اسلام آباد میں 2017 میں کوڑے کے ایک ڈھیر پر ایک معجزاتی دریافت ہوئی۔ پاکستان اور چین کے نو سائنس دانوں کو اس جگہ سے ایک ایسی پھپھوندی ملی جو پلاسٹک کو کھا جاتی ہے۔
ان سائنس دانوں نے ایچ 10 سیکٹر میں واقع اس جگہ سے پھپھوندی کے نمونے لیے اور لیبارٹری میں ان کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ اس کا نام Aspergillus Tubingensis ہے اور یہ پلاسٹک کی اشیا پر مشتمل کوڑے کو تلف کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج بعدازاں ایمسٹرڈیم سے شائع ہونے والے 'ماحولیاتی آلودگی' نامی ایک عالمی جریدے میں شائع ہوئے۔ سائنسی زبان میں اس تحقیق کا عنوانBiodegradation of polyester polyurethane by Aspergillus Tubingensis تھا۔ اس تحقیق کے لیے مالی وسائل چائینیز اکیڈمی آف سائنسز اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے فراہم کیے تھے۔
اس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ اس پھپھوندی کا جال پولیسٹر پولی یوریتھین پلاسٹک (جو عام طور پر فوم اور ٹائر میں استعمال ہوتا ہے) کی سطح پر قبضہ جما لیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ پلاسٹک گل سڑ کر ختم ہو جاتا ہے۔
لاہور میں فارمن کرسچئن کالج یونیورسٹی میں سکول آف لائف سائنسز کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثمینہ مہناز کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق آلودگی اور کوڑے کرکٹ کے مسئلے پر قدرتی طریقوں سے قابو پانے کی نئی راہیں کھولتی ہے۔ وہ گزشتہ دس سال سے بائیو ٹیکنالوجی کی تعلیم دے رہی ہیں اور خود بھی ایک ایسے تحقیقی مضمون پر کام کر رہی ہیں جس میں ایسے بہت سے خورد بینی جرثوموں کا تجزیہ کیا گیا ہے جنہیں پلاسٹک پر مشتمل کوڑا ختم کرنے اور آلودہ پانی کو صاف کرنے کے لیے کام میں لایا جا سکتا ہے۔
تاہم وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد میں اس پھپھوندی کی دریافت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تا حال کچھ نہیں کیا۔
پھپھوندی پلاسٹک کو کیسے کھاتی ہے؟
مصنوعی طور پر بنایا گیا پلاسٹک اینٹوں سے بنی کسی دیوار کی طرح بہت سے مالیکیولوں سے بنا ہوتا ہے۔ یہ مالیکیول کیمیائی اجزا کے ذریعے آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ ان اجزا کی مثال سیمنٹ جیسی ہے جو دیوار میں لگی اینٹوں کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔Aspergillus Tubingensis پھپھوندی ان کیمیائی اجزا کو ختم کر دیتی ہے جس سے پلاسٹک کے مالیکیول ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ پھپھوندی عام طور پر زمین میں پائی جاتی ہے تاہم مردہ نامیاتی مادے پر پلنے والے دیگر جرثوموں سے برعکس یہ پلاسٹک کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتی ہے اور پلاسٹک کی سطح کو چند ہی ہفتوں میں توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
پھپھوندی کے ذریعے پلاسٹک کے کوڑے کو تلف کرنے کا یہ طریقہ حیاتیاتی تدارک (bioremediation) کہلاتا ہے۔ اس میں آلودگی کا باعث بننے و الی اشیا ایک حیاتیاتی تبدیلی کے ذریعے غیر زہریلے مادوں میں بدل جاتی ہیں اور اس طرح آلودگی میں کمی آ جاتی ہے۔ کوڑے کو توانائی کے ذریعے میں بدلنے کے لیے یہ طریقہ کار نا صرف آکسیجن استعمال کرنے والے خوردبینی جرثوموں بلکہ آکسیجن کے بغیر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھنے والے جرثوموں کی مدد سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے استعمال کی سب سے کامیاب مثال 2012 میں لندن اولمپکس سے پہلے دیکھنے کو ملی۔ جب اولمپکس کے لئے منتخب کی گئی جگہ پر صنعتی اور کیمیائی فضلے کی بھاری مقدار پائی گئی تو حکومت کی مدد سے سائنس دانوں نے اس پر پلاسٹک کھانے والے خوردبینی جرثومے چھوڑ دیے جنہیں archaea کہا جاتا ہے اور جن کے خلیوں میں مرکزہ نہیں ہوتا۔ ان جرثوموں نے اس جگہ پر پائے جانے والے زیر زمین پانی میں موجود انتہائی زہریلے امونیا کا خاتمہ کر کے اسے بے ضرر نائٹروجن گیس میں بدل دیا۔
دریائے راوی کے پانی کی صفائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے قائم کردہ کمیشن نے بھی 2012 میں اس سے ملتی جلتی تجویز دی تھی۔ متعدد سائنس دانوں اور ماہرین ماحولیات پر مشتمل اس کمیشن کا کہنا تھا کہ لاہور کے قریب بہنے والے راوی کے انتہائی آلودہ پانی کو صاف کرنے کے لیے بھی ایسے خوردبینی جرثوموں کو استعمال کیا جانا چاہیے۔
اس کمیشن کے رکن ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے سجاگ کو بتایا کہ کمیشن نے شہر کے جنوب مغربی کنارے پر بابو صابو کے مقام پر 50 ایکڑ پر مشتمل ایک دلدلی علاقہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی جہاں پیدا کیے جانے والے خوردبینی جرثوموں اور پودوں کے ذریعے راوی کے پانی کو ایسی چیزوں سے پاک کیا جانا تھا جو اسے آلودہ کرتی ہیں۔ یہ دلدلی جگہ بنانے کا مقصد گندے پانی کے ذخیرے میں hydrophytes نامی پودے اگانا تھا۔
کوثر عبداللہ ملک لاہور میں فارمین کرسچئن کالج یونیورسٹی میں سکول آف لائف سائنسز کے ڈین بھی ہیں۔ وہ اس طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پودے پانی میں ڈوبے رہتے ہیں اور زیرآب آلودگی کو دو طریقوں سے ختم کر سکتے ہیں۔ پہلے طریقے میں ان کی جڑیں دھاتی مرکبات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور دوسرے طریقے میں یہ پودے زیرآب ایسے خوردبینی جرثوموں کی موجودگی اور سرگرمی کو بڑھا دیتے ہیں جو ایک ایسا قدرتی ماحولیاتی نظام تشکیل دیتے ہیں جس میں پانی میں آلودگی کا باعث بننے والے اجزا ذریعہِ توانائی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
ماحول سے متعلق مسائل پر کام کرنے والے اور لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل احمد رافع عالم بھی راوی کمیشن کا حصہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر اندازاً پانچ کروڑ روپے لاگت آنا تھی اور لاہور ہائی کورٹ اور محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب دونوں نے راوی کو صاف کرنے کے لیے اس پر عمل درآمد کی منظوری بھی دے دی تھی تاہم حکومت نے اس کے لیے اب تک کوئی رقم مختص نہیں کی۔
محدود نتائج
ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ہر سال 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جا رہا ہے۔ اس تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2050 تک دنیا بھر کے سمندروں میں پلاسٹک کی مقدار مچھلیوں سے بڑھ جائے گی۔
اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے مجموعی کوڑا کرکٹ کا 65 فیصد پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے کیونکہ یہاں پلاسٹک سے بنے شاپنگ بیگ کا استعمال خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال پلاسٹک سے بنے 55 ارب شاپنگ بیگ استعمال ہوتے ہیں جبکہ ان کے استعمال میں 15 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
پلاسٹک کی اتنی بڑی تعداد کو تلف کرنا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اس لیے بھی گمبھیر ہے کہ پلاسٹک کو قدرتی طور پر تلف ہونے میں بہت طویل عرصہ لگتا ہے۔ چند سائنسی اندازوں کے مطابق پلاسٹک سے بنی اشیا کو مٹی کا حصہ بننے میں 450 سے 1000 سال تک درکار ہوتے ہیں جو کہ ایک بہت طویل عرصہ ہے۔ پلاسٹک سے جنم لینے والی ماحولیاتی آلودگی کی خطرناک سطح کو دیکھتے ہوئے ہم اس قدر طویل انتظار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ سائنس سے وابستہ لوگ اور سول سوسائٹی کے ادارے ایسے بہت سے طریقے تجویز کر رہے ہیں جن کے ذریعے پلاسٹک اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔ پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی کا استعمال ایسے بہت سے مجوزہ طریقوں میں سے ایک ہے۔ تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس طریقے سے کام لینا نہ تو آسان ہے اور نہ ہی یہ پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے۔
اسلام آباد میں دریافت ہونے والی پھپھوندی Aspergillus Tubingensis پر تحقیقی کام کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر شیرون خان کہتے ہیں کہ پلاسٹک کھانے والے خوردبینی جرثوموں کو دریافت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ڈاکٹر ثمینہ مہناز بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی کی نشاندہی کرنا بہت محنت طلب کام ہے۔ اس کے لیے ناصرف جدید خوردبینی ٹیکنالوجی درکار ہوتی ہے بلکہ طویل عرصہ تک ایسی جگہوں کی باقاعدہ نگرانی کرنا پڑتی ہے جہاں اس کے پائے جانے کا امکان ہو۔
یہ بھی پڑھیں
کوئلے کے صنعتی استعمال سے ماحول دشمن گیسوں کا اخراج: کون سا شعبہ کتنا ذمہ دار ہے؟
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی پھپھوندی مختلف جگہوں پر پیدا ہونے کی وجہ سے مختلف خصوصیات کی حامل ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ثمینہ مہناز کے مطابق پھپھوندی کی پلاسٹک کھانے والے خوردبینی جرثوموں کی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں جن میں درجہ حرارت، مٹی اور پانی میں تیزابی مادوں کی سطح اور وہ طبعی ماحول سب سے اہم ہیں جس میں یہ پھپھوندی پھلتی پھولتی ہے۔ ان عوامل میں کسی طرح کی تبدیلی بھی پھپھوندی کے پلاسٹک کھانے کی صلاحیت پر باآسانی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کا مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر کسی ایک طریقے سے قابو نہیں پایا جا سکتا۔ ڈاکٹر برائن کیسون کینیڈا کی یونیورسٹی آف مینیٹوبا میں محققین کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے مارچ 2020 میں یہ دریافت کیا تھا کہ مومی کیڑے (waxworms) بھی پلاسٹک کھا سکتے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ: "پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کا مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ اس کا خاتمہ اکیلے ان جرثوموں کے بس کی بات نہیں"۔
وقاص حمید بٹ کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں بشریات (اینتھروپولوجی) کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور لاہور میں کوڑا کرکٹ جمع کرنے کے کام پر تحقیق بھی کرتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ پلاسٹک کو جرثوموں سے ختم کرنےکا طریقہ محض محدود نتائج ہی پیدا کرتا ہے۔
سجاگ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ عالمگیر آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے قدرتی طریقے ڈھونڈنا اہم بات ہے تاہم ان طریقوں کو محدود پیمانے پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لیبارٹری میں ایسے جرثوموں کو پیدا کرنا اور ان سے مطلوبہ کام اور نتائج لینا تو آسان ہوتا ہے مگر جب انہیں بڑے پیمانے پر پیدا کرنا ہو تو بہت سی مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 30 جون2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 3 مئی 2022