کا ایک چکر لگا کر 30 کلوگرام سے 40 کلوگرام مچھلی پکڑ لیتے تھے لیکن اب صرف 5 کلوگرام سے 10 کلوگرام مچھلی ہی ان کے ہاتھ لگتی ہے۔
ان کے مطابق ان مسائل کی بنیادی وجہ کراچی کے ساحل پر تیزی سے پھیلتی ہوئی آلودگی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہماری بستی کے اردگرد سمندر اس قدر گندہ ہو چکا ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں اپنے کام میں پیش آنے والی دقتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں"۔
ان کے خیال میں ان دقتوں کی ایک بڑی وجہ ریڑھی گوٹھ کے ارد گرد پانچ کلومیٹر کے دائرے میں قائم بڑے بڑے صنعتی اور تجارتی ادارے ہیں۔ ان میں پورٹ قاسم کی بندرگاہ کے علاوہ قدرتی گیس کی نقل و حمل کے لیے بنائے گئے دو ایل این جی ٹرمینل اور کوئلے سے 600 میگاواٹ بجلی بنانے والا لکی الیکٹرک پاور پلانٹ بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بندرگاہ پر بحری جہازوں کی مسلسل آمدورفت کی وجہ سے ایک طرف ماہی گیروں کی سمندر تک رسائی شدید متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ جہاز اور ان سے منسلک باربرادری اور نقل و حمل جیسی سرگرمیاں ساحل کے آس پاس گندگی پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔
اس آلودگی کے باعث ان کی بستی کے تین اطراف میں پائے جانے والے بحیرہ عرب کا پانی کئی کلومیٹر تک ایک سیاہ سیال میں تبدیل ہو چکا ہے جس میں تیل، کوئلے اور قریبی آبادیوں کے استعمال شدہ پانی کے امتزاج سے ایک انتہائی ناگوار سڑاند پیدا ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے علاقے میں مچھروں، مکھیوں اور دوسرے حشرات کی بہتات ہے جو، ریڑھی گوٹھ کے باسیوں کے مطابق، میلریا، سانس کی تکالیف اور معدے کی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔
کراچی کے گردونواح میں پائے جانے والے تمر (mangrove) کے جنگلات اور ان میں پائی جانے والی جنگلی اور آبی حیات کے تحفظ پر کام کرنے والی فلم ساز ماہرہ عمر ان سب مسائل کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پچھلی دو دہائیوں میں صنعتی اور تجارتی منصوبوں نے "پورٹ قاسم کے اردگرد پائے جانے والے قدرتی ماحول کو شدید متاثر کیا ہے"۔
ان کے مطابق ان اثرات کی ایک واضح مثال اس علاقے میں پائے جانے والے تمر کے جنگلات کے رقبے میں ہونے والی مسلسل کمی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ساحلِ سمندر کے آس پاس بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ جنگلات بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ان سے جڑی جنگلی اور آبی حیات تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔
تاہم مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے حکومت ان میں اضافہ کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس ضمن میں وہ ریڑھی گوٹھ سے صرف دو کلومیٹر دور ایک تیسرے ایل این جی ٹرمینل کی مجوزہ تعمیر کا خاص طور پر ذکر کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹرمینل جاپان کی متسوبشی (Mitsubishi) نامی کمپنی تعمیر کر رہی ہے جس نے اس مقصد کے لیے تعبیر انرجی لمیٹد کے نام سے پاکستان میں ایک ذیلی کمپنی قائم کر رکھی ہے۔
اس ٹرمینل کی تعمیر کا مقصد یہ ہے کہ قطر سے بحری جہاز کے ذریعے مائع حالت میں منگوائی جانے والی قدرتی گیس اس میں ذخیرہ کی جائے گی اور پھر اسے دوبارہ گیس میں تبدیل کر کے پائپ لائنوں کے ذریعے پاکستان کے مختلف علاقوں تک پہنچایا جائے گا۔ اگرچہ 2018 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ ابھی تک صرف کاغذوں تک محدود ہے لیکن ریڑھی گوٹھ کے ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ اس کے وجود میں آنے کے بعد نہ صرف سمندر کا قدرتی ماحول مزید خراب ہو جائے گا بلکہ ان کے مالی حالات بھی بہت بگڑ جائیں گے کیونکہ اس سے ان کے "سمندر میں جانے کے راستے مزید مسدود ہو جائیں گے" اور انہیں دستیاب "مچھلیوں کی مقدار اور بھی کم ہو جائے گی"۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
پانچ غیرسرکاری تنظیموں اور تحقیقی اداروں پر مشتمل اتحاد الائنس فار کلائیمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی (اے سی جے سی ای) نے 21 جنوری 2022 کو متسوبشی کو ایک تفصیلی خط لکھا جس میں اس مجوزہ ٹرمینل کی تعمیر کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات پر شدید اعتراضات اٹھائے گئے۔ اس میں کمپنی کو کہا گیا کہ وہ اس منصوبے پر نظرِثانی کرے اور اس کی تعمیر کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے تمام منفی پہلوؤں کا مناسب تدارک کرے۔
اس خط کی تائید پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والی 30 کے قریب سماجی تنظیموں، تحقیقی ادروں اور مختلف شعبوں کے نمایاں افراد نے بھی کی ہے۔ اس کے مطابق ٹرمینل بنانے کے لیے چھان واڈو اور چرا نامی سمندری کھاڑیوں پر مشتمل علاقے کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں بڑے پیمانے پر تمر کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ یہ جنگلات مچھلیوں کو ایک محفوظ جائے افزائش فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سمندری گھاس اور سمندری چٹانوں کی افزائش اور تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ماہرہ عمر کہتی ہیں کہ تمر کے یہ جنگلات سمندر میں آنے والے طوفانوں کے راستے میں بھی ایک قدرتی رکاوٹ ہیں۔ ان کے مطابق ان میں پائے جانے والے درخت "تیز سمندری ہواؤں کے خلاف ایک حفاظتی دیوار کا کام دیتے ہیں اور ساحلوں کے قدرتی ماحول اور وہاں رہنے والے لوگوں کو سمندری آفات سے بچاتے ہیں"۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق ان جنگلات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پوری دنیا میں سمندری ساحلوں کے صرف 0.5 فیصد حصے پر پائے جاتے ہیں لیکن ان میں موجود درخت ان ساحلوں پر پیدا ہونے والی کل کاربن کا 10 سے 15 فیصد حصہ جذب کرتے ہیں۔
لیکن حکومت کو فراہم کی گئی دستاویزات میں تعبیر انرجی لمیٹڈ کا کہنا ہے کہ ٹرمینل کی تعمیر سے ان جنگلات پر کوئی بڑا منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ بحیرہ عرب کے ساحل پر تقریباً 75 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے ہوئے ان جنگلات میں سے صرف 23 ایکڑ کے قریب رقبے پر لگے ہوئے درخت اس منصوبے سے متاثر ہوں گے۔ کمپنی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نقصان کی تلافی کرنے کے لیے وہ پانچ لاکھ 72 ہزار امریکی ڈالر خرچ کر کے کسی متبادل جگہ پر تمر کی کاشت کا انتظام کر دے گی۔
تاہم اے سی جے سی ای کا کہنا ہے کہ تعبیر انرجی لمیٹڈ نے ان دستاویزات میں تمر کے جنگلات کو ہونے والے ممکنہ نقصان کو بہت گھٹا کر بیان کیا ہے۔ مقامی لوگوں کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے الائنس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ٹرمینل کی زد میں آنے والے جنگلات کا اصل رقبہ ان دستاویزات میں دکھائے گئے رقبے سے کم از کم دوگنا ہے۔
اسی طرح اے سی جے سی ای کا یہ بھی کہنا ہے کہ تعبیر انرجی لمیٹڈ نے ٹرمینل کے سماجی اثرات کے بارے میں بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ حکومت کو فراہم کردہ رپورٹ میں اس نے لکھا ہے کہ ٹرمینل کے اردگرد 10 کلومیٹر کے علاقے میں کوئی انسانی آبادی ہے ہی نہیں حالانکہ ماہی گیروں کی دو آبادیاں، ریڑھی گوٹھ اور لٹھ بستی، اس کے مجوزہ مقام سے پانچ کلومیٹر سے بھی کم دوری پر واقع ہیں۔
ایسے متعدد سماجی اور ماحولیاتی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے خط میں کہا گیا ہے کہ ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹرمینل کی منصوبہ بندی زیادہ تر بند دروازوں کے پیچھے ہوئی ہے۔ اس کے مطابق تعبیر انرجی لمیٹڈ اور حکومت دونوں نے نہ تو مقامی آبادی کے ساتھ تفصیلی مشاورت کی ہے اور نہ ہی انہوں نے تمر کے جنگلات کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ کر ان پر ہونے والے اثرات کی درست نشان دہی کی ہے۔
ماہرہ عمر اس دوسرے خدشے کی توثیق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "ان جنگلات میں ایک منفرد اور متنوع ماحولیاتی نظام موجود ہے جسے پورٹ قاسم اتھارٹی کی حدود میں واقع ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کھاڑیوں نے برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "یہاں پائے جانے والے تمام حشرات، نباتات اور حیاتیات ایک دوسرے سے ایک پیچیدہ طریقے سے منسلک ہیں۔ مثال کے طور پر موسم سرما میں پیلیکن اور گلابی فلیمنگو کے جھنڈ ان کھاڑیوں میں سمندری کیچڑ سے پیدا ہونے والے کیڑوں کو بطور خوراک استعمال کرتے ہیں"۔
ان کے مطابق جنگلات کے کٹ جانے سے یہ پورا ماحولیاتی نظام بری طرح متاثر ہو گا جس کی تلافی کسی دوسری جگہ تمر کے درخت لگانے سے نہیں ہوگی۔ الائنس نے بھی اپنے خط میں اس مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمینل کی تعمیر سے مچھلیاں گہرے پانیوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہو جائیں گی جس کے باعث ریڑھی گوٹھ کے ماہی گیروں کو ان کی تلاش میں پہلے سے کہیں طویل سمندری سفر طے کرنا پڑے گا۔
جوابِ شکوہ
سندھ کے صوبائی محکمہ جنگلات نے 7 مئی 1966 کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جس کے مطابق ضلع کراچی کی حدود میں پائے جانے والے تمر کے تمام جنگلات کو محفوظ (protected) قرار دے دیا گیا۔ اس کی رُو سے محکمے کی پیشگی اجازت کے بغیر ان جنگلات میں کوئی ایسی انسانی سرگرمی نہیں کی جا سکتی جو انہیں نقصان پہنچانے کا باعث بنے۔
تاہم تعبیر انرجی لمیٹد کی طرف سے مجوزہ ایل این جی ٹرمینل کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں بنائی گئی رپورٹ میں موقف اپنایا گیا ہے کہ اس کی جائے تعمیر پر اس نوٹیفیکیشن کا اطلاق ہی نہیں ہوتا کیونکہ یہ جگہ ایک ایسے علاقے کا حصہ ہے جو کئی دہائیاں پہلے محکمہ جنگلات نے پورٹ قاسم اتھارٹی کو لیز پر دے دیا تھا۔
کراچی کے ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر شہزاد صادق اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ متعلقہ نوٹیفیکیشن پورٹ قاسم اتھارٹی کو لیز پر دی گئی زمینوں پر ابھی بھی نافذالعمل ہے۔ لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ تعبیر انرجی لمیٹڈ کے لیے اب بھی ٹرمینل کی تعمیر کے لیے ان کے محکمے سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔
اسی دوران اے سی جے سی ای کے خط کا جواب دیتے ہوئے متسوبشی نے کہا ہے کہ مجوزہ ٹرمینل پاکستان میں 2011 سے لاگو ایل این جی پالیسی کے تحت تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس ضمن میں تمام متعلقہ پاکستانی اور بین الاقوامی قوانین، قواعدوضوابط اور معیارات پر سختی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے متعدد جائزوں، ٹرمینل کی جائے تعمیر کے دوروں اور اس کے بارے میں عوامی موقف کی سماعت کرنے کے بعد اس کے ماحولیاتی اثرات کے تجزیے پر مبنی رپورٹ سندھ کے ماحولیات کے تحفظ کے ادارے (Sindh Environmental Protection Agency) کو جمع کرائی ہے جس کے نتیجے میں اسے اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ (این او سی) دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کراچی میں ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر: 'حکومت ہم سے ہماری زندگی، ہمارا روزگار چھین رہی ہے'۔
اپنے جواب میں متسوبشی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے "رضاکارانہ طور پر" سندھ کے محکمہ جنگلات اور صوبائی محکمہ برائے ماہی پروری سے بھی ٹرمینل کی تعمیر کی منظوری لینے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ (لیکن شہزاد صادق کہتے ہیں کہ محکمہ جنگلات کو نہ تو اس ضمن میں کوئی درخواست موصول ہوئی ہے اور نہ اس نے مجوزہ ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کے حق میں ابھی تک کوئی نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے۔)
تاہم متسو بشی نے سب سے اہم دعویٰ یہ کیا ہے کہ وہ ابھی تک ٹرمینل کے تکنیکی، تجارتی اور ریگولیٹری پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے اس لیے اس نے اس میں سرمایہ کاری کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ "اس فیصلے سے پہلے اس منصوبے کی تعمیراتی سرگرمی کا آغاز نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی تمر کے درخت کاٹے جائیں گے"۔
لیکن ریڑھی گوٹھ کے ماہی گیر سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا تو ان کے سمندر میں جانے کے راستے کیوں بند کیے جا رہے ہیں اور پورٹ قاسم اتھارٹی کے ایل این جی زون کے اردگرد واقع 12 کلومیٹر کے علاقے میں تمر کے درخت کیوں کاٹے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان اقدامات کی اصل وجہ یہ ہے کہ کمپنی کی تردید کے باوجود اس منصوبے پر عمل درآمد زور شور سے جاری ہے۔
ان کے موقف کی بالواسطہ تصدیق صوبائی محکمہ برائے ماہی پروری کی طرف سے 27 جولائی 2018 کو جاری کیے گئے ایک نوٹیفیکیشن سے بھی ہوتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تعبیر انرجی لمیٹڈ اور تحفظِ ماحول پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں ادارے مل کر پورٹ قاسم کے آس پاس رہنے والے ماہی گیروں کے سماجی اور معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات کریں گے تاکہ مجوزہ ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کے منفی اثرات کا تدارک کیا جا سکے۔
تاریخ اشاعت 6 مئی 2022