کھیل کے میدانوں میں شادی بیاہ اور جلسے: فیصل آباد ریجن میں کرکٹ روبہ زوال

postImg

نعیم احمد

postImg

کھیل کے میدانوں میں شادی بیاہ اور جلسے: فیصل آباد ریجن میں کرکٹ روبہ زوال

نعیم احمد

فیصل آباد کی سرفراز کالونی کے رہائشی مطلوب احمد ہر جمعے شہر سے باہر ایک کھلے میدان میں کرکٹ کھیلنے آتے ہیں جو ان کے گھر سے 35 کلومیٹر دور ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ گھر کے قریب ایک سرکاری سکول کی گراؤنڈ میں کھیلا کرتے تھے لیکن اب سکول انتظامیہ نے عام لوگوں کے گراؤںڈ میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔

مطلوب کہتے ہیں کہ ''شہر کے مضافات میں میں جا بجا ہاؤسنگ سکیمیں بننا شروع ہو گئی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جلد ہمیں یہ جگہ بھی چھوڑنا پڑے گی۔''

پیپلز کالونی کے محمد سلمان پیراڈائز کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتے ہیں۔ اس کلب کے پاس اپنی گراؤںڈ نہیں ہے اس لیے انہیں کالونی میں واقع پی ایچ اے کے زیرانتظام ڈی گراؤنڈ میں کھلینا پڑتا ہے جو بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔

سلمان بتاتے ہیں کہ ان کے کلب کے علاوہ دس دیگر کرکٹ کلب بھی اسی گراؤنڈ میں کھیلتے ہیں۔

"پی ایچ اے نے ہمیں یہاں کھیلنے سے منع تو نہیں کیا البتہ جب یہ جگہ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات کے لیے کرایہ پر دے دی جاتی ہے تو ہمارے لیے کھیلنا ممکن نہیں ہوتا اور ان تاریخوں میں اگر ہمارا میچ ہو تو ہمیں اسے منسوخ کرنا پڑتا ہے۔''

فیصل آباد کے ریلوے کلب کا شمار شہر کی مشہور کرکٹ ٹیموں میں ہوتا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی آصف علی کا تعلق بھی اسی کلب سے ہے۔ اس کلب کے چیف آرگنائزر طارق فرید بتاتے ہیں کہ  فیصل آباد میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے رجسٹرڈ کرکٹ کلبوں کی تعداد 82 ہے لیکن ان میں سے دو یا تین ٹیموں کے پاس ہی اپنی گراؤنڈ ہے۔ باقی کلب یا تو پی ایچ اے کے پارکوں میں یا خالی پلاٹوں میں کھیلنے پر مجبور ہیں۔

ریلوے کرکٹ کلب کے پاس بھی اپنی گراؤنڈ نہیں ہے اور اس کی ٹیم ریلوے کالونی میں بنائے گئے پولو گراؤنڈ میں کھیلتی ہے۔

طارق کہتے ہیں کہ شہر میں اقبال سٹیڈیم اور بوہڑاں والی گراؤنڈ ہی ضروری سہولیات سے مزین کرکٹ کے باقاعدہ گراؤںڈ ہیں لیکن یہاں میچ کھیلنے کے لئے دس ہزار روپے فیس وصول کی جاتی ہے جسے ادا کرنا ہر کلب کے بس کی بات نہیں۔ یہ دونوں گراؤنڈ حکومت کی ملکیت ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے الگ سے فنڈ بھی مختص ہیں لیکن پھر بھی ضلعی انتظامیہ یہاں کھیلنے کی فیس وصول کرتی ہے۔

اقبال سٹیڈیم  فیصل آباد میں کرکٹ کا انٹرنیشنل سٹیڈیم ہے جہاں 25 ٹیسٹ اور 14 ون ڈے انٹرنیشنل میچ ہو چکے ہیں۔ یہاں آخری ٹیسٹ میچ جنوری 2006 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین کھیلا گیا جبکہ آخری ون ڈے انٹرنیشنل میچ اپریل 2008 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہوا تھا۔ اس طرح اقبال سٹیڈیم میں آخری بین الاقوامی میچ ہوئے 15 سال گزر چکے ہیں۔

<p>اقبال سٹیڈیم میں ہونے والی ایک تقریب کے بعد گراونڈ کا منظر<br></p>

اقبال سٹیڈیم میں ہونے والی ایک تقریب کے بعد گراونڈ کا منظر

نومبر 2022 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی انڈر 19 ٹیموں نے اس سٹیڈیم میں ایک سیریز کھیلنا تھی لیکن مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث اسے ملتان منتقل کر دیا گیا تھا۔

طارق بتاتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ نے اقبال سٹیڈیم میں نجی اداروں کی تقریبات سے لے کر سیاسی جماعتوں کے جلسوں تک ہر قسم کے اجتماعات کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ اسی وجہ سے یہ گراؤںڈ بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کے قابل نہیں رہا۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس گراؤنڈ کو اپ گریڈ نہ کیے جانے کی وجہ سے اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہاں میچ کرانے چھوڑ دیے ہیں۔

طارق فرید کے مطابق کرکٹ بورڈ نے ضلعی انتظامیہ کو سٹیڈیم کی گراؤنڈ اپ گریڈ کرنے، یہاں عالمی معیار کی میڈیا گیلری بنانے، کھلاڑیوں کے ڈریسنگ رومز کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے اور سٹیڈیم میں شائقین کی گنجائش بڑھانے کی پیشکش کی تھی لیکن ضلعی انتظامیہ نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرکٹ بورڈ سٹیڈیم کے اندرونی انتظامات اور گراؤنڈ کا مکمل کنٹرول چاہتا ہے اور اس نے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ سٹیڈیم کی دکانوں سےحاصل ہونے والا کرایہ ضلعی انتظامیہ لیتی رہے لیکن انتظامیہ اس پر بھی راضی نہیں۔

سٹیڈیم کے کیئر ٹیکر نوید نذیر سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ گراؤںڈ میں تقریبات کی اجازت ضلعی انتظامیہ دیتی ہے اور وہ اس میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتے۔
اس مہینے جشن بہاراں کی تقریبات بھی اقبال سٹیڈیم میں ہی منعقد کی جا رہی ہیں۔

ڈسٹرکٹ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ ضلعی انتظامیہ مبینہ طور پر کسی رجسٹرڈ کلب کے لیٹر پیڈ پر اقبال سٹیڈم میں میچ کی بکنگ کر کے نجی اداروں کی تقریبات منعقد کرواتی ہے جن کی فیس 40 ہزار روپے ہے اور اس طرح کرکٹ میچ کی آڑ میں باقی رقم خورد برد کر لی جاتی ہے۔

اس بارے میں ضلعی انتظامیہ کا موقف جاننے کے لئے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت دی گئی درخواست کے جواب میں متعلقہ افسر معلومات فراہم کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور مختلف ذرائع سے درخواست واپس لینے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

<p>فیصل آباد ہاکی سٹیڈیم کے مرکزی دروازے کا منظر<br></p>

فیصل آباد ہاکی سٹیڈیم کے مرکزی دروازے کا منظر

ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر ساجدہ لطیف نے سجاگ کو بتایا کہ ضلعے میں سرکاری سطح پر تین کثیرالمقاصد سپورٹس سٹیڈیم، دو کرکٹ گراؤنڈ، ایک فٹ بال گراؤنڈ اور ایک کبڈی گراؤنڈ جبکہ ہر تحصیل میں ایک ایک ان ڈور سپورٹس کمپلیکس اور جھنگ روڈ پر ایک ایتھلیٹکس ٹریک موجود ہیں۔ اقبال سٹیڈیم، بوہڑاں والی گراؤنڈ، فیصل آباد ہاکی سٹیڈیم اور شہر کے چار سپورٹس کمپلیکس اس کے علاوہ ہیں جو ڈویژنل سپورٹس آفیسر کے زیر انتظام چلائے جاتے ہیں۔

وہ تصدیق کرتی ہیں کہ اقبال سٹیڈیم ہی نہیں بلکہ سرکاری سطح پر قائم کی گئی کھیلوں کی بیشتر سہولیات بھی دیکھ بھال نہ ہونے یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے سبب خراب ہو رہی ہیں۔ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے  بیلداروں اور چوکیداروں کو پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ ایسے حالات میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی یا کھیلوں کے میدانوں کی بحالی اور دیکھ بھال کیسے ممکن ہے؟

یہ بھی پڑھیں

postImg

خیبر پختونخوا میں کھیلوں کے 1,000 گراؤنڈ تیار کرنے کا منصوبہ ابتدائی مرحلے میں ہی ناکام ہو گیا

پی سی بی کا فیصل آباد ریجن چھ اضلاع پر مشتمل ہے جن میں فیصل آباد کے علاوہ سرگودھا، میانوالی، جھنگ، قصور اور بھکر شامل ہیں۔ لیکن بہت بڑی آبادی والے اس ریجن میں کرکٹ کے باقاعدہ میدان انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔

فیصل آباد ریجن کی ٹیم نے کئی مرتبہ قائد اعظم ٹرافی، انڈر 19اور ٹی ٹوئنٹی کی چیمپئن شپ جیتی ہے۔ اس ریجن کے بہت سے کھلاڑیوں نے قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی بھی کی ہے جن میں سابق کپتان مصباح الحق، محمد حفیظ، آصف علی، شاہد نذیر اور سعید اجمل نمایاں ہیں۔ تاہم کھیل کے میدان کمیاب ہونے سے اب ناصرف اس ریجن کی فتوحات کا سلسلہ تھم گیا ہے بلکہ یہاں کرکٹ بھی ماند پڑتی جا رہی ہے۔

تاریخ اشاعت 10 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نعیم احمد فیصل آباد میں مقیم ہیں اور سُجاگ کی ضلعی رپورٹنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کیا ہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.