پشاور میں بارش کا پانی تقریباً دو سو سال پرانے ایک نالے کے ذریعے شہر سے نکالا جاتا ہے۔ یہ نالا 1823 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں کھودا گیا تھا جس نے دو صدیوں تک شہر سے پانی کے نکاس کے واحد ذریعے کا کام دیا ہے۔ لیکن اب یہ بندوبست ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
2021 میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے مون سون کے موسم میں حفاظتی اقدامات کا جو منصوبہ بنایا تھا اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ پشاور کو شہری سیلاب (اربن فلڈنگ) کا خطرہ درپیش ہے اور اس کی دو وجوہات بیان کی گئیں جن میں شہر کے اندر متواتر اور بے ترتیب تعمیرات اور نکاسی آب کے بندوبست پر بھاری بوجھ شامل ہیں۔
نکاسی آب کے کام آنے والےاس نالے کا نام شاہی کٹھہ ہے تاہم اب یہ اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہا۔ جب یہ نالا بنایا گیا تو اس وقت پشاور اور گردونواح کی مجموعی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی جو اب پچاس لاکھ کےقریب پہنچ چکی ہے۔
کیپیٹل میٹروپولیٹن (ماضی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) کی جانب سے چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کو جمع کرائی جانیوالی رپورٹ کے مطابق شاہی کٹھہ پر گزشتہ 100برس کے دوران 239 سرکاری جبکہ 234 نجی تعمیرات کی جا چکی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ کہ ان تعمیرات کو غیر قانونی یا تجاوزات قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ انہیں سرکار نے مختلف ادوار میں قانونی حیثیت دیتے ہوئے الاٹمنٹ کر رکھی ہے۔کئی تعمیرات ایسی ہیں جن کی ملکیت 1923 میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے شہریوں کو دے دی تھی جبکہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پٹے یعنی لیز پر دی جانیوالی 110 دکانوں کے باعث بھی انتظامیہ کے لیے شاہی کٹھہ پر تجاوزات کے خلاف کارروائی مشکل ہو گئی ہے۔
سرکار کی اپنی تعمیرات میں بازار بٹیر بازاں میں 36، ریتی بازار میں 22، جناح مارکیٹ میں 18، محلہ خداداد میں 13، بازار دالگراں میں 12، چوک بزازاں میں 10، سبزی منڈی میں 8، جہانگیر پورہ میں 3 جائیدادیں الاٹ کی گئی ہیں۔ نالے پر تہہ بازاری پاس میں مختلف جگہوں پر بنائے گئے دس عوامی بیت الخلا بھی ان میں شامل ہیں۔
شاہی کٹھہ پر 234 نجی تعمیرات ہیں جن میں 109جائیدادیں عقب قصہ خوانی، 19جائیدادیں محلہ خداداد، 19جائیدادیں بازار بزازاں اور بازار دالگراں، 19 جائیدادیں موچی لڑہ میں واقع ہیں۔ ریتی بازار میں 17، سبزی منڈی میں 15، پل پختہ میں 13، ریتی بازار لوہاران سٹریٹ میں 11، بٹیر بازاں میں 9 اور ایجرٹن روڈ قصہ خوانی میں تین عمارتیں زیر تعمیر ہیں۔
اندرون شہر پشاور میں نکاسی آب کے ناقص نظام کو بہتر بنانے کے لیے سینیٹیشن کمپنی پشاور نے رواں برس مون سون کے فوری بعد ایک جائزہ مکمل کرتے ہوئے 25 مقامات کی نشاندہی کی، جنہیں ہاٹ سپاٹ قرار دیاگیا۔ جائزے کے مطابق پشاور کے 25 مقامات، کبوتر چوک، غریب آباد، پتنگ چوک، چلڈرن ہسپتال، نیشنل بینک کالونی ورسک روڈ، ہشت نگری چوک، مدینہ کالونی، چارسدہ اور رنگ روڈ کا سنگمی مقام، بادشاہ خان چوک، گلبہار پولیس سٹیشن، جی ٹی روڈ، درانی روڈ، سکندر پورہ بازار، لختی غاڑہ ڈرین، کوہاٹی گیٹ، نوتھیہ بازار پھاٹک چوک، مسکین آباد، عثمانیہ ریسٹورنٹ کے قریب یونیورسٹی روڈ، شاہی کٹھہ سے کوہاٹ روڈ ، گیس زون سی این جی ورسک روڈ اور لیبارٹری روڈ کی نشاندہی کرتے پوئے بتایا گیا کہ اگر ان مقامات پر نکاسی کا نظام بہتر نہ بنایا جا سکا تو پشاور میں سیلاب کا خطرہ موجود رہے گا۔
یونیورسٹی روڈ پر نکاسی آب کا مسئلہ پشاور بی آر ٹی کی تعمیر کے وقت نمایاں ہو کر سامنے آیا۔
اس وقت مبینہ سیاسی وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف کی سابق صوبائی حکومت کو اس منصوبے کی بروقت تکمیل درکار تھی۔ اس وقت یونیورسٹی روڈ پر نکاسی کا انتظام پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے پاس تھا جبکہ بی آر ٹی کا تعمیراتی کام بھی پی ڈی اے کررہی تھی، لہٰذا نکاسی کے نظام کو پس پشت ڈال کر بی آرٹی کی تعمیر کو ترجیح دی گئی اور اس کو مکمل کرلیا گیا، جس کا نتیجہ ہے کہ اب زیادہ بارش نہ بھی ہو تو یونیورسٹی روڈ پر بہت زیادہ پانی آجاتا ہے اور سڑک پر سیلاب کا منظر ہوتا ہے۔
جولائی 2022 میں پشاور رنگ روڈ اور یونیورسٹی روڈ کا انتظام پی ڈی اے کی جانب سے سینی ٹیشن کمپنی پشاور کے حوالے کر دیا گیا تاہم یہاں کی نکاسی کے نالوں کے نقشے فراہم نہیں کیے گئے جس کے باعث معاملات کافی عرصے تک جوں کے توں رہے، بعد ازاں صوبائی حکومت کی مداخلت پر نالوں کے نقشے بھی فراہم کیے گئے جس کے بعد رنگ روڈ پر کئی نالوں کی ماڈلنگ میں تبدیلی شروع کردی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
بڑھتی آبادی، بِکتی زمینیں، مٹتے کھیت، پھولوں کے شہر پشاور کو کنکریٹ نے ڈھک لیا
پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ (مرحوم) کی جانب سے ہدایات کے اجرا کے بعد شہر کے تمام متعلقہ اداروں کو ایک ساتھ بٹھا کر نکاسی آب کے لیے نالوں سے ہٹ کر متبادل نظام مرتب کرنے کا کام شروع کیا گیا اور اس سلسلے میں ایک منصوبہ تجویز کیا گیا جس کے تحت نکاسی کا پانی پشاور کی نہروں میں پھینکنے کے بجائے اس کے لیے الگ ڈرین بنائی جا رہی ہے۔
اس منصوبے کے لیے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے مرتب کردہ پی سی ون کے مطابق یہ منصوبہ ڈھائی ارب روپے کا تھا تاہم اب اس کی تخمینہ لاگت 8 ارب روپے سے تجاوز کرچکی ہے۔
تجدید شدہ پی سی ون کے مطابق یہ منصوبہ اب 8 ارب 8 کروڑ 32 لاکھ روپے میں مکمل ہوگا۔ اس لاگت میں نکاسی آب کے متبادل نظام کی فراہمی کے دوران متاثر ہونیوالی سڑکوں کی بحالی ، بجلی و دیگر سہولیات کی فراہمی اور اراضی کی خریداری بھی شامل ہے۔ اگرچہ یہ نظر ثانی شدہ تخمینہء لاگت اب تک صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی (پی ڈی ڈبلیو پی) میں منظور نہیں ہوسکی تاہم منصوبے کے پیکیج ون میں ورسک گریویٹی کینال پر 80 فیصد، ہزار خوانی کینال پر 70 فیصد جبکہ کابل ریور کینال پر 75 فیصد کام کرلیا گیا ہے۔
اس منصوبے کی تکمیل سے یہ امید رکھی جا رہی ہے کہ اس کی بدولت ناصرف نہروں کو گندے پانی کی آلودگی سے بچایا جا سکے گا بلکہ پشاور میں نکاسی کے مسئلے کی شدت میں بھی کمی آئے گی۔
تاریخ اشاعت 4 اکتوبر 2023